سید نظمی ؔمیاں مارہروی کی دینی،ادبی وشعری خدمات

سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی ،ہندوستان کے نجیب الطرفین ساداتِ کرام میں بلندوبالامقام پر فائز خاندان برکات کے چشم وچراغ ہیں۔حضرت نظمی میاں کی ولادت باسعادت مارہرہ شریف میں ۶؍رمضان المبارک ۱۳۶۵ھ بمطابق ۱۴؍اگست ۱۹۴۶ء کوہوئی۔خاندانی نام محمد حیدراور تاریخی نام سیدفضل اﷲ قادری ہے۔آپ سید آل رسول حسنین میاں برکاتی کے نام سے مشہور ہے اور آپ کا تخلص’’نظمی‘‘ہے۔ابتدائی تعلیم کے بعد انگریزی ادب اور اسلامیات میں گریجویشن کی تکمیل کے بعد انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن،دلی سے جرنلزم کے کورس میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔بعدہ UPSCکے تحت منعقد ہونے والے سول سروسز کے مشکل ترین امتحان میں شرکت کی اور تمغۂ کامیابی سے سرفراز ہونے کے بعد مرکزی حکومت کی وزارت اطلاعات ونشریات کے محکمۂ پریس انفارمیشن بیورو(P.I.B.)سے ملازمت کا آغاز کیا۔

٭زباندانی:حضور نظمی ؔ میاں کثیرلسانی شخصیت کے حامل تھے۔آپ کو اردوکے علاوہ عربی،فارسی،ہندی،انگریزی،مراٹھی،گجراتی اور سنسکرت جیسی زبانوں پر عالمانہ و فاضلانہ دسترس حاصل تھی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی فکرونظر میں گہرائی وگیرائی جلوہ فگن تھی۔آپ کی زبان دانی کے سلسلے میں یہ بھی ملحوظ رہے کہ ان کاشعری شجرہ حضور سیدالعلماء سیدمیاں مارہروی اور حضرت احسن مارہروی سے ہوتاہوا براہِ راست داغ دہلوی تک پہنچتاہے جنھوں نے بڑے زعم کے ساتھ یہ شعر کہاتھا ؂
اردوہے جس کانام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

زبان کے سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ کے داداجان حضرت سیدآل عبا رحمۃ اﷲ علیہ اردوزبان کے منفرد انشاپردازاور صاحب ِ اسلوب ادیب تھے۔بچپن سے کثیرالمطالعہ ہونے کی وجہ سے آپ کے پاس الفاظ کا خزانہ موجودتھا۔علامہ سید محمداشرف قادری برکاتی صاحب(شہزادۂ حضور احسن العلماء)تحریرفرماتے ہیں:شعر کی عمارت الفاظ کے اینٹ گارے سے تیار کی جاتی ہے۔الفاظ بظاہر یک رخے ہوتے ہیں لیکن جب ان کاخلاقانہ استعمال ادب میں ہوتاہے تووہ یک رخے الفاظ ہشت پہل ہیرے بن جاتے ہیں،جن کے لشکارے میں پوراشعر چمک اٹھتاہے۔ضرورت صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ شاعر شعر کے موضوع اور خیال کی نزاکت کی مناسبت سے الفاظ کااستعمال کس طرح کررہاہے۔نگینے کی طرح جڑ رہاہے یابڑھئی کی طرح کیلیں ٹھونک رہاہے۔نظمی اپنے شعر میں جو لفظ لاتے ہیں وہ اس کی روح سے واقف ہوتے ہیں۔جہاں آسمان کہناہوتاہے وہاں فلک نہیں کہتے ،جہاں زمین باندھناہوتاہے وہاں دھرتی نہیں باندھتے‘‘۔(بعد ازخدا،ص۲۱)آپ نے چوکھارنگ،ملنگ،دبنگ،پیم ،سونے نین،چرن،دن دنادن،سناسن،ٹناٹن،اور کھناکھن وغیرہ ہندی کے مدھربولوں کااستعمال بھی بڑی حسن خوبی سے کیاہے۔

