کینیڈا پر چڑھائی کا امریکی منصوبہ عراق
میں گھس جانے سے زیادہ سنگین نوعیت کا تھا۔ آج کی نئی نسل یہ حقیقت بمشکل
تسیلم کرے گی کہ امریکی جارحیت پسندی اس حد تک بڑھ سکتی ہے کہ وہ انتہائی
قریبی پڑوسی ملک پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی بھی کرے۔ برطانوی روزنامہ میل
آن لائن کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت نے
کینیڈا پر قبضے کےلئے باقاعدہ تحریری منصوبہ تیار کیا۔ 94 صفحات پر مشتمل
اس خفیہ دستاویز کو جوائنٹ آرمی اینڈ نیوی بیسک وار پلان- ریڈ“ کا عنوان
دیا گیا تھا۔ اس دستاویز کی جلد پر ”سیکرٹ“ کی مہر لگائی گئی تھی جس کا
مطلب یہ کہ فوج کے نچلے درجے کے افسران بھی اس دستاویز تک رسائی کے اہل
نہیں تھے۔ یہ ایک دلیرانہ منصوبہ تھا جس پر قدم بہ قدم مختلف مراحل میں عمل
کرتے ہوئے کینیڈا پر قبضہ کرنا تھا۔
منصوبہ کے پہلے مرحلہ میں جوائنٹ آرمی- نیوی اوورسیز فورس کو کارروائی کرتے
ہوئے ہیلی فیکس کے ساحلی شہر پر قبضہ کرنے کا حکم دیا گی۔ اس قبضہ کے ذریعے
کینیڈینز کو ان کے برٹش حلیفوں سے کاٹ دینا تھا۔ دوسرے مرحلہ میں امریکی
فوج نیا گرہ آبشار کے نزدیک کینیڈین پاور پلانٹس پر قبضہ کرکے پورے ملک کو
اندھیرے میں دھکیل دیتی۔ اس کے بعد امریکی فوج کو تین اطرف سے پیش قدمی
کرنا تھی۔ ورمونٹ کے راستے آنے والی فوج کو مونٹریال اور کیوبک پر قبضہ
کرنا تھا۔ نارتھ ڈکوٹا کی سمت سے بڑھنے والے فوجی دستوں کو ونی پیگ پر ریل
روڈ سینٹر اپنے قبضے میں لینا تھا اور اونٹاریو کے اسٹرٹیجک نکل مائنز اپنے
قبضے میں لینے کےلئے مڈویسٹ سے دھاوا بولنا تھا۔ اسی اثناءمیں امریکی نیوی
گریٹ لیکس کا کنٹرول سنبھال کر کینیڈا کی اٹلانٹک اور پیسیفک بندرگاہوں کی
ناکہ بندی کرلیتی۔
بظاہر یہ منصوبہ ایک مذاق معلوم ہوتا ہے تاہم ایسا نہیں ہے۔ وارپلان ”ریڈ“
ایک حقیقی جنگی منصوبہ ہے جس کی 1930ءمیں وار ڈپارٹمنٹ نے باقاعدہ منظوری
دی۔ اسے بعدازاں 1934ءاور 1935ءمیں بعد کی ضرورتوں کے مطابق اپ ڈیٹ کیا گیا۔
اطلاعات تک رسائی کے امریکی قانون کے مطابق یہ منصوبہ 1974ءمیں ڈی
کلاسیفائی کردیا گیا اور اس فائل کی جلد پر لکھا ہوا لفظ ”سیکرٹ“ ایک رنگین
بھاری پنسل سے کاٹ دیا گیا۔ اب یہ منصوبہ کالج پارک میں نیشنل آرکائیوز میں
ایک چھوٹے بھورے بکس میں ایک یادگار کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ قانونی طور پر
کوئی بھی شخص حتیٰ کہ کینیڈین جاسوس بھی اسے حاصل کرسکتے ہیں۔ تاہم امریکی
حکومت کی کوشش رہی کہ اسے حتیٰ الامکان طور پر عوام سے پوشیدہ رکھا جائے۔
15 سے 20 سینٹ فی صفحہ کے عوض اس کی فوٹو کاپی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کا
مطلب یہ ہوا کہ تقریباً 15 سے 19 ڈالر کی ادائیگی پر 94 صفحات کی دستاویز
کی فوٹو کاپیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یہ وار پلان ”ریڈ“ دراصل انگلینڈ سے
