المیہ
(Sami Ullah Malik, London)
بالآخرکابل میں انتہائی سیکورٹی
کے سخت انتظامات اور امریکی اور نیٹو افواج کے سائے میں افغانستان میں
امریکی فارمولے کے مطابق شراکت اقتدارکے تحت اشرف غنی نے نئے صدراور
عبداللہ عبداللہ نے چیف ایگزیکٹو کے عہدے کاحلف اٹھالیا۔حلف لینے کے فوری
بعد ڈاکٹر اشرف غنی نے چیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ کی تعیناتی کے قانون
پردستخط کرنے کے بعد عبداللہ عبداللہ سے حلف لینے کے بعدان سے بغل گیر
ہوکراپنے مربی وآقاکویہ پیغام ِاطاعت کاواضح اشارہ دیاکہ اقتدارکی خاطر
حریف کوبھی گلے لگایاجا سکتا ہے۔ تقریب میں غیرملکی صدور سمیت دوسواہم
شخصیات میں صدرِپاکستان ممنون حسین بھی شریک تھے۔عبداللہ عبداللہ نے حلف
برداری کے دوران کہا کل کے حریف آج ایک ٹیم بن چکے ہیں اور وہ ایک ہوکر ملک
کی ترقی کیلئے کام کریں گے۔
تقریب حلف برداری سے خطاب کے دوران ڈاکٹراشرف غنی احمدزئی نے طالبان اورحزبِ
اسلامی کوباضابطہ طورپرمذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہاکہ افغانستان میں
پختون روایات کے مطابق جرگے کے ذریعے اگرمذاکرات کئے جائی تو کامیاب ہو
سکتے ہیں۔ وہ یہ بھول گئے کہ جن کووہ مذاکرات شروع کرنے کی دعوت دے رہے
ہیںٹھیک ایک ہفتے کے بعد امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک معاہدے پردستخط کے
بعد٣١دسمبر٢٠١٤ء کے بعد امریکی فوج کوافغانستان میں رہنے کاقانونی جوازمل
جائے گا تو مذاکرات کی دعوت ایک سنگین تاریخی مذاق بن جائے گاکیونکہ
افغانستان میں امریکی فوج کورہنے کیلئے اقوام متحدہ سے آخری
بار٣١دسمبر٢٠١٤ء تک کامینڈیٹ ملاہے اوراب روس اورامریکاکے تعلقات انتہائی
کشیدہ ہونے کی وجہ سے روس مزیداس مشن کی توسیع کوسلامتی کونسل سے منظورنہیں
ہونے دے گاجس کی وجہ سے امریکا افغانستان کے اسٹرٹیجک معاہدے پردستخط کیلئے
گزشتہ جنوری سے کوششوں میں لگا ہواہے اورمعاہدہ طے پانے کے باوجود پچھلے دس
ماہ میں وہ اپنے پروردہ ایجنٹ حامد کرزئی سے بھی معاہدے کی دستاویزپردستخط
نہیںلے سکاجبکہ امریکانے دستخط نہ کرنے کی صورت میں افغان پولیس اورفوج کی
تنخواہ دینے سے نہ صرف معذرت ظاہر کردی تھی بلکہ اپنی تمام فوج کونکالنے
کابھی اعلان کردیاتھا۔امریکااورکرزئی کے درمیان اس معاہدے پردستخط کے
معاملات پرشدیداختلافات پیداہوگئے تھے ۔
ادھردوسری جانب طالبان نے ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے مذاکرات کی دعوت
کوفوری مستردکرتے ہوئے کہاکہ یہ پہلے سے طے شدہ تھاکہ انتخابات کے نام پر
افغان عوام کو بیوقوف بنایاگیااورطالبان نے پہلے سے لوگوں سے کہاتھاکہ یہ
انتخابات افغان عوام کی خواہشات کے مطابق قطعاًنہیں ہوں گے کیونکہ ان
انتخابات کافیصلہ پہلے سے واشنگٹن میں ہو چکاہے جس کا ثبوت عبداللہ عبداللہ
اوراشرف غنی کے درمیان اتحادی حکومت کی تشکیل ہے ۔اگراسی طرح دونوں
کواقتدارمیں لاناتھاتوافغان عوام کے اربوں روپے کانقصان کیوں کیاگیا؟
طالبان ذرائع کے مطابق امریکی اسٹرٹیجک معاہدے پردستخط کے بعدان سے مذاکرات
بے معنی ہوکررہ گئے ہیں بلکہ اس حکومت نے امریکاکااتحادی بن کراپنے اصلی
چہرے سے پردہ اٹھادیاہے جبکہ طالبان اوردیگرمزاحمت کارافغانستان میں
امریکااوراتحادی افواج کے قیام کے خلاف ہیں جس کونکالنے کیلئے ہم پہلے دن
