شرد پوار: مہاراشٹر کی مہابھارت کا بھیشم پتامہ

مہاراشٹر کی حالیہ مہابھارت کے دوران این سی پی رہنما اور سابق نائب وزیر اعلیٰ چھگن بھجبل نے ایک مرتبہ اعلان کردیا کہ شرد پوار کو انتخاب کے بعد وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھال لینا چاہئے ۔ شردپوار نے بڑی انکساری سے معذرت چاہتے ہوئے کہا اب میری عمر ۷۵ سال ہونے والی ہے مجھے کسی عہدے کی طلب یا خواہش نہیں ہے۔ اس مکالمہ بازی کو پڑھ کر بے ساختہ مشہوررزمیہ داستان مہابھارت کے بھیشم پتامہ کی یاد آگئی۔ جس وقت پوار نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا اس وقت وزارت اعلیٰ کے دوبڑے دعویدار ادھو ٹھاکرے اور ویویندر فردنویس پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ بھیشم پتامہ نے بڑی لمبی عمر پائی تھی یہی حال پوار کا ہے۔ پوار کے ساتھ کام کرنے والے اکثرسیاستداں کیلاش واسی ہوچکے ہیں اورجو یم دوت کے ہتھے نہیں چڑھےوہ مودی جی اور راہل جی کے ہاتھوں سبکدوش کردیئے گئے۔بھیشم پتامہ اپنے لیے نہایت پروقارموت منتخب کرسکتا تھااس لئےکہ اس کو اپنی موت کے انتخاب کا وردان ملا تھا لیکن مہابھارت گواہ ہے کہ وہ بڑےعبرتناک انجام سے دوچار ہوا اور اپنے بھائی کے پوتےارجن کے ہاتھوں مارا گیا۔ شرد پوار کے سیاسی ارتھی کو اٹھانے کی ذمہ داری بھی ان کے بھتیجے اجیت پوارنے انجام دی ۔مہاراشٹر کے اور مہابھارت کےبھیشم پتامہ میں بے شمار مشابہت پائی جاتی ہیں۔

شردپوار سے لوگوں نے ہمیشہ ہی غلط توقعات وابستہ کیں اور انہوں نے ہر بار عوام کو مایوس کیا ۔شرد راؤ جی پوار کی آرزو مندی اور اور ابن الوقتی ان سے ہر دس پندرہ سال میں ایک حماقت سرزد کرواتی رہی اور وہ بیچارے منہ کی کھاتے رہے ۔ ؁۱۹۶۷ میں شردپوار نے یشونت راؤ چوان کی انگلی پکڑ کر مہاراشٹر کی سیاست میں قدم رکھا اور بارامتی سے اسمبلی کے انتخاب میں کامیابی حاصل کی ۔ وسنت دادا پاٹل نے انہیں وزارت سے نواز ہ لیکن جس طرح بھیشم پتامہ نے اپنے گرودیو پرسورام کو قتل کیا اسی طرح شرد پوار نے دہلی میں سرکار کے بدلتے ہی اپنے استاد وسنت دادا کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ۔نوجوان شرد پواردس سال سےوزیراعلیٰ بننے کا خواب سجا رہا تھا اس لئےجیسے ہی موقع ملا تو فوراًاپنی پارٹی سے غداری کرکے نہ صرف الگ ہوگیا بلکہ ترقی پذیر محاذ بنا کر وزیرا اعلیٰ بن گیا ۔ اس وقت انہیں جنتا پارٹی میں بی جے پی کی بلاواسطہ حمایت حاصل تھی جو شامل تھی۔ اس طرح مہاراشٹر میں کانگریسی قلعہ کے اندر شگاف ڈالنے کا اولین کارنامہ پوار جی کے نام جاتا ہے۔

جنتا سرکار جلد ہی آپس کی سرپھٹول کا شکار ہو کر بکھر گئی اور جب اندرا گاندھی نے دوبارہ اقتدار سنبھالا تو شرد پوارکو اپنے کئے کی سزا دیتے ہوئےان کی حکومت برخواست کردی ۔ ؁۱۹۸۰ کے اندرمنعقد ہونے والے انتخابات میں کانگریس پھر سے اقتدار میں آگئی اور دہلی و ممبئی میں ہل بردار کسان (جنتا پارٹی کا نشان)کی جگہ کانگریسی گائے اور بچھڑا(یعنی اندرا اور سنجے) کا بول بالا ہوگیا ۔ اس کے بعد تقریباً سات سال اقتدار سے محروم رہنے کے بعد ؁۱۹۸۷ میں شرد پوار کانگریس میں لوٹ آئے اور وزیر اعلیٰ بنا دئیے گئے ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ کانگریس کلچر کے تحفظ کی خاطر واپس ہوئے ہیں ۔ ؁۱۹۹۵کے انتخاب سے قبل شردپوار کو اندازہ ہوگیا تھا کہ نرسمھا راؤ انتخاب کے بعد انہیں بن باس پر روانہ کردیں گے اس لئے پوار نے اپنی جماعت کے خلاف باغی امیدوار کھڑے کئے تاکہ اکثریت سے محرومی کی صورت میں انہیں اپنے وفادار مگر پارٹی کےباغی ارکان کی مدد سے حکومت سازی کا موقع ملے اور ان کے اقتدار محفوظ ہو جائے ۔