ؑ٭عشق رسالتﷺاور احتیاط :آج پوری دنیامیں آپ کی شخصیت اور نعتیہ شاعری کاچرچازبان زد خاص وعام ہے۔پروفیسر ڈاکٹر انور شیرازی(لندن)حضور نظمی ؔمیاں کی نعتیہ شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طرازہیں:نعت دراصل غزل کے خاندان کی ہی ایک رکن ہے۔غزل اگرمحبوب سے باتیں کرنے کانام ہے تو نعت محبوب خداکی باتیں کرنے کانام ہے۔فرق یہ ہے کہ غزل میں مضمون کی بھرپورآزادی رہتی ہے جبکہ نعت میں قدم قدم پر احتیاط سے کام لیناپڑتاہے۔حضور خاتم المرسلین ﷺ کے تعلق سے کچھ کہنے سے پہلے سوبار سوچنا پڑتاہے۔یہی وہ نزاکت ہے جس کی وجہ سے اردوادب میں بہت کم لوگ نعت کے میدان میں اترسکے۔نعت کہنے کے لیے جولوازمات درکار ہیں ان میں سب سے بنیادی چیزہے عشق رسولﷺ۔اگر نعت کہنے والے کے دل میں ممدوح کی سچی محبت نہیں ہے تو اس کے اشعار محض بھرتی کی شاعری تک محدود رہیں گے۔نظمی ؔ صاحب آل رسول ہیں،نانا جانﷺ کی محبت ان کی رگوں میں خون کی جگہ دوڑ رہی ہے۔خانقاہی ماحول نے سونے پرسہاگہ کاکام کیاہے۔اسی لیے ان کے اشعار عشق رسولﷺ سے سرشار نظرآتے ہیں۔ (بعدازخدا ، ص۲۷)نعت کے لیے جہاں عشق رسولﷺشرط اول ہے وہی احتیاط کادامن تھامے رہنااور مبالغہ وغلو سے پرہیزکرنانعتیہ شاعری کا لازمی عنصر ہے۔جس طرح عشق رسالتﷺکی چاشنی کے بغیر نعت کا شعر قبول عام حاصل کرہی نہیں سکتااسی طرح محبت مصطفیﷺکا تقاضہ ہے کہ جو الفاظ غزل میں زنانِ بازاری کے لیے مستعمل ہیں وہ شانِ رسالتﷺ میں ہرگزہرگز استعمال نہ کیے جائیں۔حضور نظمی ؔ میاں کے کلام میں جہاں محبت مصطفی ﷺکے سوتے پھوٹتے نظرآتے ہیں وہی احتیاط کاپہلوبھی مضبوط دکھائی دیتاہے۔چنانچہ خود تحریر فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ تبلیغی دورے کے سلسلے میں مگہرسے گورکھپور جارہاتھا۔کار میں بیٹھے بیٹھے آمد شروع ہوگئی۔سب سے پہلے مطلع وارد ہوا ؂
دل میں عشق مصطفی کانوری جوہررکھ دیا
ہم نے غیراﷲ کواﷲ کے گھر رکھ دیا

ایک کے بعد ایک شعر ہوتے گئے اور جلد نعت پوری پوگئی۔گھورکھپورجاکر ڈائری میں نعت اُتارتے وقت خیال آیاکہ اگرچہ مطلع کادوسرا مصرع شرعی اعتبار سے صحیح ہے کہ
(۱)رسول اﷲﷺبلاشبہ غیراﷲ ہیں اور یہ عقیدہ تمام اہل ایمان کاہے۔
(۲)دل کواکثرصوفیائے کرام نے اﷲ کاگھربتایاہے اور اسے عرش اعظم سے بھی افضل قراردیاہے۔
مگرچونکہ غیراﷲ کی اصطلاح کچھناعاقبت اندیشوں نے اتنی عام کردی ہے اور اسے رسول اﷲﷺکی توہین کی نیت سے استعمال کرتے ہیں جسے عوام سنتے ہی بھڑک اٹھتے ہیں۔لہٰذابہتر یہی ہے کہ ایسی اصطلاح کااستعمال ہی ترک کردیاجائے۔اب یہ فکرلاحق ہوئی کہ دوسرامصرع بدلوں توکیابدلوں۔امام عشق ومحبت حضور اعلیٰ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ سے لَو لگائی اور فوراًہی متبادل مصرع موزوں ہوگیا۔اب مطلع یوں ہے:
دل میں عشق مصطفی کانوری جوہررکھ دیا
کیاکیا،چھوٹے سے کوزے میں سمندررکھ دیا

