ملتان میں ہونے والے ضمنی الیکشن
میں جاوید ہاشمی کی شکست نہیں بلکہ عوام نے اس نظام کو شکست دی ہے جو غلامی
کی پیداوار اور مزید غلام پیدا کررہا تھا یہ ایسا ظالمانہ نظام ہے کہ جس
میں ایک مظلوم کو انصاف کے حصول کے لیے خود کو آگ لگانا پڑتی ہے اپنے
پیاروں کی لاشیں کئی کئی گھنٹے گورنر ہاؤس کے دروازے کے سامنے سڑک پر رکھ
کر احتجاج کرنا پڑتا ہے ، غریب اور بے سہارا افراد کوہمارے تھانوں میں داخل
ہونے سے قبل کوئی سفارش ڈھونڈنی پڑتی ہے یا کرپٹ نظام کے محافظوں کی جیب
میں پیسے ڈالنے پڑتے ہیں اس کے بعد فرعون صفت پولیس اہلکار اس مظلوم کو
جھوٹی تسلی دیکر چلتا کردیگا یہ جاوید ہاشمی اکیلے کی ہار نہیں ہے بلکہ یہ
وزیراعظم میاں نواز شریف ،وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف ،پیلز پارٹی کے
شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان جیسے تمام وڈیرے سیاستدانوں کی بری طرح
شکست ہے جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر عوام سے ہی ڈرنے لگ جاتے ہیں اور
عوام سے اپنی حفاظت کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار اپنے ساتھ
رکھ لیتے ہیں یہ صرف ایک جاوید ہاشمی کی شکست نہیں ہے بلکہ پاکستان کے ہر
اس فرد کی شکست ہے جس نے ملک وقوم کی خدمت کے نام پر اپنے آپ کو داغی کرلیا
تھا اور آج یہ داغی ملک کے ہر شعبے پر قابض ہوچکے ہیں جس سے عام انسان کا
نظام زندگی درہم برہم ہوچکا ہے صرف چند دنوں کے دھرنوں نے عوام کو شعور کی
وہ بلندیاں عطا کردی ہیں کہ جو ہمارا معاشرہ برسوں میں بھی نہیں دے سکا اب
اس غلامانہ اور بوسیدہ نظام کا خاتمہ قریب ہے یہ وہی باغی جاوید ہاشمی تھا
جو ایک وقت میں ملتان اور راوالپنڈی سے الیکشن جیت جاتا تھااور اب وہی
جاوید ہاشمی ہے جسے اسی کے گھر والوں نے بری طرح داغی کر دیا ہے ملتان کے
اس سیاسی دنگل نے جہاں مسلم لیگ ن بلخصوص میاں برادران کی سیاست کا عرق
نکال دیا ہے وہی پر پیپلز پارٹی کا بھی سب کو پتہ چل گیا ہے کہ وہ کتنے
پانی میں ہے اور عوام کے دلوں میں اب بھٹوبھی زندہ نہیں رہا بلکہ اب زرداری
کی لوٹ مار کے قصے زندہ ہیں ہماری سیاست میں تو ہر جگہ داغی بیٹھے ہی ہوئے
ہیں مگر ہمارے تمام سرکاری اداروں میں بھی داغیوں کی بھر مار ہے جن کی وجہ
سے ملک کے ادارے بھی خستہ حالی کا شکار ہو چکے ہیں جس طرح تبدیلی اب سیاسی
میدان میں آرہی ہے ویسی ہی تبدیلی اب سرکاری اداروں میں بھی آنی چاہیے ہر
ادارے میں داغیوں کی بھر مار ہے میں نے متعدد بار غازی بروتھا کے حوالہ سے
لکھا کہ محکمہ واپڈا کے ڈاکو وہاں پر بیٹھے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے ملک کا
اربوں روپے کا نقصان ہوامگر ہمارے معاشرے کے ان داغیوں نے ان چوروں اور
لٹیروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا یہاں تک کہ بجلی کے وزیر جو سارا دن
بلند وبانگ دعوے دعوے کرتے نہیں تھکتے انہوں نے بھی سابقہ حکومت کے واپڈا
ملازمین کے اس کارنامے پر پردہ ڈال دیا جن کی وجہ سے پوار ملک اندھیرے میں
ڈوب گیا تھا اسی طرح کے نااہل اور ملک دشمن ایجنٹوں سے ہمارے تمام محکمے
بھرے پڑے ہیں جن کی وجہ سے آج وہ خود تو بڑے عیش آرام سے زندگی گذار رہے
ہیں اور ہمارے ادارے تباہ کردیے گئے ان سب بربادیوں میں ہمارے سیاستدانوں
کو بڑا عمل دخل ہے جنہوں نے اقتدار میں آتے ہی سرکاری ملازمین کو اپنے اپنے
مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا پنجاب میں کسی بھی جگہ حکومتی جماعت
کا کوئی جلسہ ہو تو وہاں پر سرکاری ملازمین کو پہنچنے کی ہدایت کردی جاتی
ہے اب کراچی میں پیپلز پارٹی کے جلسہ کے لیے پورے سندھ کے سرکاری ملازمین
کو زبردستی وہاں پر پہنچایا گیا بلکہ دفتروں میں چھٹی دیکر سیاسی میدان میں
رجسٹررکھ دیے گئے اور ہر ضلعی صدر کے ذمہ بسوں کا قافلہ لگا دیا گیا پنجاب
کے صدر منظور وٹو کے ذمہ ٹرین کے اخراجات تھے مگر انہوں نے وہ بھی کسی اور
کے کھاتہ میں ڈال دیے جہاں سرکاری ملازم اپنے دفتروں کے کام کی بجائے ذاتی
اور اپنے اوپر والوں کے کاموں میں لگ جائیں تو وہاں پر ادارے ایسے ہی تباہ
ہوتے ہیں جیسے ہمارے ادارے تباہ ہوچکے ہیں اب جیسے جیسے عوام میں شعور آتا
جارہا ہے ویسے ویسے ان اداروں میں بیٹھے ہوئے داغیوں کے احتساب کا وقت بھی
نزدیک آتا جارہا ہے اگر ہمارے نظام میں برسوں سے پیدا کی ہوئی خرابیاں ٹھیک
ہو جائیں تو پھر ہمیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی جو اب
ہمارے حکمران ہر چھ ماہ بعد امداد کے لیے کشکول اٹھا کر مانگنا شروع کردیتے
ہیں اور حقیقت میں ان مانگنے والے بھکاریوں کا ہی سب سے زیادہ فائدہ ہوتا
ہے آخر میں اپنے پڑھنے والوں کے لیے عرض کردوں کہ پنجاب کے گورنر چوہدری
سرور کی چھٹی ہونے والی ہے اور انکی جگہ ابھی حال ہی میں ملتان کا ضمنی
الیکشن ہارنے والے باغی جاوید ہاشمی کو گورنر پنجاب بنائے جانے کا امکان ہے
اور اس کا فیصلہ آئندہ چند روز میں کردیا جائیگا اگر جاوید ہاشمی کو گورنر
پنجاب جیسے منصب پر فائز کردیا جاتا ہے اور وہ عمر کے جس حصے میں ہیں تو
کیا وہ اپنے عہدے سے انصاف کرسکیں گے مگر اب تو ویسے بھی دور بدل رہا ہے
ملتان میں الیکشن کے دنوں میں جو نعرے بازی انکے خلاف ہوتی رہی وہ لاہور
میں بھی انکا پیچھا کریگی اور ایک گورنر کو ایک ہی وقت میں دو دو مخالف
نعروں کا برداشت کرنا مشکل ہوجائیگا ۔ |