جنگ کےلئے 1920ءکی دہائی میں تیار کیا گیا تھا۔
کینیڈا اور امریکہ کے درمیان دنیا کی طویل ترین سرحد موجود ہے جس کی لمبائی
5522 میل (8891 کلو میٹر ہے) جو کہ اس وقت دنیا کا طویل ترین غیر فوجی
بارڈر ہے۔ آج کے دور میں دونوں ممالک مثالی پڑوسی ہیں۔ تاہم پہلی جنگ عظیم
سے قبل دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی موجود تھی۔ امریکی محکمہ دفاع کی جانب
سے ”جوائنٹ آرمی اینڈ نیوی بیسک وار پلان - ریڈ“ امریکی فوج کی جانب سے ایک
عالمگیر ملٹری ایکشن کی حیثیت سے کینیڈا پر قبضہ کےلئے مرتب کیا گیا تھا۔
وار پلان - ریڈ دراصل انگلینڈ اور اس کی دولت مشترکہ کے خلاف جنگ کےلئے
مرتب کیا گیا۔ انگلینڈ (کوڈ نام سرخ) اور امریکہ (نیلا) کے درمیان تنازع کا
تصور اس وقت بہت سخت تھا جب دونوں ممالک بین الاقوامی تجارت اور تجارتی
مفادات کے حصول کےلئے سرگرداں تھے۔ یہ منصوبہ نظرثانی کے بعد پینٹاگون نے
1934ءمیں مرتب کیا۔ امریکی منصوبہ سازوں کو خدشہ تھا کہ انگلینڈ امریکہ کے
خلاف لڑائی میں کینیڈا کو استعمال کرسکتا ہے۔ امریکی فوج نے اس منصوبہ کی
تخلیق سے قبل ان ساحلوں پر بھی ریسرچ کی جہاں برطانوی فوجیں اُتر سکتی
تھیں۔ امریکی فوجی ماہرین ایک ممکنہ اینگلو، کینیڈین خطرے کو نظر انداز
نہیں کرسکتے تھے۔
94 صفحات پر مشتمل جنگی منصوبہ کا مقصد برٹش آرمی کو ہیلی فیکس پورٹ اپنے
تصرف میں لے کر امریکی سرزمین کو نشانہ بنانے کی کوشش سے روکنا تھا۔ اگر
امریکہ اور انگلینڈ کے درمیان کشیدگی مزید جاری رہتی تو امریکی افواج نے
اپنی سرحدیں محفوظ رکھنے کےلئے کینیڈا پر قبضہ کرلینا تھا۔ پلان میں امریکی
فوجی دستوں کو روٹ 99 کے راستے وینکوور اور کیریبین میں برطانوی
نوآبادکاریوں پر بھی قبضہ کرلینا تھا۔ دستاویز کے مطابق امریکہ کا بنیادی
مقصد نہ صرف کینیڈا کو شکست دینا بلکہ اس کے وسائل کو مال غنیمت سمجھ کر
انعام کے طور پر اپنے استعمال میں لانا تھا۔
کینیڈا پر قبضے کےلئے مختلف منصوبے تیار کئے گئے تھے۔ ایک منصوبہ کی منظوری
1930ءمیں وار ڈپارٹمنٹ نے دی۔ اسے 1934/35 میں اپ ڈیٹ کیا گیا تھا۔ حالانکہ
اس منصوبہ پر عملدرآمد میں خطرات تھے۔ ایک خطرہ برطانیہ کے زبردست استحکام
سے بھی تھا۔ ان میں سے ایک رائل نیوی کا خطرہ تھا۔ کینیڈا اسے امریکہ کے
طویل بارڈر نے بھی امریکیوں کو تشویش میں مبتلا کررکھا تھا۔ اس کے نتیجے
میں شمالی پڑوسی سے زیادہ تیاری اور بھرپور قوت کےساتھ نمٹنے کی منصوبہ
بندی کی گئی۔
کینیڈین صوبہ برٹش کولمبیا میں مضبوط نیول اڈے کی موجودگی کے پیش نظر
امریکی ملٹری ماہرین نے پورٹ اینجلس، واشنگٹن کے راستے وکٹوریہ پر حملہ آور
ہونے کا آپشن سامنے رکھا۔ اس روٹ سے ہونے والے نیوی کے حملے میں وینکوور
اور اس کے جزائر پر بھی کنٹرول آسان ہوجانا تھا۔ امریکی ملٹری اسٹرٹیجسٹس
کو یقین تھا کہ اس علاقہ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہونے کی صورت میں کینیڈا