مہابھارت کی جنگ میں بھیشم پتامہ گوکہ کورووں کا کماندار تھا لیکن اس پر یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ پا نڈووں کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے ۔ وہ اپنی فوج کے جوانوں کو قتل ہوتے ہوئے دیکھتا ہے مگر ماہر تیر انداز ہوتے ہوئے بھی دشمن فوج پر تیر نہیں برساتا۔ دریودھن کے اس الزام سے ناراض ہو کر ایک مرتبہ بھیشم پتامہ نے اپنے طلائی تیر اٹھا بھی لئےتاکہ پانڈو فوج کا تمام کردے لیکن دریودھن نے اس پر بھروسہ کرنے کے بجائے اس سے تیر اپنے قبضے میں کر لئے ۔ شردپوار کی بھی کانگریس میں یہی حالت ہوگئی تھی کہ انہیں کانگریسی دشمن کا آدمی سمجھنے لگے تھے ۔ ان کی انتخابی حکمتِ عملی ناکام ہو چکی تھی ۔بی جے پی کا قومی جمہوری محاذ دہلی میں جیسے ہی اقتدار پر قابض ہوا اسی طرح مہاراشٹر میں بھی شیوسینا کے منوہر جوشی بی جے پی کی مدد سےوزیر اعلیٰ بن گئےگویا دہلی و ممبئی دونوں مقامات پر زعفرانی پرچم لہرانے لگا تھا ۔

؁۱۹۹۹ میں جب پرمود مہاجن نے ’’چمکتا دمکتا ہندوستان‘‘ نام کی مہم چلائی تو شرد پوار کو غلط فہمی ہو گئی کہ بی جے پی پھر ایک بار کامیاب ہو جائیگی اس لئے انہوں نے دوسری بار بغاوت کرکے راشٹر وادی کانگریس بنالی لیکن قدرت کا کرنا یوں ہوا کہ دہلی سے اٹل جی ٹل گئے اور مہاراشٹر میں کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرآئی ۔ اب شردپوار نے بلاتکلف اس کانگریس سے ہاتھ ملا لیا جس کے خلاف انتخاب لڑا تھا ۔ کانگریس بھی اقتدار کی خاطر ان سے بغلگیر ہو گئی اور این سی پی کے چھگن بھجبل نائب وزیر اعلیٰ بنا دیئے گئے ۔ ؁۲۰۰۵ کے انتخاب میں شرد پوار نے کانگریس کے ساتھ مل کر انتخاب لڑا اور ان کی این سی پی نے کانگریس کی بہ نسبت دو عدد زیادہ نشستیں حاصل کیں ۔ اصولاً اس بار مہاراشٹر میں این سی پی کا وزیر اعلیٰ ہونا چاہئے تھالیکن شردپوار نے اپنی پارٹی کی پشت میں چھرا گھونپتے ہوئےمرکزی وزارت کے عو ض وزیراعلیٰ کی کرسی بیچ دی ۔

؁۲۰۰۵کے بعد سے وہ کانگریس کی مرکزی حکومت میں وزیربنے رہے ۔ ؁۲۰۰۹ میں ان کی حالت شیوسینا کی مانند پتلی ہوچکی تھی اس لئے جہاں سینا کو بی جے پی سے دونشستیں کم ملیں وہیں این سی پی کو کانگریس کے مقابلے ۲۰ نشستیں کم ملیں ۔ ؁۲۰۱۴ کے ریاستی انتخابات سے قبل دہلی میں پھر ایک بار بی جے پی کی حکومت قائم ہو چکی تھی ۔ پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی اور سینا نے مل کرکانگریسیوں کا مکمل صفایا کردیا تھا ۔ شرد پوار نے سوچا کانگریس کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا یہ نادر موقع ہے اس لئے انہوں حالیہ انتخاب میں نصف نشستوں کا مطالبہ کردیا اور نصف مدت کیلئے وزارت اعلیٰ کی کرسی پر اصرار کرنے لگے جو نہایت نامعقول بات تھی ۔

