شعور و لاشعور اور اسمبلی الیکشن !

دور جدید ہو یا ماضی کے گزرے ہوئے حالات، فی زمانہ بے شمار کام وقت کے متقاضی سمجھتے ہوئے انجام دیے جاتے ہیں۔کاموں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر وہ کام انجام نہ دیئے جائیں تو مسائل میں ہر دن اضافہ ہی ہوتاہے۔یہ حقیقت ہے کہ ہر کام کے انجام دینے کے پس پشت کچھ مقاصد و عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔اورہر مقصد ایک واضح اورمتعین فکرکی بنا پر وجود میں آتا ہے۔لہذا مقصد جس کو کبھی بیان کیا جاتا ہے اور کبھی نہیں بھی،اِس سے زیادہ اہمیت اُس فکر کی ہوتی ہے،جس کی بنا پر وہ مقصد وجود میں آیا ہے۔لہذا مقصدسے بالاترفکرہوئی،اورفکر یعنی نظریہ یا وہ بنیادی اصول جن کے ما تحت مقصد کے حصول کا طریقہ اختیار کیاجاتا ہے۔لیکن اگر فکر واضح نہ ہو،اس کو کھل کر بیان نہ کیا جائے،فکر پر پردہ ڈالا جائے یافکرکے بیان میں دشواریاں لاحق ہوں،تو پھر ان تمام صورتوں میں مقصد بھی غیر واضح ہی کہلائے گا۔اورعموماًفکر و نظرکا انحصارمتعلقہ فردیا گروہ کے ماضی ،حال اور مستقبل کے حالات وتعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے۔مثلاًایک ایسا شخص جس کو وطن سے بے انتہا محبت ہے وہ ہر کام کے آغاز میں وطن کو پیش نظر رکھے گا،کہ آیا جو کام انجام دیا جا رہا ہے یا پیش نظر ہے اس سے وطن کو فائدہ ہوگا یا نقصان۔ایسا شخص وطن پرست یا قومیت کے نظریہ کا حامل کہلاتا ہے۔یہی اس کی فکر ہے،یہی نظریہ اور یہی اس کے تحت انجام دیے جانے والے کاموں کامقصدبھی۔یہ قوم پرست جب صرف اپنی قوم کے لیے بھلا چاہتاہے تودیگر اقوام کے بنیادی حقوق کو پامال کرنے سے بھی ذرا نہیں ہچکچاتا۔اس کی زندہ مثال امریکہ ہے ،جس نے امریکی قوم کے مفاد کے لیے آج بے شمار ممالک کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے۔لہذاکسی مخصوص نظریہ کے فروغ میں انجام دی جانے والی سرگرمیاں،مخصوص نظریہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی انجام دی جائیں گی۔کام چاہے کوئی بھی ہواور اُس کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے۔اس پس منظر میں ہم جیسے عام شخص کے لیے یہ بات جاننا نہایت مشکل ہوجاتی ہے کہ فلاح و بہبود کے نام پر سرگرمیاں جودن رات ہمارے سامنے انجام دی جا رہی ہیں،کس فکر و نظریہ کے ما تحت ہیں؟اور وہ کون اشخاص یا گروہ ہے جس کے ساتھ ہمیں تعاون و اشتراک کرنا چاہیے؟برخلاف اس کے کن لوگوں سے ہمیں دور رہنا چاہیے ؟فیصلے کے اس مرحلے میں ،ہم جیسے لوگ ناواقفیت کی بنا پر ایک اعجیب گو مگو کی حالت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔درحقیقتیہ ایک پیچیدہ اور دشوار گزار مرحلہ ہے۔اس کے باوجود عموماً دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ایک بڑی اکثریت،نظریہ،فکر اور مقاصدکو پس پشت ڈالتے ہوئے،مختلف افراد اور گروہ کے ساتھ تعاون و اشتراک کرتا ہے۔دوسری جانب لاشعوری میں انجام دی جانے والی سرگرمیاں جس میں ایک شخص یا گروہ اپنا وقت ،صلاحیت اور مال سب کچھ صرف کرتا ہے،نتیجہ کے اعتبار سے ایک لایعنی عمل کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔

