لندن کی سڑکوں کے نیچے خفیہ ریل نیٹ ورک

دارالحکومت لندن کی سڑکوں کے نیچے ایک استعمال میں نہ آنے والی سرنگ چھ میل تک پھیلی ہوئی ہے۔ لندن کے شہریوں کی اکثریت بالخصوص نوجوان نسل اس سے آگاہ نہیں ہے۔ ایک عشرہ قبل بند ہوجانے والی یہ سرنگ لندن پوسٹ آفس ریلوے کی حیثیت سے استعمال کی جاتی تھی جو کہ میل ریل کے نام سے معروف تھی۔ اب اسے سیاحوں کے لئے کھولے جانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

وسطی لندن کے ایک ٹھنڈے ریلوے ڈپوپر ایسا محسوس ہورہا تھا گویا میل ریل کے ورکرز اچانک اوپر چلے گئے ہیں اور وقت جیسے تھم گیا ہو کیونکہ ان کے ایک عشرہ قبل زیر استعمال چیزیں اب تک ویسے ہی موجود ہیں۔ خاک کی پتلی تہہ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ مخروطی سیفٹی آلے اور وہاں پڑی کیتلی بھی گرد آلود تھیں جبکہ پھپھوند کی بو آرہی تھی۔ 1980ئ کی دہائی کے جمبوسائز واکی ٹاکیز 1920ئ کے قومی الحبثہ لیور والے میکنیکل آلات کے برابر میں رکھے ہوئے تھے جبکہ انڈسٹریل پائپ اور پینٹ کی اکھڑی ہوئی پپڑیاں چھت سے لٹک رہی تھیں۔ کھلے ہوئے کیبلز دیوار کے ساتھ لٹکے ہوئے 1989ئ کے ایک بلیٹن نوٹس کے اطراف بکھرے ہوئے تھے جبکہ 1959ءکا ہالبورن کا آرڈیننس سروے نقشہ ایک ڈیسک پر بچھا ہوا تھا۔ لاکرز کے دروازے نصف کھلے ہوئے تھے جس میں استعمال شدہ شاور جیل کی بوتلیں اور گندے تولیے اندر لٹکے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔

واضح رہے کہ میل ریل کی منظوری ایک صدی قبل دی گئی تھی اور اس کے فنکشنل ہونے کے دنوں میں اس کی بغیر ڈرائیور والی ٹرینیں روزانہ 12 ملین پوسٹل آئٹمز روزانہ ایسٹ اینڈ کے وائٹ چیپل سے ویسٹ لندن کے پیڈنگٹن سٹیشن تک لاتی لے جاتی تھیں، تاہم ایک عشرہ قبل اسے بند کردیا گیا۔

اس میں داخل ہونے پر اسے بہت حد تک ایک عام ٹیوب پلیٹ فارم جیسا پائیں گے تاہم اس کی سرنگ ہراینڈ پر قطر میں 7 فٹ (2.1 میٹر) چوڑی ہے۔ ٹریک پر ایک چھوٹی ٹرین موجود تھی جو کہ 70 ٹرینوں کے نیٹ ورک میں سے ایک تھی تاہم اسے خاص طور پر پسنجرز کے لئے ڈیزائن کردیا گیا ہے۔ کیرج میں ایک درجن چھوٹی نشستیں ہیں۔ ایک بار اس میں داخل ہونے کے بعد ایک پلاسٹک شٹر آپ کے سر پر سایہ فگن ہوجاتا ہے اور آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ آپ ایک رولر کوسٹر میں سفر کررہے ہیں۔ ٹرین کے سرنگ میں روانہ ہونے پر آپ کو ہر ابھار پر جھٹکا محسوس ہوگا جبکہ آپ کو بریک لگنے پر اس کی چنگھاڑ بھی سنائی دے گی۔ اس سفر کے دوران آپ کا سرنگ کی دیواروں سے صرف چند انچ کا فاصلہ ہوگا جبکہ کاربونیٹ آف لائم تہہ نشین مواد چھت سے لٹکا ہوادکھائی دیا۔

