بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
صحابہ اور اہل بیت کے فضایل اور ایک نظر واقعہ کربلہ پر
قرآن کریم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت پر کئ آیات وارد ہوئ ہیں
مثلا سورۃ التوبۃ آیت 100، سورۃ الفتح آیت 29، سورۃ الفتح آیت 18 وغیرہ.
اسی طرح کئ احادیث صحیحا میں بھی صحابہ کی فضیلت آئ ہے، مثلا، مفہوم
جس نے میرے صحابہ پر شتم کیا تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں
کی لعنت ہے
(حوالہ: السلسلۃ الصحیحۃ جلد 5 صفحہ 446 حدیث نمبر 2340)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : ایک زمانہ آئے گا کہ اہل
اسلام کی جماعتیں جہاد کریں گی تو ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تمہارے ساتھ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صحابی بھی ہے ؟ وہ کہیں گے کہ ہاں
ہیں ۔ تب ان کی فتح ہو گی ۔ پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ مسلمانوں کی
جماعتیں جہاد کریں گی اور اس موقع پر یہ پوچھا جائے گا کہ یہاں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کی صحبت اٹھانے والے ( تابعی ) بھی موجود ہیں
؟ جواب ہو گا کہ ہاں ہیں اور ان کے ذریعہ فتح کی دعامانگی جائے گی ، اس کے
بعد ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کی جماعتیں جہاد کریں گی اور اس وقت
سوال اٹھے گا کہ کیا یہاں کوئی بزرگ ایسے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے صحابہ کے شاگردوں میں سے کسی بزرگ کی صحبت میں رہے ہوں ؟ جواب ہو
گا کہ ہاں ہیں ، تو ان کے ذریعہ فتح کی دعا مانگی جائے گی پھر ان کی فتح ہو
گی ۔
(حوالہ: صحیح بخاری، فضائل اصحاب النبی، حدیث نمبر 3649)
معلوم ہوا کے امت کا بہترین طبقہ صحابہ کو قرار دیا
فضائل اہل بیت کے حوالہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا اور کسی نے ان سے محرم کے بارے
میں پوچھا تھا ، شعبہ نے بیان کیا کہ میرے خیال میں یہ پوچھا تھا کہ اگر
کوئی شخص ( احرام کی حالت میں ) مکھی ماردے تو اسے کیا کفارہ دینا پڑے گا ؟
اس پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا، مفہوم : عراق کے لوگ مکھی
کے بارے میں سوال کرتے ہیں جب کہ یہی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
نواسے کو قتل کر چکے ہیں ، جن کے بارے میں رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا تھا کہ دونوں ( نواسے حسن وحسین رضی اللہ عنہما ) دنیا میں میرے
دوپھول ہیں ۔
(حوالہ: صحیح بخاری حدیث نمبر: 3753)
اسی طرح سیدنا اسامہ اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہما کو پکڑ کر فرمایا، اے
اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما
(حوالہ: صحیح بخاری حدیث نمبر: 3747)
سورۃ الآحزاب سورۃ نمبر 33 اور آیت نمبر 33 سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت سے
مراد امہات المؤمنین ہیں اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ سیدنا علی، فاطمہ رضی
اللہ عنہم بھی اہل بیت ہیں
صحابہ اور اہل بیت کے چند ایک فضائل کو ذہن میں رکھتے ہوۓ ایک نظر واقعہ
کربلا پر بھی ڈال لیتے ہیں دراصل اکثر سنی حضرات میڈیا کی بے انتہا آزادی
اور کم ازکم پاکستان بھر میں میڈیا پر شیعہ واعظین کے مکمل کنٹرول کی وجہ
سے شیعہ حضرات کے جھوٹے پروپیگنڈا میں آکر بہت سی وہ باتیں کر جاتے ہیں جو
حقیقت میں ویسی نہیں تھیں مثلا واعظین کا کہنا کہ یہ حق و باطل کی جنگ تھی،
ذہن میں رہے کہ بعض شیعہ حضرات صحابہ کی منافقت اور کفرو ارتداد (معاذ
اللہ) کے قائل ہیں جو صحابہ پر ایک صریح جھوٹ اور بہتان ہے جیسا کہ پہلے
صحابہ رضی اللہ عنہم کے فضائل میں صحیح روایات سے ثابت بھی کیا گیا.
اسی طرح سب ہی تاریخی حقائق یہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ ابن عمر، سیدنا
ابو سعید خدری، سیدنا ابوالدردا، سیدنا ابو واقد لیثی، سیدنا جابر بن
عبداللہ، سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین نے سیدنا حسین رضی
اللہ عنہ کو عراق جانے سے منع فرمایا تو اگر یہ کفر و اسلام کا معرکہ ہوتا
تو کیا یہ جلیل القدر صحابہ پیچھے رہتے؟ یہاں تک کہ سیدنا حسین رضی اللہ
عنہ کو بھی بعد میں احساس ہوا.