ابتدائی گفتگو کے بعد ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہم اس شعوری کیفیت سے دوچار ہوں،جس کے نتیجہ میں انجام دینے والے اعمال ہر لحاظ سے سود مند ثابت ہوسکتے ہیں۔لازم ہے کہ اس کے لیے ہمیں شعور کی وسعتوں کو سمجھنا ہوگا،یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دراصل شعور کے معنی و مفہوم کیا ہیں۔اور جب انسان کو شعور حاصل ہو جاتا ہے تو اس کے بعد اور اس سے قبل ،دونوں ہی حالتوں میں انسان کے ذریعہ انجام دیے جانے والے اعمال کی کفیت کیا ہوتی ہے؟آیئے آج اسی خشک موضوع پر کچھ طبع آزمائی کریں۔
شعور اپنے آپ سے اور اپنے ماحول سے باخبر ہونے کو کہاجاتاہے۔ طب اور نفسیات میں اس کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے: "شعور اصل میں عقل (Mind)کی ایک ایسی کیفیت کو کہاجاتاہے جس میں ذاتیت (Subjectivity)، فہم الذاتی(Self-awarness)، ملموسیہ (Sentience)، دانائی (Sapience)اور آگاہی (Perception) کی خصوصیات پائی جاتی ہوں اور ذاتی (Onself) و ماحولی حالتوں میں ایک ربط موجود ہو۔آگاہی دراصل کسی حس کو سمجھنے کا عمل ہوتاہے جو دماغ میں انجام دیاجاتاہے باالفاظ دیگر آگاہی کسی حس سے پیدا ہونے والا عقلی تاثر ہوتاہے۔ جب ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ شعور کس طرح جاری رہتا ہے تو ہمیں چار حالتوں کا علم ہوتا ہے:
۱- ہرحالت کسی نہ کسی شخص کے شعور کاجزو ہوتی ہے۔ فرض کریں درس کے کمرے میں بہت سے خیالات وافکار موجود ہیں، میرے بھی اور آپ کے بھی۔ ان میں سے بعض باہم مطابق و متحد ہیں اور بعض متصادم۔ یہ جس قدر باہم اور ایک دوسرے سے الگ ہیں اسی قدر مسلسل و مربوط بھی ہیں۔ کیا اْس کمرے میں کوئی ایسا بھی خیال ہے جو کسی شخص کا خیال نہ ہو؟اس کے دریافت کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ کیوں کہ ایسے خیال کا ہم کوکبھی تجربہ نہیں ہوا۔ اس لیے جن شعوری حالتوں سے ہم بحث کرتے ہیں وہ ظاہر ہے شخصی شعوراوراذہان ذوات کے اندر پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ہر ذہن اپنے خیالات و افکار کو اپنی حد تک ہی رکھتاہے۔
۲- ہر شخص کے شعور میں حالتیں ہمیشہ متغیر ہوتی رہتی ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک نفسی حالت ایک بار طاری ہونے کے بعد دوسری بار اس طرح سے نہیں پلٹ سکتی کہ بعینہٰ ایسی ہی ہو جیسی پہلی مرتبہ تھی۔ جو چیزیں جوانی میں ولولہ انگیزہوتی ہیں وہ بڑھاپے میں بے معنی اور نکمی نظر آنے لگتی ہیں۔
۳- ہر شخص کا شعور محسوس طورپر مسلسل ہوتاہے۔ ایک شخص رات میں سوتاہے،اس کا ذہنی شعور اور ذہنی تعلق نیند کے دوران منقطع ہوجاتاہے لیکن جب وہ سوکر اٹھتاہے تواس کا شعور ماضی ، شعور حال سے مل جاتاہے۔ اس کو وہ تمام حالتیں یاد ہیں جو سونے سے قبل کی تھیں۔ زمانہ ماضی کی حالتیں زمانہ حال کی ذہنی حالت سے لازماً مل جاتی ہیں۔
