اسلامی جمہوریہ پاکستان کا خرافاتی آئین اور فحش جمہوریت ....!
(MIAN WAQAS SADIQ, Lahore)
کچھ عرصے سے میں شدید ذہنی
اضطراب میں مبتلا ہوں سوچوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو کہ ختم ہی نہیں
ہوتا ۔ سارا دن دفتری مصروفیات کے بعد تھکے ہارے جب گھر واپس آﺅ اور ملکی
صورتحال سے آگاہی کیلئے جیسے ہی ٹی وی آن کریں تو جو الفاظ سب سے پہلے آپ
کی سماعت کے دروازے پر دستک دینگے وہ آئین اور جمہوریت ہیں ۔ہمارے نام نہاد
عوامی لیڈر سارا دن عوام کی مشکلات کا حل نکالنے کی بجائے پارلیمنٹ اور ٹی
وی چینلز پر بیٹھے جمہوریت کا راگ آلاپنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ 2014ءکے شروع
سے لیکر ابتک پاکستان میں سب سے زیادہ بولے جانیوالے الفاظ میں جمہوریت اور
آئین سرفہرست ہیں میں سوچ رہا تھا کہ کیونکہ گینز ورلڈ ریکارڈ والوںکی توجہ
اس جانب مبذول کراﺅں کے بھائی یہ بھی ایک ورلڈ ریکارڈ ہے کہ 2014ءبلکہ دنیا
کی تاریخ میں سب سے زیادہ آئین اور جمہوریت کے الفاظ کا استعمال پاکستان
میں کیا گیا ہے تو کیوں نہ پاکستان کا نام اس حوالے سے گینزبک آف ورلڈ
ریکارڈ میں شامل کیا جائے اور یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جو ابتک نہ کسی دوسرے
ملک نے بنایا ہے اور نہ ہی کوئی اور ملک اس ریکارڈ کو توڑ سکے گا۔
میںتذبذب کا شکار اور سوچنے سے بالکل قاصر تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم
67ءسالوں سے پاکستان میں آٰئین اور جمہوریت کی حکمرانی قائم نہیں کرسکے پھر
سوچا کہ پاکستان میں تو آئین اور جمہوریت کا نام و نشان تک نہیں ہے تو پھر
حکمرانی کاہے کی قائم ہوگی۔آج بہت سے لوگ جمہوریت کے چمپئن بنتے ہیں اور ہر
وقت ایک ہی راگ آلاپتے ہیں کہ ہم نے جیلیں کاٹیں، ہم نے جمہوریت کیلئے یہ
قربانی دی وہ قربانی دی ۔جبکہ درحقیقت وہ جمہوریت کی آڑ میں اپنی خودساختہ
فحش جمہوریت کو بچاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آج لاکھوں نے بلکہ اربوں
کھربوں پتی ہیں۔ ان نام نہاد جمہوری لیڈروں نے آئین اور جمہوریت کے لفظ کو
اس قدر بدنام کر دیا ہے کہ عوام اب جمہوریت اور آئین کے لفظ کو ایک گالی
سمجھتے ہیں۔
پاکستان کے فحش جمہوری لیڈروں کا حال یہ ہے کہ اپنے اقتدار کی خاطر ”اُدھر
تم ادھر ہم “کہہ کر پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا اور اب صوبائیت، رنگ و نسل
کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کررکھا ہے، میں سندھی ہوں، تم مہاجر ہو، تم
پنجابی ہو، تم بلوچ ہو، پٹھان ہو، لیکن کوئی یہ نہیں کہتا ہے ہم پاکستانی
ہیں۔ جمہوریت کی مالا جاپنے والوں کو تو جمہوریت کے معنوں کا بھی پتہ نہیں
ہے اگر انہیں جمہوریت کا مطلب پتا ہوتا تو پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کرپارلیمنٹ
کے باہر بیٹھے لاکھوں عوام کو خانہ بدوش، لشکری با غی کا خطاب نہ دیتے بلکہ
ان کے پاس جاتے اور انکی شکایات کو سنتے مگر ہمارے ان فحش جمہوریت کے
محافظوں کو اصلی جمہوریت کا مطلب سمجھانا ایسا ہے ہی جیسے کہ کوئی اپنے سر
کو پتھر پر بار بار پٹخے اور یہ توقع کرے کہ پتھر نرم ہوجائیگا البتہ پتھر
تو نرم ہوگا نہیں ہاں سر ضرور نرم ہو جائیگا۔