سے برسرپیکارہیں پھربھلاان سے مذاکرات کیسے ممکن ہے جس نے ایک غیرقانونی
قبضے کی توسیع کی منظوری دی ہو۔ افغان قوم متحدہے اور انشاء اللہ امریکی
اوراس کے اتحادی دسمبرسے قبل بھاگ رہے ہیںاورآئندہ موسم بہارافغان عوام
کیلئے واقعی بہارہوگاجب سارے افغانستان پرمجاہدین کی حکومت ہوگی۔
دوسری جانب حزبِ اسلامی نے بھی اشرف غنی کی مذاکرات کی دعوت کوسختی سے
مستردکرتے ہوئے کہاکہ ہم اس سے قبل کئی مرتبہ امریکاسے مذاکرات کی دعوت
کوردکرچکے ہیں جو افغانستان میں اس وقت قابض فریق ہے ۔ایک بھی افغان جب تک
زندہ ہے غیر ملکیوں کے خلاف جدوجہدجاری رہے گی۔اس پیشکش کاکوئی مقصد نہیں
ہے ،ہم نہ صرف ڈاکٹر اشرف غنی کو متنبہ کرتے ہیںکہ انہوں نے اسٹرٹیجک
معاہدے پردستخط کرکے نہ صرف اس غاصب امریکاکوافغانستان میں مزیددس سال
کیلئے افغان عوام کو شہیدکرنے کا لائسنس دیاہے بلکہ افغانستان کے اندرلوگوں
کے مذہب اورثقافت سے کھلواڑکرنے کی کھلی چھٹی بھی دی ہے جبکہ امریکی قبضے
کے دوران عیسائی مشنری اوراین جی اوزنے افغان عوام کے اسلام اور ایمان
کونقصان پہنچانے کیلئے لاتعدادبارمکروہ کوششیں کی ہیں اوراب تواس معاہدے کے
بعدان کے حوصلے مزیدبڑھ جائیں گے،اس لئے اس معاہدے کے بعداشرف غنی کی حکومت
افغان عوام کے قتل میں براہِ راست شریک ہوں گے اوروہ بھی افغان عوام کے
ویسے ہی دشمن سمجھیں جائیں گے جیساکہ امریکااوراس کے اتحادی ہیں البتہ
اگروہ امریکا سے معاہدے پردستخط کرنے سے انکار کردیتے توان کے ساتھ نہ صرف
حزبِ اسلامی بلکہ دیگرمزاحمتی گروپ بامعنی مذاکرات کے ذریعے افغانستان کے
اندرایک اسلامی اورفلاحی ریاست کے قیام کیلئے مشترکہ کوششیں کرسکتے تھے
لیکن انہوں نے یہ موقع گنوادیاہے اس لئے امریکی فوج کوتوسیع دینے اوردوسری
طرف مذاکرات دومتضادچیزیں ہیں۔
امریکانے افغانستان میں اپنے قانونی قیام کیلئے شراکت اقتدارکے ذریعے فی
الحال اپنے مفادات کے مستقبل کی پہلی سیڑھی پرقدم تورکھ دیاہے تاہم اصل
امتحان افغانستان میں کابینہ کی تشکیل اورسیکورٹی کے انتطامات کوسنبھالناہے
جب دسمبرسے قبل کئی ممالک کے فوجی افغانستان میں اپنامشن مکمل کرکے یہاں سے
چلے جائیں گے تو افغانستان میں طالبان اورحزب اسلامی کے حملے کیسے روکے
جاسکیں گے اورکس طرح افغان فوج اورپولیس کومتحدرکھاجاسکے گاکیونکہ عبداللہ
عبداللہ اوراشرف غنی کے درمیان طاقت کے حوالے سے رسہ کشی موجود رہے گی
اوراس وقت کیونکہ امریکاکواسٹرٹیجک معاہدے پردستخط مطلوب تھے اس لئے شراکت
اقتدارکادانہ ڈال کر دونوں کو جال میں پھنسالیا،اب اگرمستقبل میں حالات
قابوسے باہرہوتے ہیں تو امریکاکیلئے دوبارہ انتخابات کراناکوئی مسئلہ نہیں
ہوگا۔جس طرح سابق افغان صدرچغہ پوش مسخرہ حامدکرزئی کوگزشتہ گیارہ سال
امریکانے اپنے مقاصدکیلئے استعمال کرکے پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات
کوخراب کرایااسی طرح اشرف غنی اورعبداللہ عبداللہ کوبھی امریکااپنے
مقاصدکیلئے استعمال کرتارہے گاوگرنہ امریکاکی پالیسی توسب ہی واقف ہیں کہ
امریکاکا اپنے دوستوں کے شکارمیں نشانہ کبھی خطانہیں ہوتا۔ ادھر یہ اطلاع
بھی آئی ہے کہ کرزئی اپنے مستقل قیام کیلئے عنقریب شملہ روانہ ہونے والے
ہیں!
اس سے بڑانہیں المیہ کوئی کہ سعد
مجھ کوامان نہ دے سکا میراہی اپناگھر |
|