1833 کو سویڈن میں پیدا
ہونے والا الفرڈ نوبیل نے مرتے مرتے ایک عجیب فیصلہ کیا جس سے اس کے خاندان
والے خفا جبکہ باقی دُنیا والے خُوشی سے جھوم رہے تھے۔ الفرڈ نوبیل نے اپنی
ذندگی کی اخری خواہش 27 نومبر 1875 کو پیرس میں سویڈش- ناروے کلب کیساتھ اس
شرط پر سائن کیا کہ اس کو میرے موت کے بعد کھولا جائیگا۔ نوبیل کے وصیت
نامے کو جب کھولا گیا تو سب حیران رہ گئے، اُنہوں نے اپنی دولت کا ایک بڑا
حصہــ’’ انعامات‘‘ کے لیئے مُختص کر رکھا تھا جس پر ان کے فیملی نے بہت
اعتراض اور مخالفت کی لیکن اسکے باوجود پہلا ایوارڈ 1901 کو، الفرڈ کے مرنے
کے پانچ سال بعد دیا گیا۔الفرڈ نے وصیت کیا تھا کہ میرے دولت کو بینک اور
شیئرز میں رکھا جائے جبکہ اس سے انے والے منافع کو دُنیا کیلئے خدمات انجام
دینے والوں کو ’’انعام‘‘ کی شکل میں دے دیا جائے۔
1901 سے اکتوبر 2014 تک جتنے نوبیل پرائز دیئے گئے ہیں سب کو دُنیا میں خاص
مقام حاصل تھا اور دُنیا کیلئے ان کے خدمات چھپے نہیں تھے لیکن اکتوبر 2014
کو ایک پرائز دو بندوں یعنی پاکستان سے ملالہ یوسف ذئی اور انڈیا سے کیلاش
ستیارتی کو دیا گیا۔یہاں ایک عجیب کنفیوژن پیدا ہوتی ہے کہ اخر ملالہ کی وہ
کونسے ’’خدمات‘‘ ہے جس سے وہ دُنیا کی 278 لوگوں میں اول ائی، اس پر نوبیل
پرائز تنظیم نے لکھا ہے کہ ملالہ کئی سال سے بچوں کی تعلیم اور حقوق کیلئے
سخت حالات میں لڑتی رہی۔ان کی اس ہیروپن کی وجہ سے ملالہ کو Right for
Education کاSpoke person بنایا گیا جبکہ انہیں انعام دینے کی وجہ عورتوں
کو تعلیم کی ادائیگی اور بچوں کی Exploitation کے خلاف کام کرنے پر دیا گیا
ہے،دراصل ملالہ نے صرف اور صرف بی بی سی کو بلاگ لکھا ہے اور اس میں سوات
کے حالات پر بحث کیا ہے، اس میں ’’خدمات‘‘ سرے سے شامل نہیں۔
لگتا ہے ڈرامے باذوں کومستقبل میں بڑے خدمات کی ضرورت ہے۔ملالہ کے مقابلہ
میں انڈیا سے کیلاش ستیارتی کی کارکردگی اور ایوارڈز کی کی کہانی1993 سے
شروع ہو تی ہے،پیشے سے وہ الیکٹریکل انجینئر ہے، آل انڈیا میں اسکی پہچان
بچوں کی حقوق اور ان کے تعلیم کے طور پر کی جاتی ہے۔1993 سے اب تک اُنہوں
نے 13 بڑے ایوارڈز حاصل کئے۔ذندگی میں بچوں کی حقوق کے کیئے بہت محنت کی،
دو بڑے تنظیموں سے وابسطہ رہے، پہلا بچپن بچاؤ مشن اور دوسرا چائلڈ لیبر کے
خلاف گلوبل مارچ۔دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو ملالہ 12 جولائی 1997 کو پیدا
ہوئی اور صرف رپورٹ کرنے سے ہیروئن بن گئی!
اس حقیقت کو ساری دُنیا مانتی ہے کہ یہ سراسر غلط فیصلہ ہے،کیسے پوری دُنیا
کے ٹیلنٹڈ 278 ممبرز جس میں 47 بڑے بڑے نامور ادارے بھی شامل تھے، ایک
چھوٹی بچی کو اتنی بڑے انعام سے نوازا گیا۔ پہلے دفعہ ملالہ کو انٹرنیشنل
چیلڈرن فیس کیلئے نامزد کیا گیا اور بعد میں انعامات کی بارش شروع ہوگئی
لگتا ہے پرائز دینا بھی کاروبار بن گیا ہے، چاہو تو کسی کو ذیرو سے ہیرو
بنادو۔
اس سارے بحث کا مطلب یہ ہے کہ نوبیل انعام والے ادارے کو کم از کم الفرڈ کے
روح کا خیال رکھنا چاہے تھا وہ بیچارہ کتنا تکلیف میں ہوگا یہ جان کر کہ
میرے دولت کو اپنی مفادات کیلئے تقسیم کیا جاتا ہے۔اگر بلاگ لکھنا بہت بڑا
کارنامہ ہے تو پھر کالم نویس ہر دن اور ہر پل انعامات کے حقدار ہیں۔ |