۴- اپنے معروض کے بعض اجزا کی طرف زیادہ مائل ہوتاہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بعض اجزا کی طرف مائل نہیں ہوتا اور ہر وقت معروض کے بعض اجزا کو لیتاہے اور بعض کو رد کردیتاہے۔ یعنی ہر شخص ہرلحظہ ان اجزا میں بعض کا انتخاب کرتارہتا ہے۔

شعور کی یہ حالتیں جن سے ہر شخص متاثرہوتاہے ، اسی کے ذریعے اس کا قلب و ذہن بھی متاثر رہتا ہے۔ اس کاآغاز کسی چیز کے محسوس کرنے سے ہے اور اختتام کسی عمل کے مکمل ہونے پر۔ قرآن جب کہتاہے کہ"یہ اندھے ہیں، گونگے ہیں، بہرے ہیں، انھیں کچھ نہیں سوجھتا"تو اس صورت میں قرآن انسان کے اُس شعور کی حالت کاذکر کرتا ہے، جس میں سب کچھ دیکھنے ، سننے اور مشاہدہ کے باوجود انسان ایک طرح کی بے ہوشی (لاشعوری)میں مبتلا رہتا ہے۔ اس کو درک حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ آگاہی حاصل کرپاتاہے۔ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ ایسے افراد کاتذکرہ کرتاہے:ـ"بھلا سوچو ، جو شخص منھ اوندھائے چل رہاہو وہ زیادہ صحیح راہ پانے والا ہے یا وہ جو سر اٹھائے سیدھا ایک ہموار سڑک پر چل رہاہو؟ ان سے کہو۔ اﷲ ہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا، تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقتیں دیں اور سوچنے، سمجھنے والے دل دیے۔ مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو"(المک:۲۲)۔یہاں جو صورت حال بیان کی گئی ہے اس میں بھی انسان کی دوحالتوں کاتذکرہ کیاگیاہے۔ ایک شعوری اور دوسری لاشعوری۔ شعوری حالت میں وہ اپنی زندگی اور اس کے نشیب وفراز کو سوچ سمجھ کر اور علم کی روشنی میں انجام دیے جانے والا عمل کرتاہے وہیں دوسری حالت یہ ہے کہ ایک انسان بے سوچے سمجھے اور لاعلمی میں اپنی پوری زندگی گزار دیتا ہے۔گفتگو کے اس پورے پس منظر میں موجودہ حالات میں مسلمانان ہند کو اپنے شب وروزکا جائزہ لینا ہوگا اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ کن مقامات سے اپنی وابستگیاں اختیار کیے ہوئے ہیں؟مہاراشٹر کے الیکشن ختم ہو چکے ہیں،مسلمانوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے ووٹوں کو مختلف پارٹیوں کے حوالے اس امید کے ساتھ کیا تھا کہ وہ سیکولر ملک میں سیکولر طاقتوں کو اپنا تعاون دیں گے۔لیکن آج نام نہاد سیکولر جماعتیں فرقہ پرست طاقتوں کو اپنا تعاون پیش کرنے کے لیے بے چین ہیں۔شعور و لاشعور کے اس گنجلک عمل میں جھارکھنڈ اور دہلی کے الیکشن بھی قریب آیا چاہتے ہیں۔وہیں دوسری طرف ملک کی تہذیب وثقافت اورتاریخ کا رخ موڑنے کا کھیل بھی ،بہت ہی منظم انداز میں جاری ہے۔ان حالات میں وقت کا تقاضہ ہے کہ ایک بار پھر ووٹ کے استعال کرنے والوں کو قبل از وقت کچھ بڑے فیصلہ لے لینا چاہیے!
Muhammad Asif Iqbal
About the Author: Muhammad Asif Iqbal Read More Articles by Muhammad Asif Iqbal: 218 Articles with 161926 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.