جس طرح وقت بدلنے ساتھ ساتھ زندگی میں ٹی
وی ،وائی فائی، ائر کنڈیشن اور یو پی ایسس ایک روٹی کپڑا مکان جیسی ضرورت
اختیار کرتے جارہے ہیں بالکل اسی طرح سے اشتہارات بھی زندگی میں گھلتے
جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمی شعوری طور پر پتہ نہیں مگر حقیقت حال یہی ہے
کہ ان اشتہارات کو انتہائی چالاکی کے ساتھ ہماری زندگی میں داخل کر دیا گیا
ہے کہ اگر ہمیں یہ نظر نہ آئیں تو بھی ہمارا چل پانا مسکل ہو جائے۔ گھر کے
باہر لگے بل بورڈ سے لے کر، ہاتھ میں پکڑے اخبار تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹی وی پر
چلتے اشتہار سے لے کر ہاتھ میں پکڑے کسی فاسٹ فوڈ کے ڈبے تک نے ہمیں
اشتہارات دکھا کر مائنڈ سیٹ ایسا بنا دیا ہے کہ جب تک مشہور اشتہاری پراڈکٹ
کسی چیز کی نظر نہ آئے تو ہمیں بھی چین نہیں آتا۔
چین کی بنی اشیا اور اشتہارات میں دکھائی اشیا میں ایک ہی کوالٹی مشترک ہے
کہ نہ جانے گھر لانے پر دونوں کتنا ساتھ دیں۔ اگر اشتہارات دیکھیں جائیں تو
خاصے دلچسپ اور تفریحی مواد مہیا کرتے ہیں اور انسان کو آرام سے وقت گزاری
کے لئے اشتہار دیکھنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ اشتہار میں آج
عجیب و غریب اچھل کود اور بے ہنگم میوزک کانوں اور آنکھوں کو جتنا سرور
دیتے ہیں کہ انسان کو کسی مووی ڈرامہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔
آج یہی وجہ ہے کہ اشتہارات کی انڈسٹری میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی
جارہی ہے اور اشتہارات کو قابل دید اور قابل تعریف بنانے کے لئے ایڑی چوٹی
کا زور لگا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اشتہارات کو دیکھنا ہی پڑتا ہے۔
اشتہارات بنانے سے پہلے باقاعدہ طور پر پراڈکٹ لانچ سے پہلے تحقیقات کی
جاتی ہیں کہ کس قسم کا اشتہار کب کیسے کیوں مقبول ہو گا۔ اس ساری احتیاط کے
بعد ہی کروڑوں اشتہارات میں جھونکے جاتے ہیں۔
پاکستانی اشتہارات کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان میں یا تو پاکستانیت ضرور
ہوتی ہے یا ان میں نسوانیت ہوتی ہے۔ جی ہاں ہر اشتہار جس میں عورت نہ ہو وہ
وطن متعلقہ پیغام یا اشتہار ہی ہوگا ورنہ اگر تو باقی ہر اشتہار میں نہاری
سے لے کر گاڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گاڑی سے لے کر گھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موبائل سے لے کر
شیونگ ریزر تک کے اشتہار میں عورت نظر ضرور آئے گی۔ اب عورت کا نظر آنا
اتنا عجیب بھی نہیں بہت سے لوگ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ ہر صرف پاکستانی ہی
نہیں بلکہ بین الاقوامی بھی کسی طرح کا کوئی بھی اشتہا ر ہو عورت نظر آئے
گی ہی آئیگی۔
یہ بات ایک حد تک ٹھیک بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی
اشتہارات میں عورت کا استعمال انتہائی بھونڈے انداز میں کیا جاتا ہے اور
اکثر اس طرح اور ایسی جگی ٹانک دیاجاتا ہے جہاں کوئی تُک بھی نہیں ہوتی آخر
کو اس کی وجہ سمجھ نہیں آتی کہ اسکے بغیر بھی اشتہار بن سکتا ہے اور چل بھی
سکتا ہے اور حتی کہ ہلکا پھلکا اور لوجک کے تحت اشتہار پسند بھی آتا ہے مگر
بات پھر وہی ہے کہ پاکستان میں اس طرح کے اشتہارات کی مثال آپکو بہت ہی کم
ملے گی۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ جس چیز پر کام نہیں کیا جائے گا اسکو ترقی دینا
ممکن نہیں ہوگا۔
جس طرح لوکل و امپورٹڈ اشیا کی بات کی جائے تو ہمیشہ امپورٹڈ کو ہی ترجیح
دی جاتی ہے اسی طرح لا ن سے لے کر کوکنگ آئل بیچنے تک یہاں پر بھی امپورٹڈ
چہروں کو ہی لینے کی کوشش کی جاتی ہے ب اسکی وجہ سمجھ نہیں آتی کہ آخر کو
جب لوکل لوگ تھڑے سستے بھی پڑیں گے اور لوگ بہت سوں کو پسند بھی کرتے ہیں
تو انکو لینا کیوں ترجیحی نہیں سمجھا جاتا۔
ڈھیر سارے لوگ، بہت سا شور، بہت سا کھانا، بہت سا ملنا ملانا، بہت سا سجنا
سنورنا، بہت سا گھورنا، بہت سا چیخنا چلانا، بہت سا خرچا اور بہت سا
چرچا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سب کچھ ہمیں اشتہارات دکھاتے ہیں۔ |