ایسااکثراشعار کے ساتھ ہواکہ شروع میں کچھ کہاتھامگرنظر ثانی میں انہیں بدلناپڑا۔وجہ تھی احتیاط کاتقاضا۔
٭نظمیؔ ورضاؔ کے کلام کی مشابہت:حضور نظمی ؔ میاں نے شاعری کاآغازاس وقت کردیاتھاجب آپ چھٹی یاساتویں جماعت میں تھے۔حضور سید شاہ ابوالحسین نوریؔ میاں قدس سرہ کے عرس کے موقع پرآپ کے والد ماجد کلام لکھ کر ممبئی سے مارہرہ شریف تشریف لاتے اور ان کو مشاعروں میں پڑھنے کے لیے صحیح تلفظ کی ادائیگی کے ساتھ مکمل مشق حضور نظمی ؔمیاں سے کروائی جاتی اور مشاعرے میں وہ کلام آپ سے پڑھوائے جاتے۔آپ کے والد ماجد کے کہنے پر آپ نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اﷲ علیہ کا مجموعۂ کلام’’ حدائق بخشش ‘‘پڑھناشروع کیا ،اس دوران آپ کو کئی ایک نعتیں ازبر ہوگئیں اور مختلف تقاریب میں آپ وہ نعتیں پڑھنے بھی لگے۔مزار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی حاضری پر آپ نے بارگاہ صمدیت میں دعاکی’’اے پرودردگار!عشق رسول اور نعت مصطفی علیہ التحیۃ والثناء کاجوسمندر تونے اپنے محبوب بندے احمد رضا کے سینے میں موجزن فرمایاتھااس کاایک قطرہ اپنے کرم سے میرے سینے میں بھی ڈال دے۔‘‘(بعد از خدا،ص۴۳)

سفر بریلی سے واپسی کے بعد آپ نے اعلیٰ حضرت کی سترہ نعتوں پر تضامین لکھی۔بہت کم لوگوں نے کلام ِرضا میں پیوندکاری کی جسارت کی ہے کیونکہ ظاہرہے کہ مخمل میں ٹاٹ کاپیوندنہیں لگایاجاتا۔حضور نظمی ؔ میاں نے سترہ نعتوں پرتضامین لکھی ہیں اور ہرنعت میں مخمل کے ساتھ مخمل کاہی جوڑلگایاہے۔مثلاً:
انگلیوں سے چشمے جاری ہوں وہ ان کادست پاک
بادشاہی جس پہ ہوقرباں وہ ان قدموں کی خاک
معجزات مصطفی کی سارے عالم میں ہے دھاک
سورج الٹے پاؤں پلٹے چانداشارے سے ہوچاک
اندھے نجدی دیکھ لے قدرت رسول اﷲ کی

کلام رضاپر تضامین کامجموعہ ’’شان مصطفیﷺ‘‘کے نام سے شائع ہوکر عام وخاص سے دادودہش حاصل کرچکاہے ۔اسی طرح کلامِ رضاؔاور کلامِ نظمی ؔ میں جوصوتی ومعنوی ہم آہنگی پائی جاتی ہے اسے ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی نے اپنی کتاب ’’اقلیم نعت کا معتبر سفیر:سید نظمیؔ مارہروی‘‘میں پیش فرمایاہے۔ ان میں سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہے ؂
لطف ان کا عام ہوہی جائے گا
شاد ہرناکام ہوہی جائے گا (رضابریلوی)
لطف ان کاعام ہوگاجس گھڑی میزان پر
نظمی ؔ عاصی کا بیڑاپارہوہی جائے گا (نظمیؔ مارہروی)
عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے
جانِ مراد اب کدھر ہائے ترامکان ہے (رضابریلوی)
رفعت مصطفائی پر عرش کی عقل دنگ ہے
ان کی ہراک ادا میں کیا محبوبیت کارنگ ہے (نظمیؔ مارہروی)

سرور کہوں کہ مالک ومولاکہوں تجھے
باغِ خلیل کاگل زیباکہوں تجھے (رضابریلوی)
مالک کہوں کہ صاحب رحمت کہوں تجھے
پروردگارِ خلق کی نعمت کہوں تجھے (نظمیؔ مارہروی)