سیاح مستقبل میں نسبتاً کم فاصلے کے تھرل سے لطف اندوز ہوں گے۔ اسلنگٹن کونسل میں جمع کرائی گئی تجاویز میں اس امرکا جائزہ لیا جائے گا کہ کیا وزیٹرز ماﺅنٹ پلیزنٹ سے ٹرین میں سوار ہو کر اس سرنگ میں سفر کرینگے؟ تاہم اس پروجیکٹ کے پس پردہ ٹیم کو مارچ تک سپانسرز سے 2 ملین پونڈز اکٹھے کرنے کا چیلنج درپیش ہے تاکہ ورثے کی لاٹری فنڈنگ کو مزید مضبوط بنایا جاسکے۔

ایک شخص جو کہ اس ریلوے سے بہتر واقف ہے وہ رے مڈلز ورتھ ہے جو کہ انہی سرنگوں میں ایک انجینئر کی حیثیت سے 27 سال تک خدمات انجام دے چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زیر زمین سفر کرنے والوں کے لئے ریل نیٹ ورک کا یہ پوشیدہ حصہ ایک مقدس پیالہ ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پوسٹ آفس نے اسے بڑی عمدگی سے خفیہ رکھا ہے۔ 2003ئ میں اس لائن کو بند کرنے کے بعد وہ انجینئروں کے ایک چھوٹے گروپ میں شامل ہے جس کی ذمہ داری اس نیٹ ورک کو محفوظ رکھتا ہے۔ مڈلز ورتھ نے کہا کہ یہ قوی الحبثہ ٹرین سروس شروع کرنے کی طرح ہے۔ میں نے اس وقت سے اس لائن پر کام کیا جب میں ایک لڑکا تھا اس طرح میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اسے کچھ اپ گریڈ کیا ہے۔

مڈلز ورتھ نے بتایا کہ جب میل ریل فنکشنل تھی تو اس پر 220 افراد کام کرتے تھے۔ جو کہ وسطی لندن میں آکسفورڈ سٹریٹ کے نیچے سے گذرتی ہے۔ ایک مقام پر یہ بیکر لولائن سے چند فٹ کے فاصلے پر ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک بار جو شخص ریلوے سے وابستہ ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ اس سے وابستہ رہتا ہے۔ انہوں نے فخر کے ساتھ ریلوے سے متعلقہ باتیں یاد کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک فیملی کی طرح کام کرتے تھے ٹیم میں بہت سے باپ اور بیٹے کام کررہے تھے۔ ان کی یہ ذمہ داری بھی تھی کہ کرسمس پارٹی کے لئے منظر سے باہر رہ کر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے بتایا کہ ا ±س وقت ایک سانتا گروٹو ہوتا تھا اور ہم کیئر ہوم کے بچوں کو ٹرین میں سواری کے لئے دعوت دیتے تھے۔

برٹش پوسٹل میوزیم اینڈ آرکائیو کے کرس ٹافٹ کا کہنا تھا کہ ایک صدی قبل جب ڈاک سمیت دوسری اشیائ کی نقل و حرکت گھوڑا گاڑیوں کے ذریعے ہوتی تھی تو سڑکوں پر ان کی وجہ سے ڈاک کی ترسیل تعطل کا شکار ہوجاتی تھی۔ اس زمانے کے بارے میں ریلوے کی تعمیر کے لئے جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ لندن میں ٹریفک کی رفتار کبھی بھی 6 میل فی گھنٹہ (10 کلو میٹر فی گھنٹہ) سے زیادہ نہیں بڑھی۔ اس صورتحال کے پیش نظر ارکان پارلیمنٹ نے ریلوے تعمیر کرنے کی منظوری دی جو کہ 40 میل فی گھنٹہ (64 کلو میٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے دوڑ سکتی تھی۔