بہت دنوں سے یہ باتیں حکومتی حلقوں کی جانب سے کی جا رہی تھیں کہ یہ دھرنے
کسی سکرپٹ کا حصہ ہے یہ سکرپٹ کسی نے لکھا ہوا ہے اسکے پیچھے افواج پاکستان
ہے مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ افواج ان دھرنے والوں کیساتھ ہے یہ نہیں لیکن یہ
ضرور معلوم ہو گیا کہ یہ سکرپٹ کسی اور کا نہیں بلکہ خود حق باری تعالیٰ کا
لکھا ہوا ہے کیونکہ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت ہرگز
نہیں چل سکتی ۔ اگر یہ سکرپٹ فوج کا لکھا ہوا ہے تو پھر سانحہ ماڈل ٹاﺅن
بھی اسی سکرپٹ کا حصہ ہوگا جس میں خود حکومت ملوث ہے لیکن اس سوال کا جواب
کسی بھی حکومتی شخصیت کے پاس نہیں ہے۔
پاکستانی جمہوریت کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کہ ایک جسم فروش عورت، وہ جسم
فروش عورت جو پہلے اپنی خوبصورت اداﺅں اور دلکش خدوخال کے ذریعے گاہک کو
اپنے چنگل میں پھنساتی ہے اور پھر خود ہی پولیس کی ریڈ بھی کروا لیتی ہے
اور اپنا معاوضہ تو وہ گاہک سے پہلے ہی لے چکی ہوتی ہے اور پھر پولیس اس
گاہک سے جو کچھ لوٹتی یا اینٹھتی ہے اس میں سے بھی اس کو حصہ مل جاتا ہے
اور گاہک نہ گھر کا رہتا ہے اور نہ گھاٹ کا پاکستانی قوم کی مثال بھی ایسی
ہی ہے کہ ملک میں رائج فحش جمہوریت کے علمبردار سیاستدان پہلے عوام کو حسین
خواب دیکھا کر ووٹ لیتے ہیں اور بعد میں لات مار دیتے ہیں۔ ہمارے سابق وزیر
اعظم یوسف رضا گیلانی نے تو یہ کہہ دیا تھا کہ جسے پاکستان کے حالات ٹھیک
نہیں لگتے وہ پاکستان سے ہجرت کر جائے۔ اگر ایک سیاستدان دوسرے پر کرپشن کے
الزامات لگاتا ہے تو دوسرے بجائے یہ کہنے کہ تم جھوٹ بول رہے ہیں میں نے
کوئی کرپشن نہیں کہ بلکہ وہ کہتا ہے اچھا تم نے بھی تو فلاح پراجیکٹ میں
کرپشن کی ہے ۔ حالیہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اعتزاز احسن صاحب اور
چوہدری نثار کے درمیان جو کچھ ہوا وہ ساری عوام نے دیکھا ۔ اعتزاز احسن
صاحب نے فرمایا کہ میاں صاحب ماڈل ٹاﺅن میں جو ہوا ووہ غلط ہے آپ نے
دھاندلی کی ہے الیکشن میں لیکن ہم پھر بھی آپ کیساتھ ہیں حالانکہ اپوزیشن
کا کام ہوتا کے کہ حکومت کو غلط فیصلے کرنے سے روکے نہ کہ اسکا ساتھ دے ۔
یہ تو وہ مثال ہوئی کہ ”کُتی چوراں نال رل گئی“ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ
جمہوریت نہیں بلکہ چند سو لوگوں کا مک مکا ہے جو ملکر اس ملک کو لوٹ رہے
ہیں۔ کوئی راجہ رینٹل ہے تو کوئی ایفیڈرین عباسی اور کوئی ڈیزل کے نام سے
مشہور ہیں شاید ہی کوئی ایسا سیاستدان ہو جس کے ہاتھ کرپشن میں نہ رنگے
ہوں۔
ان سیاستدانوں نے عوام کو بیوقوف بنایا ہوا ہے کوئی ڈیموں کے نام پر سیاست
کرتا ہے تو کوئی مہاجروں کے نام پر۔ دہشتگردی ، سیلاب اور غیر معیاری طبی
سہولیات کی وجہ سے لاکھوں پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن
”بھٹو کل بھی زندہ تھا بھٹو آج بھی زندہ ہے‘........ وڈیروں اور جاگیرداروں
نے لوگوں کو جاہل رکھا ہوا ہے انہیں تعلیم کی سہولیت نہیں مہیا کی جاتیں
تاکہ انہیں شعور نہ آ جائے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ انہیں اگر شعور آگیا