ایسا اس لئے ہوا کہ شرد پوار جیسے گھاگ سیاستدان کو اندازہ ہو چکا تھا کہ اس بار کملا بائی (یعنی بی جے پی) جس کے بارے میں بال ٹھاکرے کہا کرتےتھے کہ اس کی نظر ہمیشہ کھڑکی کی جانب رہتی ہے اپنی نیت بدل چکی ہے ۔ اس نے سینا کے ساتھ اپنا ۲۵ سال پرانا بندھن توڑ کرباہر چھلانگ لگانےکا ارادہ کرلیا ہے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر پوار نے نہ صرف کانگریس کے ساتھ الحاق کرنے سے انکار کیا بلکہ صوبائی حکومت سےاپنی حمایت واپس لے کر وزیراعلیٰ کو چلتا کردیا ۔ اس طرح گویا انتخاب کے نازک موقع پرپوار جی نے اقتدار کی کنجی گورنر کے توسط سے بی جے پی کے حوالے کر دی ۔ شرد پوار کو یقین ہے کہ ان کے اس احسان کی قدردانی ضرور کی جائیگی حالانکہ انتخابی سیاست سے احسانمندی عنقاء ہو چکی ہے۔

شرد پوار کو یہ توقع بھی ہے کہ بی جے پی کوواضح اکثریت حاصل نہیں ہوگی جس کی گواہی ایک کے علاوہ سارے انتخابی اندازوں میں ظاہر کیا گیا ہے۔ ایسے میں بی جے پی کیلئے شیوسینا کی بہ نسبت این سی پی اچھا معاون ثابت ہوگی اس لئے راشٹروادی مطالبات شیوسینا کے مقابلے کم ہوں گے نیز اگر بی جے پی مرکزی حکومت سے شیوسینا کے وزیر کو نکال کر وہ کرسی شردپوار یا ان کی بیٹی کے حوالے کردے شرد راؤ جی پوار کا آخری خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائیگا۔ مہاراشٹر کی مہابھارت میں سیاسی بساط لپیٹی جاچکی ہے۔اقتدار کی خاطر عزت و ناموس کی علامت دروپدی کو داؤں پر لگا یا جاچکا ہے ۔ اب سارا ملک اس کے وسترہرن کےدرشن کامنتظر ہے ۔ ٹیلی ویژن کے کیمرے اس کوبراہِ راست نشر کرنے کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شرد راؤ جی کی یہ آخری خواہش پوری ہوگی یا نہیں ؟

ویسے مہا بھارت میں بھیشم پتامہ کی موت کا منظر نہایت دلچسپ ہے۔ بھیشم چونکہ اپنی موت پر اختیاررکھتا تھا اس لئے کوئی اور اسے مار نہیں سکتاتھا۔ جنگ طویل ہوتی جارہی تھی اس کے خاتمہ کیلئے سپہ سالار بھیشم کا مرنا ضروری تھا اس لئے بھیشم نے اپنے مخالفین کے سامنے ایک عجیب و غریب شرط رکھ دی اور ان سب کو مخمصہ میں ڈال دیا۔ اس نے کہا کہ اگر میرے سامنے پانڈو کسی ایسے شخص کو لے آئیں جو نہ مرد ہو اور نہ عورت تو وہ اس پر تیر نہیں چلائے گا اس لئے کہ ایسا کرنا اس کے وقار کے خلاف ہے ۔ پانڈو فوج کیلئے کسی مخنص کو اپنے ساتھ میدانِ جنگ میں اتارنا ایک قابلِ شرم بات تھی۔ شرد پوار نے جب بی جے پی کے سامنے یہ شرط رکھی ہوگی کہ پہلے سینا سے ناطہ توڑو تب سرکار گراوں گا تو امیت شاہ کی بھی یہی حالت ہوئی ہوگی۔

اس صورتحال میں کرشنا نے ارجن کو سمجھایا کہ اسے وقار کا مسئلہ نہ بنائے بلکہ شکھنڈی کو اپنے رتھ میں سوار کرکے میدان جنگ میں اترے۔ ارجن نے یہی کیا لیکن وہ بھیشم کے تیروں کی تاب نہ لاسکا اور اس کے رتھ کا پہیہ ٹوٹ گیا۔ اس موقع پر کرشنا نے رتھ کو تھام لیا اور بھیشم کی طرف بڑھا ۔ کرشنا نے قسم کھا رکھی تھی کہ وہ میدانِ جنگ میں ہتھیار نہیں اٹھائیگا لیکن بھیشم نے اسے عہد توڑنے پر مجبور کردیا۔ جب بھیشم اور ارجن آمنے سامنے ہو گئے تو بھیشم نے کہا کہ وہ اگر شھکنڈی کی آڑ میں چلا جائے تو اس پر تیر نہیں چلائے گا۔ ارجن نے یہی کیا بھیشم نے اپنی کمان رکھ دی۔ ارجن نے تیر چلا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔مہاراشٹر کی اس مہابھارت میں بھیشم کون ہے یہ تو آپ کو پتہ چل گیا لیکن اب قارئین کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس مہابھارت میں شکھنڈی کون ہے ؟ ارجن کون ہے اور کرشنا کون ہے؟ اگر ان سوالات کے جواب نہ ملیں تو انتخابی نتائج کے آنے کا انتظار
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451165 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.