اہم مواقعوں پر سیاسی قائدین کے
کئے ہوئے فیصلوں میں ریاست کی کامیابی و ناکامی کا دارومدار ہوتا ہے۔ آج کل
ہمارے ملک میں جلسے، جلوس ، احتجاج ،دھرنے ،ضمنی انتخابات اورسیاسی بیانات
کی آگ نمرودبھڑک رہی ہے۔اس تناظر میں ہم اپنے سیاستدانوں کو بخوبی پرکھ
سکتے ہیں،کہ کیا ان تمام سیا سی جھمیلوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ان کی سوچ
تعمیری ہے یا اس خود ساختہ سیاسی بحران کے پیچھے تمام جماعتوں کو ہوس
اقتدارکھینچ لائی ہے؟۔ اسلام آباد میں عید قرباں کے دن سے ہی کسی ایک دھرنے
کے ختم ہونے کا چرچا تھا، اب دیکھنا یہ تھا کہ کون سا کزن پہلے دھرنا چھوڑ
کرجاتا ہے۔طاہر القادری نے اپنا پچھلا ریکارڈ بہتر کرتے ہوئے دھرنا ختم
کرنے کا اعلان کر دیا۔ عوامی تحریک کے جن کارکنوں پر مختلف مقدمات درج تھے
،سننے میں آیا ہے کہ وہ سب و اپس لے لیئے گے ہیں ۔ عوامی تحریک کے مطلوبہ
کارکنوں کی گرفتاری کے لیے 11 مختلف اضلاع میں بھجی گئی پولیس کو بھی وزیر
داخلہ چوہدری نثار کے حکم پر واپس بلا لیا گیا ہے۔ علامہ طاہر القادری نے
پارلیمان کے سامنے63دن سے جاری دھرنا ختم کرتے ہوئے کہا کہ دھرنا انقلاب
سفر میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اب پاکستان کے ہر گاؤں اور ہر شہر میں2,2 دن
دھرنا ہو گا۔پچھلے 70دنوں میں طاہرالقادری کے دئے گئے دھواں داربیانات پر
نظر ڈالیں تو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے طاہر القادری صاحب میاں نواز شریف
کی اتفاق مسجد کے سابقہ امام نہیں بلکہ ان کے اذلی دشمن اور خطرناک ترین
سیاسی حریف ہوں۔مثلاوہ کہتے رہے کہ، اس اگست کے ختم ہونے سے پہلے یہ ملک کے
حکمران نہیں رہیں گے، انقلاب مارچ کے شرکاء نوازشریف اور شہباز شریف کے
مستعفی ہو کر ان کی حکومت کے ختم ہونے تک اور ان کے گرفتار ہونے تک یہاں سے
نہیں جائیں گے،تخت یا تختہ یا فتح یا شہادت، نواز شریف اور شہباز شریف
دونوں مستعفی ہوں اور ان پر آرٹیکل6کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔حکومت کو
48گھنٹے کی مہلت دیتے ہیں اس کے بعد مجھے میرے آدمیوں پر قابو نہیں رہے گا۔
میرے پاس ایک کفن ہے اسے یا تو میں پہنوں گا یا نواز شریف کا اقتدار پہنے
گا۔دھرنے میں قبریں کھودی گئیں لوگوں نے کفن پہنے رکھا۔یہ کفن انہیں چوہدری
پرویز الہی نے مہیا کیا تھا آخر چوہدری برادران بھی تو اس انقلاب کا لندن
سے حصہ تھے ان کا بھی توکوئی حق بنتا تھا جو انہوں نے کفن کی شکل میں پورا
کیا ۔یہ الگ بات ہے ان کی کھودی ہوئی قبر میں طاہر القادری کے بے گناہ لوگ
دفن نہیں ہوسکے اور ان کی بیہمانہ سیاسی چال اپنی موت آپ مرگئی۔اب جبکہ
دھرنوں کے مشترکہ جوڑی دار کزن جدا ہو چکے ہیں۔ یہ جوڑی بالکل پھول اور
خوشبو کی طرح لاہور سے ایک ہی دن انقلاب اور آزادی مارچ کے سفر پر اکٹھی
نکلی اور ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کے وعدے بھی کئے ۔زیادہ دن نہیں گزرے
،قادری صاحب نے لاہور سے نکلتے ہوئے کہا تھا انقلاب لائے بغیر اسلام آبا