٭عظیم روحانی پیشوا:آپ کی شخصیت کاسب سے اہم اور قابل ذکر پہلویہ تھاکہ آپ امام احمدرضا علیہ الرحمہ کے پیرومرشداور مفتی اعظم ہند کے پیرومرشدکی گدی کے وارث وامین اور سجادہ نشین تھے۔اس اعتبار سے آپ روحانیت وعرفانیت،تصوف ومعرفت اور طریقت وحقیقت کے بھی کوہ گراں تھے۔ہزارہامصروفیات کے باوجود دین اسلام کی تبلیغ واشاعت میں تاحیات کوشاں رہے ۔آپ نے اصلاح امت،تحفظ سنّیت،ترویج مسلک اعلی حضرت،رشدوہدایت،تصوف وولایت،تاریخ اسلامی اور سیرت طیبہ کے اہم گوشوں کواجاگر کرنے کے لیے درجنوں کتابیں تصنیف فرمائی۔تاحیات ملکی وبیرونی تبلیغی اسفارکا سلسلہ جاری رہا۔ایسابھی نہیں ہیکہ آپ کادائرہ کار صرف خانقاہ تک ہی محدود تھا بلکہ آپ ایک ہمہ جہت شخصیت تھی۔اس بات کا اندازہ پروفیسر ڈاکٹرانور شیرازی کے اس تبصرے سے لگایاجاسکتاہے۔چنانچہ ڈاکٹر شیرازی رقم طراز ہیں:’’مولیٰناسیدآل رسول نظمی سے میری ملاقات پریسٹن میں ہوئی تھی جب وہ سنّی دعوت اسلامی کے اجتماع میں شرکت کے لیے آئے تھے۔پہلی نظر میں وہ مولیٰنا ہی لگے،کہیں سے کہیں تک شاعر نہیں۔․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․نظمی کامیدان بنیادی طور پر روحانیت ہوناچاہئے تھاکیونکہ وہ جس خاندان عالی سے تعلق رکھتے ہیں اس کایہی تقاضاہے۔مگرمیں جس نظمی سے ملاوہ روحانیت کے علاوہ فلمی ادب ، جاسوسی ادب،زرد صحافت وغیرہ جیسے نازک موضوعات پر بھی کافی گہری نظررکھتاہے۔تقریباًچونتیس کتابوں کے مصنف نے مجھ سے عالمی مذاہب کے تقابلی موازنے پر کافی تفصیل سے گفتگوکی،کبھی مجھے ایسالگاکہ میں پنڈت آل رسول سے مخاطب ہوں اور کبھی یوں محسوس ہواکہ میرے سامنے فادر آل رسول بیٹھے ہوئے ہیں۔نظمی اپنے ہررنگ میں منفرد لگے‘‘۔(بعداز خدا،ص۳۳)