واقعہ مختصر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ دوسرے صحابہ کے منع کرنے کے باوجود
کوفہ سے متواتر خطوط ارسال ہونے کی وجہ سے کوفہ کی طرف چل پڑے اور حالات کا
جائزہ لینے کے لیے آپ نے اپنے چچا زاد بھائ مسلم بن عقیل کو بھیجا مگر
راستے ہی میں اطلاع آئ کہ مسلم بن عقیل کو کوفہ میں شہید کر دیا گیا ہے، اس
المناک خبر سے آپ کا اہل کوفہ پر اعتماد یقینا متزلزل ہوگیا جو تاریخ کے
مندرجات سے صاف ظاہر ہوتا ہے.
تاریخ میں اس موقع پر یہ ملتا ہے، مفہوم:
"چنانچہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے واپسی کا ارادہ کر لیا لیکن آپ کے ساتھ
مسلم بن عقیل کے جو بھائ تھے، انھوں نے کہا کہ واللہ! ہم تو اس وقت تک واپس
نہیں جائیں گے جب تک ہم انتقام نہ لے لیں گے یا پھر خود بھی قتل ہو جائیں."
(حوالہ: تاریخ الطبری جلد: 4 صفحہ: 292، مطبعة الاستقامة قاہرہ: 1939ء)
اور یوں اس قافلہ کا سفر کوفے کی طرف جاری رہا.
اس بات پر بھی تاریخی شوائد متفق ہیں کہ مقام کربلا پہنچنے پر گورنر کوفہ
عبید اللہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو مجبور کر کے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ
کے مقابلہ کے لیے بھیجا. اس دوران عمر بن سعد نے آپ رضی اللہ عنہ سے گفتگو
کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے عمر بن سعد کے سامنے تین بہت ہی مناسب شرائط
رکھیں جو متعدد تاریخی روایتوں سے ثابت ہے.
: سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کہا، مفہوم
"تین باتوں میں سے ایک بات مان لو. میں یا تو کسی اسلامی سرحد پر چلا جاتا
ہوں یا واپس مدینہ منورہ لوٹ جاتا ہوں یا پھر میں (براہ راست جاکر) یزید بن
معاویہ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیتا ہوں (اس سے بیعت کر لیتا ہوں) عمر بن
سعد نے ان کی یہ باتیں قبول کر لیں"
(حوالہ: امام ابن الحجر عسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی 852 ہجری) کی الإصابة
جلد: 2 صفحہ: 71،الطبعة 1995ء دارالکتب العلمیۃ)
عمر ابن سعد نے یہ تجویز منظور کر لینے کے بعد عبید اللہ ابن زیاد گورنر
کوفہ کو بجھوا دیں، عبید اللہ ابن زیاد کا اصرار تھا کہ سیدنا حسین رضی
اللہ عنہ پہلے یزید کے لیے اسکے ہاتھ پر بیعت کریں، مفہوم:
"سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اسکے لیے تیار نہ ہوۓ اور ان کی طبع خود داری نے
یہ گوارا نہ کیا، چنانچہ اس شرط کو مسترد کر دیا گیا جس پر لڑائ چھڑ گئ اور
آپ کی (اور آپ کے رفقاہ کی) مظلومانہ شہادت کا یہ واقعہ فاجعہ پیش آگیا
(حوالہ: الإصابة جلد: 2 صفحہ: 71، تاریخ الطبری جلد: 4 صفحہ: 293)
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت یزید پر رضامندی ابن حجر رحمہ اللہ کی
الإصابة کے علاوہ درجہ ذیل کتب میں بھی موجود ہے:
ابن حجر ہی کی تهذيب التهذيب جلد: 2 صفحہ: 328-353 اسی طرح تاريخ الطبري
جلد: 4 صفحہ: 293، تهذيب تاريخ ابن عساكر جلد: 4 صفحہ: 325-337، البداية
والنهاية جلد: 8 صفحہ: 170-175، الكامل لابن الأثير جلد: 3 صفحہ: 283 وغیرہ
اور دیگر کئ کتابوں میں بھی موجود ہے حتی کے کئ شیعی کتب میں بھی موجود ہے
ان تاریخی شوائد سے معلوم ہوا کہ اگر یہ کفر و اسلام کا معرکہ ہوتا تو کوفہ
میں مسلم بن عقیل کی شہادت کی اطلاع ملنے پر آپ واپسی کا عزم ظاہر نہ کرتے.
پھر ان شرائط مصالحت سے جو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے عمر بن سعد کے سامنے
رکھیں، یہ بات بالکل نمایاں ہو جاتی ہے کہ سیدنا حسین کے ذہن میں جو تحفظات
تھے آپ اس سے دستبردار ہوگۓ. بلکہ یزید ابن معاویہ کی حکومت کو تسلیم کر
لینے پر آمادہ بھی ہوگیے-
اس سے واضح ہوا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ یزید ابن معاویہ (رضی اللہ عنہ)
کو حکومت کا نا اہل نہیں سمجھتے تھے اگر ایسا ہوتا تو وہ یزید کی بیعت کرنے
کے لیے تیار نہ ہوتے اور یزید کے پاس جانے کے مطالبے سے معلوم ہوتا ہے کہ
آپ کو یزید سے حسن سلوک ہی کی توقع تھی. اور اس حادثہ کی ذمہ دار عبید اللہ
ابن زیاد اور اسکی کوفی فوج تھے جنہوں نے خطوط بھی لکھے اور کوفیوں ہی نے
عمر ابن سعد کی مصالحت کو ناکام بنایا. |