کو پیسیفک سے کاٹ دیا جائے گا۔ کینیڈین ریلوے سسٹم کےلئے مرکزی سینٹر صوبہ
مینی ٹوبا کے دارالحکومت ونی پیگ میں ہے۔ فوجی اسٹرٹیجسٹس نے محسوس کیا کہ
گرانڈ فورکس، نارتھ ڈکوٹا سے آسانی کے ساتھ زمینی حملے میں کامیابی حاصل کی
جاسکتی ہے۔ اس حملہ میں کامیابی سے کینیڈا کی ریل لائنز کو معطل کیا جاسکتا
ہے۔
آج کے دور میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کے نام پر عراق اور لیبیا کو
تباہ و برباد کرکے شام کو بھی اپنا نشانہ بنانے والے امریکی فوجی ماہرین نے
کینیڈا پر قبضہ کےلئے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
امریکی منصوبہ سازوں کو یقین تھا کہ نواسکاٹیا کے دارالحکومت ہیلی فیکس پر
زہریلی گیس کے حملے سے ساحلی صوبوں کو حیران و پریشان کرکے سکتے میں مبتلا
کیا جاسکتا ہے۔ ہیلی فیکس میں اُس وقت بھی ایک بڑا نیول بیس موجود تھا۔
کیمیائی جنگ کو اُس وقت سمندر کے راستے سینٹ مارگریٹ بے پر چڑھائی کے بعد
شروع کیا جانا تھا۔
امریکی جنگی حکمت عملی تیار کرنے والے ماہرین نے متبادل کے طور پر زمینی
راستے سے نیوبرنسوک صوبہ پر چرھائی کرنے اور اس پر قبضے کی مکمل منصوبہ
بندی کی تھی تاکہ نوواسکاٹیا کی بندرگاہوں کو پورے کینیڈا سے الگ کرکے
برطانوی فورسز کو اپنی سپلائی لائن برقرار رکھنے سے روکا جاسکے۔ بفالو،
ڈیٹرائبٹ اور سالٹ سٹیٹ میری کی جانب سے سہ طرفہ حملے کے نتیجے میں گریٹ
لیکس پر امریکی کنٹرول قائم کرنا تھا جس کے نتیجے میں کینیڈا کی بیشتر
صنعتی پیداوار امریکی کنٹرول میں آجاتی تو دوسری جانب برٹش سپلائی لائنز کو
تہس نہس کردیاجاتا۔
نیویارک اور ورمونٹ سے متصل خشکی کے راستے حملہ کرکے فرانسیسی بولنے والے
اس صوبہ کا کنٹرول حاصل کرنے کا منصوبہ تھا جس کے ساتھ بندرگاہوں والے
صوبوں پر کنٹرول کی صورت میں برٹش فورسز کےلئے مشرقی سمندری حدود سے بھی
کینیڈا تک رسائی سے محروم کردیا جاتا۔
گوکہ اس خفیہ منصوبہ کو 1974ءمیں قانون کی رو سے ڈی کلاسیفائیڈ کردیا گیا
تھا مگر امریکی حکومت کی جانب سے اس منصوبہ کو کینیڈین فورسز تک پہنچنے سے
روکنے کی کوشش کے طور پر اس کو نوٹیفائی کرنے سے گریز کیا۔ دلچسپ واقعہ یہ
ہوا کہ دو فوجی جنرلز نے ایوان نمائندگان کی ملٹری افیئرز کمیٹی کے روبرو
کینیڈا پر چڑھائی کے منصوبہ پر مشتمل جنگی منصوبہ ”ریڈ“ کے بارے میں جو
تفصیلات بیان کیں وہ غلطی سے سرکاری رپورٹس میں شامل ہوگئیں جسے کسی طرح
نیویارک ٹائمز نے حاصل کرکے شائع کردیا۔ بصورت دیگر نیشنل سیکورٹی افیئرز
کے نام پر اس منصوبہ کو شائر ڈی کلاسیفائی نہیں کیا جاتا جس کےلئے خود
امریکی کانگریس نے 1935ءمیں 57 ملین ڈالر (آج تقریباً ایک ارب ڈالر) مختص
کردیئے تھے۔ یہ رقم جنگی منصوبہ پر عملدرآمد کےلئے امریکی، کینیڈین سرحد کے
نزدیک تین ہوائی اڈے تعمیر کرنے پر صرف ہونی تھی۔ امریکی حکومت کا منصوبہ