تو پھر یہ لوگ غلامی نہیں کرینگے۔ ہٹ دھرمی کی بھی انتہا ہوتی ہے لیکن
ہمارے سیاستدانوں کے اخلاق کا یہ حال ہے لاکھوں لوگ موجودہ حکومت اور میاں
نواز شریف کیخلاف سڑکوں پر ہیںاور ساری دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی بستے
ہیں بس ایک ہی نعرہ ہے سب کا ”گو نواز گو “ اور میاں صاحب پھر بھی یہ
فرماتے ہیں کہ مجھے اٹھارہ کروڑ لوگوں نے منتخب کیا ہے تو میاں صاحب یہ لوگ
بھی انہی اٹھارہ کروڑ لوگوں میں سے ہیں۔
مجھے بھی عمران خان کی بہت سی باتوں پر اختلافات ہیں خاص کر میں انکی انڈیا
کیساتھ تعلقات اور طالبان کے حوالے سے جو پالیسیز ہیں کا مخالف ہوں لیکن اس
کے باوجود میں عمران خان کی حمایت کرتا ہوں کیونکہ عمران خان کی اب وہ واحد
سیاسی شخصیت ہے جس کا دامن ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہے اور اس کے ارادے نیک
ہیں اور وہ واقعی پاکستان کو دنیا کا بہترین ملک بنانا چاہتا ہے۔ میاں صاحب
ہر فورم پر قومی مینڈٹ کی بات کرتے ہیں تو انہیں کراچی ،
لاہور،سرگودھا،ملتان اور میانوالی کے کامیاب جلسوں کے بعد ڈوب کر مر جانا
چاہیے کیونکہ عوام نے ثابت کر دیا ہے کہ اسکا مینڈٹ کس کےساتھ ہے۔ پاکستان
کے اس سیاسی اور عدالتی نظام میں تبدیلی ہونی چاہیے کیونکہ 67ءسالوں سے اس
نظام سے کوئی بہتری نہیں آئی مجھے حسن نثار صاحب کا وہ فقرہ یاد آگیا جو
اکثر وہ اس کرپٹ سسٹم کے بارے میں استعمال کرتے ہیں کہ ”پاکستان سیاسی نظام
ایک قیمے کی مشین جیسا ہے جس بھی جانور کا گوشت مشین میں ڈالیں گے اسی کا
قیمہ نکلے گا ایسا نہیں کہ گوشت خنزیز کا ڈالیں اور اُمید کریں کہ قیمہ
بکرے کا نکلے“۔ پچھلے دنوں میں محترم اوریا مقبول جان کا کالم پڑھ رہا تھا
جس کا عنوان تھا کہ ”گٹر اُبلنے والا ہے“ میں انہوں نے ایک بہت خوبصورت بات
کہ کہ جس معاشرے کے تمام طبقات منافقت کا لبادہ اوڑھ لیں وہاں ریا اور
دکھاوے کو زہد اور عبادت کہا جانے لگے، ایسے میں کسی فضل الرحمن کو کروڑوں
لوگوں کے سامنے عورتوں کے بارے میں ذو معنی فحش فقرہ کہہ کر مسکراتے ہوئے
جھجک نہیں آتی۔ عہد اور وعدے کی حرمت ختم ہو جائے تو کسی آصف زرداری کو یہ
فقرہ بولنے پر حیا نہیں آتی ہے کہ یہ عہد ہے کوئی قرآن و احادیث تو نہیں۔
کشتی میں سوار جب سب کے سب منافقت اوڑھ لیں اور پھر اسے ایک طرز زندگی اور
سسٹم کانام دینے لگ جائیں اور پھر جب بھی اسی کشتی میں چند آوازیں ان
کیخلاف اٹھیں تو وہ سب کے سب اس سسٹم کو بچانے کیلئے یکجا ہو جاتے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں پاکستان کے موجودہ آئین کی جسے لوگ مقدس آئین کہتے ہیں۔
لیکن مقدس صرف الہامی کتابیں اور سیدی رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ ہیں۔
آئین کو مقدس کہنے والے پہلے اس بات کو مدنظر رکھیں کہ وہ آئین کس نے دیا؟
کس کا لکھا ہوا ہے ؟اس کا کردار کیسا تھا؟ ۔ آج پاکستان پیپلزپارٹی کے لوگ
کہتے ہیں کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو آئین دیا ۔ میرا اس بات
سے بالکل اختلاف نہیں ہے کہ پاکستان کو آئین دینے میں ذوالفقار علی بھٹو کا
کردار بہت اہم لیکن پھر آئین کیسے مقدس ہو گیا کیونکہ آئین دینے والے شخص
نے خود آئین کی دھجیاں بکھیر دیں اس آئین کی جو 1400 سال پہلے ہم مسلمانوں