دسے جو بھی واپس آیا اسے شہید کر دیا جائے،جب قادری صاحب نے یہ بیان دیا اس
وقت چوہدری شجاعت حسین ،چوہدری پرویز الہی ،شیخ رشید احمد (جو قادری صاحب
کے دھرنا ختم کرنے پر کہتے ہیں ۔ مجھے نہیں پتا قادری صاحب اس کے جوابدہ
ہیں)اور تحریک انصاف پنجاب محمود الرشیدان کے ساتھ کھڑے تھے۔ طاہر القادی
کا عمران خان کو ڈی چو ک میں اکیلے چھوڑ جانا اور پھول و خو شبو کی جوڑی سے
تشبہہ دینے سے پروین شاکر کا شعر یاد آیا ۔
وہ تو خوشبو ہے ہواوئں میں بکھر جائے گا
مسلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
طاہر القادری کے دھرنا ختم کرنے کے بعد ان کی جماعت کے رہنماؤں کو میڈیا پر
کڑے سوالوں کا سامنا ہے ۔ان سے حکومت کے خلاف طاہر القادری کے انتہائی سخت
بیانات کے مطلق پوچھا جاتا ہے تو بڑی ڈھٹائی سے جواب دیتے ہیں کہ ’’ حضرت
علامہ محترم جناب قبلہ مولانا ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے وہ تمام بیانات
تو ’’علامتی‘‘ تھے‘‘۔اسی طرح جیسے الیکشن کی تقاریر میں ایک مخالف دوسرے
مخالف کو ہر طرح کے الزامات کی مالا پہناتاہے، اسی طرح جیسے شہباز شریف نے
آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹا تھا۔اسی طرح جیسے عمران خان الطاف بھائی
پر لندن کی عدالت میں مقدمہ درج کرانے کی بات کرتے رہے اور جب کراچی جلسہ
کرنے کا وقت آتا ہے تو اپنے ہر ٹی وی انٹرویو میں الطاف بھائی کے خلاف ایک
بھی لفظ اس لئے نہیں کہہ پاتے ،کہیں ایم کیو ایم والے ان کا جلسہ خراب نہ
کر دیں۔سیاستدانوں کی اس منافقانہ سیاسی مفاہمت سے ان کی ذات کو تو فائدہ
ہوتا ہے لیکن پاکستان ا ٓزادی کے بعد جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا نظر آتا ہے
۔حکمران جماعت کے علاوہ تمام بڑی پارٹیاں ملک بھر میں جلسوں کے الاؤجلارہی
ہیں اورجو بچ گئی ہیں وہ جلسوں کی اس آگ میں کودنے کا سوچ رہی ہیں ۔کراچی
میں پیپلز پارٹی نے جلسہ کیا۔بلاول بھٹو زرداری سے ایک طویل تقریر کرا کے
بھٹو خاندان کے وارث کے طور پر اس کی سیاسی تاج پوشی کی گئی۔ بلاول نے جلسے
میں تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا،الطاف
بھائی کو کہا کہ ’اپنے نامعلوم افراد‘ کو کنٹرول کرو ورنہ میں لندن میں
تمہاراجینا حرام کر دوں گا۔ایم کیو ایم پہلے ہی اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ کے
بیان پر سیخ پاء تھی اس پر بلاول کی تقریر نے جلتی پے تیل کا کام کیا۔
الطاف بھائی پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ بلاول بمبینو سینما کا
وارث تو ہو سکتا ہے بھٹو کا نہیں،ایم کیو ایم نے سندھ حکومت چھوڑ دی
اوراپوزیشن میں بیٹھتے ہوئے الگ صوبہ بنانے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ ایم کیو
ایم جب حکومت چھوڑتی ہے تو کسی طاقتورجماعت کے ساتھ وفاداری اوردوستی کی
راہیں ہموار کرتی ہے۔تحریک انصاف کے کراچی میں کامیاب جلسوں کے پیچھے ایم