تھا کہ ان کو سویلین ایئرپورٹس کے نام پر تعمیر کیا جائے تاہم حکومت کے
پرنٹنگ آفس نے حادثاتی طور پر یکم مئی 1935ءکو ان ہوائی اڈوں کی اصلیت پر
مبنی رپورٹ جاری کردی۔
اس جنگی منصوبہ کی سب سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جنگی منصوبہ کی سفارشات میں
یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ کینیڈا سے جنگ کی صورت میں نہ صرف اس کے بڑے
حصے پر قبضہ کرلیا جائے بلکہ مقبوضہ علاقوںکو امریکی ریاستوں کی حیثیت سے
ضم کرلیا جائے۔ درحقیقت امریکیوں نے کینیڈینز کے بارے میں کوئی رائے قائم
کرنے کےلئے ماضی میں بھی فاش غلطیاں کیں۔
ستمبر 1775ءمیں بینیڈکٹ آرنلڈ نے کیوبک سٹی پر خشی کے راستے احمقانہ طور پر
حملہ کیا۔ کیوبک پر قبضے کی اس کوشش میں آرنلڈ کے تقریباً 40 فیصد فوجی
مارے گئے تاہم کسی جواز کے بغیر آرنلڈ کو بریگیڈیئر جنرل کی حیثیت سے ترقی
دے دی گئی۔ 1812ءمیں برطانیہ سے دوسری جنگ کے دوران تھامسن جیفرسن کی رائے
تھی کہ کینیڈا پر قبضہ امریکی فوج کےلئے ملٹری مارچ سے زیادہ حیثیت نہیں
رکھتا۔ تاہم امریکہ اولڈ نارتھ ویسٹ سے لے کر دریائے نیاگرہ اور شمال سے لے
کر لیک چمپلین تک تمام حملوں میں ناکام رہا۔ 1866ءسے 1872ءتک امریکہ کے
آئرش کیتھولکس نے کینیڈین ٹارگیٹس بشمول قلعوں اور کسٹم ہاﺅسز پر مسلسل
پانچ سال حملے کئے۔ یہ حملے فینیان ریڈز کے نام سے مشہور ہیں، فینیانز کو
توقع تھی کہ ان حملوں کے نتیجے میں برطانیہ آئرلینڈ سے دستبردار ہوجائے گا
تاہم امریکہ کی حمایت سے ان حملوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
کینیڈا پر چڑھائی کا منصوبہ 1974ءمیں ڈی کلاسیفائیڈ ہونے کے باوجود کینیڈین
حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ گوکہ عوامی
سطح پر بعض علاقوں میں امریکہ مخالف جذبات پھیلے۔ تاہم کینیڈین حکومت کی
جانب سے اس معاملے کو دبالیا گیا۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ جارحیت اور قبضے
کی منصوبہ بندی صرف امریکہ نے نہیں کی تھی۔ خود کینیڈینز نے بھی امریکہ پر
حملے اور قبضے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ”کاﺅنٹر اٹیک“ قرار دیا جانے والا یہ
منصوبہ 1921ءمیں تیار کیا گیا۔ کینیڈین فوج کے لیفٹیننٹ کرنل بسٹر
سوتھرلینڈ براﺅن نے اس منصوبہ کو تخلیق کیا تھا۔ دراصل کینیڈین آرمی کو یہ
شواہد مل گئے تھے کہ امریکہ ان پر حملہ آور ہو کر قبضے کی منصوبہ بندی
کررہا ہے۔ یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ امریکہ کے خلاف قبل ازوقت کارروائی کی
جائے۔
20 ویں صدی کے ان حقائق کے باوجود 21 ویں صدی میں دونوں ممالک نہ صرف اچھے
پڑوسی بلکہ اچھے دوست بھی بن گئے ہیں۔ 2008ءمیں دونوں ممالک نے سول اسٹنس
پلان کے معاہدے پر دستخط کردیئے۔ اس معاہدہ کی رو سے ایمرجنسی کی صورت میں
دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کی سرحد میں داخل ہوسکیں گی۔ |