کو حق باری تعالیٰ نے سیدی رسول اللہ ﷺ کے ذریعے دیا جس میں مساوات، بھائی
چارہ کا درس دیا گیا ہے لیکن وہ ذوالفقار علی بھٹو جس نے ”تم اُدھر ۔۔۔ہم
ادھر“ کہہ کر پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا اس شخص کا دیا ہوا آئین کیسے مقدس
ہو سکتا ہے۔ پاکستان کا موجودہ آئین جسے اسلامی آئین کہا جاتا ہے سوائے
خرافات کے کچھ نہیں کیونکہ چند اسلامی دفعات شامل کرنے سے کوئی چیز اسلامی
نہیں ہو جاتی اور وہ اسلامی دفعات جن پر آج تک عمل ہی نہ کیا گیا ہو وہ
آئین کا حصہ تو ہیں پر انہیں یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے تو پھر آئین
اسلامی کیسے ہوگیا؟ ایسے ہی جیسے صرف کلمہ پڑھ لینے سے کوئی مسلمان نہیں ہو
جاتا جب تک وہ کلمہ کی روحانی اساس کو نہ سمجھے اور اس پر سچے دل سے
پیراعمل نہ ہو، ایسے آئین کو اسلامی آئین کا نام دینا اسلام کی توہین ہے۔
پاکستان کے اس خرافاتی آئین کی بے بسی کی حالات یہ ہے کہ سیاستدان اپنے
مفادات کیلئے اس میں تبدیلی کر لیتے ہیں اور ایسے دفعات کو ختم کر دیتے جس
سے ان کے مفادات کو یا ان کی ذات کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہو ابھی تک آئین
میں21 سے زائد ترامیم ہو چکی ہیں اور ہر ترمیم سیاستدان نے اپنے فائدے
کیلئے کی ہے آئین کی ان ترامیم سے عوام کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پاکستان کے
اس خرافاتی آئین کو اسلامی آئین کہنے والے ہوش کے ناخن لیں اور خوابوں کی
دنیا سے باہر نکلیں کیونکہ اگر اسلامی آئین ہو تو اسمبلیوں میں بیٹھے یہ
درندہ صفت سیاستدان تختہ دار پر لٹکے ہوں لیکن پاکستان کے آئین کا یہ حال
ہے کہ صدر یا وزیر اعظم عدالت میں پیش نہیں ہو سکتا یا اس پر مقدمہ نہیں چل
سکتا جب تک کہ وہ صدر ہے کیونکہ اسے آئین میں استثنیٰ حاصل ہے ۔ لیکن اگر
ہم اسلامی آئین کو دیکھیں تو اس آئین کے تحت خلیفہ وقت سیدنا عمر فاروقؓ
ایک ملزم کی حیثیت سے عدالت میں پیش ہوئے ، اور ہمارے چوتھے خلیفہ المسلین
سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک عام شہری سے عددالت میں کیس ہار جاتے ہیں
یہ ہے اسلامی قانون و آئین کہ وہ شخصیات جن کے اخلاق و کردار کے بارے میں
کسی کو شک و شبہ ہی نہیں ، جنہیں حق باری تعالیٰ اپنا شیر کہتا ہو، جسے
سیدی رسول اللہﷺ نے دعا میں مانگا ہو انہیں بھی عدالت حاضر ہونا پڑا ۔
اصل بات تو یہ ہے کہ ان سیاستدانوں نے یہ آئین بنایا ہی صرف اپنے تحفظ کے
لیے ہے کیونکہ اگر ہم اپنی 1400سال کی تاریخ دیکھیں تو ہم کوئی ایسا آئین
نہیں ملتا جو انسان کا بنانا ہو ، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، سیدنا عمر
فاروق ؓ، سیدنا عثمان ؓ، سیدنا مولا علی کرم اللہ وجہہ، سیدنا عمر بن
عبدالعزیز، سلطان صلاح الدین ایوبیؓ، سلطان نورالدین زنگیؓ، سلطان عماد
الدین زنگیؓ ، حجاج بن یوسف، محمدبن قاسمؓ، سلطان محمد فاتحؓ، طارق بن
زیادؓ ۔۔ کس آئین پر پیروکار تھے ؟ کیا انہوں نے کوئی نیا آئین بنایا
مسلمانوں کیلئے؟ نہیں بلکہ ان سب کے پاس صرف ایک ہی آئین تھا جو حق باری
تعالیٰ نے سیدی رسول اللہﷺ کے ذریعے عطا کیا جو کہ واقعی میں مقدس ہے جس