کیو ایم کی اسی دوستی اور وفاداری کی واضح جھلک نمایاں ہے۔جماعت اسلامی کا
مارشل لاء کے خطرے کے ٹل جانے کے باوجود مڈٹرم الیکشن کا ہوتے دیکھنا، ملک
میں اس سیاسی گراوٹ کی ذمہ دارنواز حکومت اور اس کی غلط پالیسیوں کا تسلسل
ہے ۔جب آپ اقتدار کے ہاتھی پر سوار ہو کر اپنے سیاسی حر یفوں کوچیونٹیاں
سمجھا جائے اور ان کو جمہوریت کے نام پر ڈھیل ملتی رہے تو یہ چیونٹیاں آپ
کے شاہانہ اقتدار کی موت بن جائیں گی، اور آپ کے خلاف 23 سال پرانے نااہلی
کے مقدمے کی درخواستوں سے گرد بھی جھاڑی جائے گی ۔ان فائلوں کی گرد آپ کے
اقتدار کی آنکھوں سے روشی بھی چھین سکتی ہے۔
ملتان کے حلقہ این اے149 کی نشست پر ضمنی انتخابات میں حکومتی جماعت کی
منافقت یا نااہلی کھل کر سامنے آئی۔ اس انتخابات میں آزاد امیدوار عامر
ڈوگرنے52321 ووٹ کیساتھ انتخابی معرکہ جیت لیا۔جبکہ جاوید ہاشمی38398 ووٹ
لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔عامر ڈوگر کی جیت کے بعد رحمان ملک کا ایک بیان
سامنے آیا کہ عامر ڈوگر پیپلز پارٹی کے ووٹوں سے جیتے، حالانکہ پیپلز پارٹی
کے نامزد امیدوار جاوید صدیقی پارٹی نشان کے ساتھ الیکشن لڑے اور صرف 6326
ووٹ لے کراپنی ضمانت ضبط کرا بیٹھے ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ عامر ڈوگر کے
(انتخابی نشان) خرگوش کے ہاتھ میں تحریک انصاف کا بلا تھا ،جبکہ جاوید
ہاشمی کی (انتخابی نشان)بالٹی میں سے مسلم لیگ نون کا شیر جھانک رہا تھا۔گو
کہ مسلم لیگ نون کے مقامی شیر نے کافی ہاتھ پیر مارے پر رائے ونڈ کے شیروں
کی جوڑی نے گھر سے نکلنے کی ذہمت ہی گواہ نہ کی۔ ورنہ ہو سکتا ہے اس ضمنی
الیکشن کا رزلٹ مختلف ہوتا۔ عمران خان نے ملتان میں کامیاب جلسہ کیا جس کا
اثر ضمنی الیکشن ہوا۔ اسی طرح اگر مسلم لیگ نون نے جاوید ہاشمی کا ساتھ
دینا ہی تھا تو کھل کر میدان میں آتے،ان کے حق میں جلسہ کرتے ۔تمام سیاسی
جماعتوں نے جمہوریت بچانے کے لئے گلے پھاڑ پھاڑ کر عمران خان اور طاہر
القادری کے خلاف پارلیمان سر پر اٹھائے رکھا،لیکن جب جاوید ہاشمی کے ضمنی
الیکشن میں جمہوریت بچانے کا عملی طور پر وقت آیا تو سب سے زیادہ شور مچانے
والی پیپلزپارٹی نے اپنا امیدوار جاوید ہاشمی کے مقابلے میں کھڑا کر دیا
،مسلم لیگ نون نے تو اس طرح جاوید ہاشمی کی حمایت کی جیسے وہ ان سے مسلم
لیگ نون چھوڑنے کا بدلہ لے رہے ہوں۔دوسری طرف2013کے الیکشن کو دھاندلی زدہ
کہنے والے اور اس سے قائم ہونے والی جمہوری حکومت کو جعلی کہنے والوں کو
ملتان کے ضمنی الیکشن میں کوئی برائی نظرنہ آئی۔جیت کے نشے میں انہیں پورے
حلقے کے3لاکھ45 ہزار889 رجسٹرڈ ووٹرز کے286 پولنگ اسٹیشنوں میں امن اور
شانتی ہی دکھائی دی ۔ تمام پولنگ اسٹیشنوں پر سکیورٹی کا انتظام بھی فو ل
پروف ہو گا،سیاسی کارکن بھی سارا دن آمنے سامنے نہیں آئے ہوں گے، لیسٹوں
میں ووٹرز کے ناموں کے اندراج نہ ہونے پر بھی احتجاج نہیں ہوا ہو گا،تمام
ووٹرز کے انگو ٹھوں پر سیاہی بھی میگنیٹک ہی لگائی گئی ہو گی،دونوں بڑئے