٭فنی مہارت :شاعری میں صرف فنی التزام ہی ضروری نہیں بلکہ فکروخیال کی عطربیزی بھی درکار ہے۔حضور نظمی ؔمیاں نے شعری دھاک جمانے کے لیے سخن آرائی نہیں کی ۔ان سے ان کا مطمح نظر قوم مسلم میں عشق رسولﷺکی شمع کو روشن کرناتھا۔آپ لکیر کے فقیر نہ تھے جو صرف عام فہم بحر وں میں اپنے خیالات کی ترسیل کرتے بلکہ آپ نے عام روش سے جداگانہ بحروں میں طبع آزمائی کی۔چنانچہ علامہ ساحل شہسرامی (علیگ)لکھتے ہیں:آپ بڑی ٹیڑھی ترچھی زمینوں کاانتخاب فرماتے ہیں،پیچیدہ اور نادر قافیے بھی استعمال کرتے ہیں پھربھی شستگی کی فضابرقراررہتی ہے اور پڑھنے ،سننے والے اکتاہٹ محسوس نہیں کرتے۔یہ فن نعت کی برکت بھی ہے اور حضرت نظمی کی شعری کرامت بھی۔(بعدازخدا،ص۳۷)آپ کے دیوان میں درج دونعتیں عجوبۂ روزگار ہیں۔ جو یقینا اردو میں اپنی نوعیت کی منفرد نعتیں ہیں۔بلکہ ڈاکٹرانور شیرازی نے اسے دنیاکی طویل ترین بحر کی نعت قراردیاہے۔جس کاایک مصرع ایک سانس میں پڑھنامضبوط دَم والے انسان کے لیے بھی دشوار ہے۔مگرطویل بحر کے باوجود شعریت ونغمگی اور سلاست وروانی کہیں بھی مفقود نہیں ہوئی۔دونوں نعتوں کے مطلع خاطر نشین فرمائیں ؂
(۱)مصرعۂ اولیٰ:کیا ہوا آج کہ خوشبو سی ہوا میں ہے تجلی سی فضا میں ہے مہکتی ہوئی گلیاں ہیں چٹکتی ہوئی کلیاں ہیں چمن کیف میں جھومے ہے فلک وجد میں گھومے ہے سجی آج یقیناً کہیں پھر نعت کی محفل
مصرعۂ ثانی:نکہتیں لیتی ہیں انگڑائی چو طرفہ ہیں رعنائی قدسی کی قطاریں ہیں درودوں کی بہاریں ہیں سماں برکتوں والا ہے اْجالا ہی اْجالا ہے کہ سرشار ہے آقا کی محبت میں ہر اک روح ہر اک دل
(۲)مصرعۂ اولیٰ :یہی آرزو ہے یہی جستجو ہے کہ جب تک رہیں دھڑکنیں میرے دل میں چلیں میرے سینے میں جب تک یہ سانسیں کیے جاؤں آقائے نعمت کی باتیں انہی مصطفی جانِ رحمت کی باتیں
مصرعۂ ثانی: زباں پر مری بس انہی کا بیاں ہو مری روح میں یاد ان کی نہاں ہو رہے وقف ان کے لیے میرا تن من مرے دل میں ہوں ان کی الفت کی باتیں محبت کی باتیں عقیدت کی باتیں