اس لائن کی تعمیر 1927ئ میں کرسمس کے پارسل پوسٹ کئے جانے کے عین وقت پر مکمل کی گئی۔ ٹافٹ کا کہنا تھا کہ اس نے ڈاک کی تیز رفتار ترسیل کے لئے دنیا کی پہلی الیکٹرک انڈر گراﺅنڈ ریلوے کا اعزاز حاصل کیا۔ انہوں نے بتایا کہ 20 ویں صدی کے دوران یہ سروس باقاعدگی سے چلتی رہی۔ 1980ئ کی دہائی کے دوران اس سروس کے ذریعے روزانہ 22 گھنٹوں میں چار ملین ڈاک کی اشیائ کی نقل و حمل ہوتی تھی۔

اس سرنگ کو بروکس ولز ایکشن فلک ”ہڈسن ہاک“ کی فلم بندی کے لئے دوہرا کردیا گیا تھا۔ میل ریل ڈپو میں مناظر کی فنکشنل ویٹیکن سیکرٹ ریلوے ”پوسٹا ویٹیکانو“ کے لئے فلم بندی کی گئی۔ تاہم 1990ئ کی دہائی میں رائل میل نے ولسٹرن، ویسٹ لندن میں ایک نیا مرکز تعمیر کیا جبکہ 2003ئ میں میل ریل کے 8 میں سے صرف تین سٹیشنز کام کررہے تھے۔ اس سال رائل میل نے یہ مو?قف اختیار کرتے ہوئے نیٹ ورک کو بند کردیا کہ اس کے اخراجات سڑک استعمال کرنے کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہیں۔ مڈلز ورتھ نے کہا کہ اس کی بندش باعث شرم ہے تاہم یہ ناگزیر ہوچکی تھی۔

مڈلز ورتھ سمیت بہت سے ماہرین اب اس لائن کو سیاحوں کے لئے کھولنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں جس کےبارے میں لندن کی نئی نسل ناواقف ہے۔ اسلنگٹن کونسل کو توقع ہے کہ تجاویز پر غور کرکے اگلے ماہ اس کی منظوری دے دی جائے گی جبکہ اسے 2020ئ تک مکمل طور پر کھول دیا جائے گا۔

2004ئ میں بند ہونے والی میل ریل کے ذریعے سپیشل ریل سروسز نے لندن کے شہریوں کے لئے 160 سال تک خدمات انجام دی۔ میل ٹرین سروس بند کرتے وقت یہ موقف اختیار کیا گیا کہ اس کے نتیجے میں 10 ملین پونڈز سالانہ کی بچت ہوگی۔ میل ریل کو لوٹنے کا ایک واقعہ اگست 1963ئ میں پیش آیا جسے ”گریٹ ٹرین رابری“ کے نام سے بہت شہرت ملی۔ اس واقعہ میں 15 رکنی مضبوط گینگ نے جس میں بدنام زمانہ رونی بگز اور لیڈر بروس رینالڈز شامل تھے۔ ٹرین کو روک کر 2.3 ملین پونڈز کی اشیائ اور نقد رقم جو کہ آج کے دور میں 30 ملین پونڈز کے مساوی ہے لوٹ لیں۔

میل ریل نے اپنا پہلا سفر 1838ئ میں لندن سے مڈلینڈز تک کیا جبکہ پہلی جنگ عظیم کے دوران اس نیٹ ورک نے 130 سروسز کے ذریعے لاکھوں ہنگامی نوعیت کی ڈاک منزل مقصود تک پہنچائی۔ ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ہائی ٹیک آٹو میٹڈ آلات پر بھاری سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ ا ±س وقت اس پر 30,000 خطوط فی گھنٹہ کی رفتار سے منزل مقصود پر پہنچائے گئے جبکہ عام ٹرینوں میں صرف 3000 خطوط فی گھنٹہ کی گنجائش تھی۔ برٹش پوسٹل میوزیم اینڈ آرکائیو اس نیٹ ورک کے ایک حصہ کو جلد پبلک کے لئے کھولنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
( تصاویر دیکھنے کے لئے یہ لنک کلک کریں )
https://www.dailymail.co.uk/travel/article-2590811/Inside-Mail-Rail-Londons-secret-Tube-network-open-tourist-attraction.html
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77815 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More