امیدوارں کی طرف سے نہ تو کسی نے گو نواز گو اور رو عمران رو کے نعرے سنے
ہوں گے۔ ملتان کے ضمنی الیکشن میں ایسا لگا جیسے تینوں بڑی سیاسی جماعتوں
نے جاوید ہاشمی کو جمہوریت بچانے اور مارشل لاء کا راستہ روکنے کی سزا دی
ہو ۔
پارلیمنٹ میں بیٹھی سیاسی جماعتیں اگر دھرنوں کو جمہوریت کے لیے خطرہ
سمجھتیں تھیں تو انہیں چاہیے تھا کہ ملتان کے ضمنی انتخابات میں یک جاں ہو
کر عمران و قادری اور ان کے پیچھے ’’نادیدہ‘‘ ہاتھوں کا مقابلہ کرتے ،
افسوس حکمران جماعت نے اپنی حکومت کو وقتی طور پر بچانے کے لیے پارلیمان
میں تو سب کو متحد کر لیا ۔ لیکن سیاسی بصیرت سے محروم سیاستدانوں نے جاوید
ہاشمی جیسے جمہوریت کے علمبردار کے دونوں ہاتھ کاٹ دئے ۔ وزیر اعظم میاں
نواز شریف کی ’’ مفاہمتی سیاست‘‘ خود ان کی بھی سمجھ سے بالا تر ہے ۔ ایک
طرف وہ حکومت میں آتے ہی اپنی فوج سے پنجہ آزمائی شروع کر دیتے ہیں اور
دوسری طرف،ایم کیو ایم کے دو رہنماو قومی اسمبلی کے باہر میاں برادران کی
عزت کی دھجیاں اڑادیتے ہیں اور وہ ایک مذمتی بیان تک نہیں دیتے۔جبکہ پنجاب
کے مسلم لیگی آج بھی ایم کیو ایم کے وسیم اختر کاوہ بیان یاد کر کے سیخ پاء
ہو جاتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پنجاب کے گھر گھر میں مجرا ہوتا
ہے۔ اسی سیاسی نااہلی نے عمران خان اور طاہرالقادری کو حکومت وقت کے سر پر
چڑھ کر سیاسی رقص کرنے کا موقع دیا۔یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو جیسا
لڑکاوزیراعظم کو بھیگی بلی کہتا ہے۔ انہیں سیاسی عقل لینے کی بات کرتا
ہے۔کمزور سیاسی ذہن رکھنے والوں کے ساتھ اس سے بتر ہونا چاہیے۔3بار پاکستان
کا وزیر اعظم بننے والے کو تو کوئی یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ تھوڑی سی سیاست
سیکھ لو۔
سیاسی جماعت کا دوسری پارٹی پر تنقید ، دھرنے ، جلسے اور جلوس ہر پارٹی کا
جمہوری حق ہے ، لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ان سیاسی دھرنوں، تنقید اور جلسوں
سے ملک میں سیاسی پختگی آنے کے بجائے تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کی
جنگ لڑتی نظر رآتی ہیں۔ اسی سیاسی پختگی اور سیاسی بالغ نظری کے فقدان کے
باعث عالمی سطح پر پاکستان کا ایسا تاثرپیدا ہو چکا ہے جہاں حکومت نام کی
کوئی چیز نہیں ، جہاں کرپشن عروج پر ہے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا
قانون رائج ہے جہاں جوپارٹی چاہے جمہوریت کی آڑ میں کسی کی بھی حکومت گرا
سکتی ہے جہاں نہ قانون ہے نہ انصاف۔پاکستان بڑی قربانیوں سے حاصل کیا گیا
ہے ۔ اب بھی وقت ہے ملک کی تمام سیاسی قیادت کو حالات کی سنگینی کا احساس
کرنا چاہیے ۔ انا اور ضد سے اپنے ہی ہاتھوں سیاسی بحران کی پھیلتی ہوئی اس
آگ کو پیار خلوص اور ایثار کے پانی سے بجھانا ہو گا ۔ورنہ کہیں ایسا نہ ہو
کہ دیر ہو جائے اور سیاست کے یہ بڑے بڑے نمرود اپنی سلطنت کے غرور میں اپنی
ہی لگائی ہوئی آگ میں جل جائیں اور انہیں توبہ کا وقت بھی نہ ملے۔ |