میں 1400 سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور وہ آئین وہ کتاب جو دو جہانوں کی
ہدایت کیلئے بھیجی گئی ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اس مقدس آئین کو
پس پشت ڈال دیا ہے اور ایک ایسے آئین کی پیروی میں لگے ہیں جو ایک مفاد
پرست ٹولے نے صرف اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے بنایا ہے اگر دیکھیں تو یہ
خرافاتی آئین صرف سیاستدانوں کو ہی تحفظ دیتا ہے اور عوام بھوک ،
لاقانونیت، دہشتگردی، مہنگائی سے مر رہے ہیں۔ ہمارے اس خرافاتی آئین اور
قانون کا یہ عالم ہے کہ ایک معمولی انسان کو تو فوری طور پر سزا مل جاتی ہے
جبکہ بدمعاش اور سیاستدان جوسب سے بڑے گناہگار ہیں آزاد گھومتے ہیں بلکہ
قانون انہیں تحفظ فراہم کرتا ہے جس کی سب سے بڑی مثال حالیہ دونوں میں
مشہور ہونیوالا کردار گلو بٹ ہے جس کو پورے پاکستان سمیت دنیا بھر نے ملکی
و پبلک املاک کو نقصان پہنچاتے ہوئے دیکھا لیکن پھر بھی عدالت نے اسے ضمانت
پر رہا کر دیا کیونکہ وہ حکومتی پارٹی کا کارندہ تھا اسے کیسے سزا ہوسکتی
تھی۔
وہ سیاستدان جو ہر وقت چیختے رہتے ہیں کہ فوج نے آئین کو توڑا ، فوج آئین
توڑتی ہے، فوج کو آئین کے تابع رہنا چاہیے حقیقت میں وہ ہر روز 100 بار
آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان پر کوئی کیوں نہیں آرٹیکل 6 کا اطلاق
کرتا؟؟؟؟۔ میں اس بات کو نہیں مانتا کہ فوج کو سیاست میں دخل اندازی نہیں
کرنی چاہیے اگر ہم تاریخ دیکھیں تو آقاءدو جہاں سیدی رسول اللہﷺ سپہ سالار
بھی تھے اور مسلمانوں کے آقاء، حضرت عمر فاروق ؓ خلیفہ المسلین بھی تھے اور
اسلامی افواج کے کمانڈر انچیف بھی، سلطان نورالدین زنگیؓ سلطان بھی تھے اور
سپہ سالار بھی، صلاح الدین ایوبی جو سلطان شام و مصر بھی تھے اور سپہ سالار
بھی اور بہت سی مثالیں ہیں ۔ درحقیقت پاکستان کے کرپٹ سیاستدان فوج سے اس
لیے ڈرتے ہیں کہ فوج صرف پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ ہے اور وہ کبھی
ملک کیخلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دےگی، اگر فوج کا ڈر نہ ہو تو یہ
سیاستدان پاکستان کو بیچ کر کھا جائیں اور ڈکار بھی نہ لیں اسی لیے ان کی
کوشش ہوتی ہے کہ فوج کو اپنے تابع رکھیں اور اس کیلئے وہ آئین کا سہارا
لیتے ہیں۔
میں بذات خود پاکستان کے اس آئین سے اس قدر متنفر ہوں کہ آج کہنا چاہتا ہوں
کہ میں پاکستان کے اس خرافاتی آئین کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں میں
اسے آئین کو نہیں مانتا جو صرف سیاستدانوں کے مفادات کو تحفظ دے اور اسلامی
قوانین کی تذلیل کرئے۔پاکستان کے خرافاتی آئین اور اس موجودہ صورتحال پر
مجھے حبیب جالب کی وہ مشہور نظم یاد آگئی کہ ۔۔۔۔۔
دیپ جس کے محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لیکر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا
میں بھی خائف نہیںتختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زندان کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں، ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے ، مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
|
|