٭تصنیفی خدمات:نعتیہ شاعری تو آپ کاخاص میدان فکروعمل تھا ویسے آپ کا رہ وار قلم نثرونظم دونوں ہی میدانوں میں یکساں رواں دواں تھا۔آپ نے اپنا قلمی سفر ۱۹۵۸ء میں ایک کہانی سے شروع کیا۔’’یادگار‘‘ کے عنوان سے یہ کہانی دلی سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالے ماہنامہ کھلونا میں چھپی تھی۔کئی اور کہانیاں اور افسانے ہندوستان کے مشہور ادبی رسالوں میں چھپے۔کئی برس غزلیں اور نظمیں لکھیں جوملک کے مشہور ومعروف ادبی رسالوں اور اخبارات میں شائع ہوئیں۔آپ نے اردو کے علاوہ فارسی،ہندی گجراتی اور انگریزی میں بھی اپنا علمی اثاثہ علمی دنیااور جہانِ ادب کو عنایت کیا ہے۔دیگر زبانوں سے اردو میں تراجم بھی کیے ہیں اور اردو سے دیگر زبانوں میں بعض اہم کتب کو منتقل بھی کیا ہے۔ آپ کی بیش تر تصانیف زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر جلوہ گر ہو کر اہلِ علم و دانش سے خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔حضورنظمی مارہروی کی تصانیف کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔
(۱) کلام الرحمن (ہندی ترجمہ کنزالایمان و خزائن العرفان)
(۲) مصطفی جانِ رحمتﷺ(مختصر سیرت)
(۳) شانِ مصطفیﷺ (کلامِ رضا پر تضامین)
(۴) مدائحِ مصطفیﷺ (نعتیہ دیوان)
(۵) اسرارِخاندانِ مصطفیﷺ (ترجمہ رسالہ فارسی)
(۶) تنویرِ مصطفیﷺ (نعتوں کا مجموعہ)
(۷) عرفانِ مصطفیﷺ(مجموعۂ کلام)
(۸) نوازشِ مصطفیﷺ (نعتیہ دیوان)
(۹) مصطفی سے آلِ مصطفی تک(تذکرۂ مرشدانِ سلسلۂ برکاتیہ)
(۱۰) مصطفی سے مصطفی رضا تک(تذکرہ)
(۱۱) قرآنی نماز بہ مقابلہ مائکروفونی نماز(اردو میں رسالہ)
(۱۲) قرآنی نماز بہ مقابلہ مائکروفونی نماز(ہندی میں رسالہ)
(۱۳) دی گریڈ بیانڈ (علمِ غیبِ رسولﷺپر انگریزی رسالہ)
(۱۴) نظمِ الٰہی (انگریزی تفسیر سورۂ بقرہ قریباً ۸۰۰؍ صفحات)
(۱۵) گستاخی معاف (ہندی انشائیے)
(۱۶) گھر آنگن میلاد(میلاد نامہ برائے خواتین، مختصر)
(۱۷) گھر آنگن میلاد(میلاد نامہ برائے خواتین، مفصل)
(۱۸) ذبحِ عظیم(واقعاتِ کربلا)
(۱۹) دی وے ٹو بی(انگریزی ترجمہ بہارِ شریعت، سولہواں حصہ)
(۲۰) کیا آپ جانتے ہیں ؟ (اسلامی معلومات)
(۲۱) اسلام دی ریلی جن الٹی میٹ(انگریزی)
(۲۲) ڈیسٹی نیشن پیرا ڈائز(فضائلِ صحابہ،انگریزی)
(۲۳) گیٹ وے ٹو ہیون(خواتین کے لیے رسالہ، انگریزی)
(۲۴) ان ڈیفینس آف اعلیٰ حضرت(انگریزی)
(۲۵) فضلِ ربی(سفرنامہ اردو)
(۲۶) فضلِ ربی (سفر نامہ ہندی)
(۲۷) سبع سنابل شریف پر اعتراضات کے جوابات
(۲۸) قصیدۂ بْردہ شریف (اردو، انگریزی اور ہندی میں ترجمہ و تشریح)
(۲۹) کتاب الصلاۃ(طریقۂ نماز پر انگریزی رسالہ)
(۳۰) اعلیٰ حضرت کی تصنیفِ مبارکہ ’’الامن و العلیٰ‘‘ کا انگریزی ترجمہ
(۳۱) ہندی ترجمہ نئی روشنی(اصلاحی ناول مصنفہ حضور سیدالعلماء )
(۳۲) مصطفی سے مصطفی حیدر حسن تک(تذکرہ)
(۳۳) بعد از خدا…(مکمل نعتیہ دیوان)
(۳۴) کیا آپ جانتے ہیں ؟ (ہندی)
(۳۵) چھوٹے میاں (خانقاہی پس منظر میں ایک ناول)
(۳۶) عمر قید(گجراتی کلاسیکی ناول کا اردو ترجمہ، نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا کے لیے)
(۳۷) آگ گاڑی(گجراتی کلاسیکی ناول کا اردو ترجمہ، نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا کے لیے)
(۳۸) لْو لْو (شیلانگ کے پس منظر میں ایک سماجی ناول)
(۳۹) طیبہ رشکِ جناں (اردو، ہندی)
(۴۰) سب سے بڑا اﷲ کا رشتہ(موضوع: الحب ﷲ والبغض فی اﷲ)
(۴۱) چل قلم (نعتیہ دیوان، بعد از خدا…! کا ہندی روپ)
(۴۲) دی ایکزل ٹیڈہاؤس آف دی ہولی پروفیٹ(انگریزی ترجمہ تصنیف مبارکہ ’’ الشرف المعبدلآلِ محمد،از:علامہ نبہانی علیہ الرحمہ)

٭وفات: ۶؍نومبر بروز بدھ ۲۰۱۳ء کوحضور نظمی میاں جیسی تہہ در تہہ اور متنوع صفات وخصوصیات کی حامل شخصیت اپنے مالک حقیقی سے جا ملی۔نزدمینارہ مسجد ممبئی میں آپ کے صاحبزادہ کی اقتدا میں ہزارہاعقیدت مندوں نے نم پلکوں کے ساتھ نماز جنازہ ادا کیں۔مارہرہ شریف میں تدفین عمل میں آئی ۔ مولیٰ کی بارگاہ میں دعاہیکہ اﷲ پاک اپنے محبوب کے قدموں میں اعلیٰ مقام عطافرمائے ۔
٭٭٭
ماخذ:
۱۔بعدازخدا
۲۔اقلیم نعت کا معتبر سفیر:سیدنظمی مارہروی
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731789 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More