بسم اﷲ الرحمن الرحیم
27اکتوبر مظلوم کشمیری مسلمانوں کواس دن کی یاد دلاتا ہے کہ جب بھارتی فوج
نے سری نگر کے چھوٹے سے ایئر پورٹ پر اترنا شروع کیا اور پھرتمامتر بین
الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے طاقت و قوت کے بل بوتے پر سرزمین
کشمیر پر قبضہ کر کے ایک پرامن آزاد قوم کو غلامی کی زنجیروں میں دھکیل دیا
گیا۔اس دن کے بعد سے آج تک کشمیری عوام آٹھ لاکھ بھارتی فوج کے ظلم و
بربریت کا شکار ہیں۔ ان کی عزتیں، جانیں اور املاک کچھ محفوظ نہیں ہے۔ آئے
دن نہتے کشمیریوں پر مظالم کی نئی داستانیں رقم کی جارہی ہیں۔ 67برس گزر
چکے مگرغاصب بھارتی فوج کے ظلم و دہشت گردی میں ذرہ بھر کمی نہیں آئی۔
بھارت سرکار کی جانب سے اس کی فوج کی آمد کو اگرچہ مہاراجہ ہری سنگھ کی
درخواست کے ساتھ جوڑا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وہ آئینی طور پر
ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے بے دخل ہوچکے تھے ۔ لوگوں نے اس کے خلاف بغاوت
کر رکھی تھی اور دوسرا یہ کہ ایک فردِ واحد کو کسی طرح بھی یہ حق نہیں
پہنچتا تھا کہ وہ لاکھوں کشمیریوں کی تقدیر کا فیصلہ ان کی رائے جاننے کے
بغیر ازخودکرتا اور ان کے حقِ خودارادیت کو کالعدم کرتا۔اس لئے بھارت کے اس
فوجی قبضہ کا کوئی آئینی اور اخلاقی جواز نہیں تھا۔27اکتوبر 1947میں کئے
جانے والے بھارتی فوجی قبضہ کے نتیجہ میں پانچ لاکھ سے زائد کشمیری
شہید،ہزاروں خواتین بیوہ اور لاکھوں افراد زخمی و معذور ہو چکے ہیں ۔
بھارتی فوج کشمیر داخل نہ ہوتی تواس خونی لکیر کا کوئی وجودنہ ہوتا، سرحدوں
پر آئے دن فائرنگ، جھڑپیں اور نہتے عوام کی شہادتیں ہوتیں اور نہ ہی اس
پورے خطہ کے لوگ مسلسل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوتے۔بھارت خود کو دنیا
کی سب سے بڑی جمہوریت قراردیتا ہے مگر کشمیریوں کیلئے وہ ایک ایسے جارح ملک
کی حیثیت رکھتا ہے جس نے فوجی قوت کے بل بوتے پر کشمیریوں کے حقوق سلب کر
رکھے ہیں اور انہیں آزادی سے جینے کا حق نہیں دیا جارہا۔ یہ ایک تاریخی
حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کے وقت اس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ مسلم اکثریتی
علاقے پاکستان کا حصہ بنیں گے۔ اس طرح کشمیر جس کی واضح اکثریت مسلمانوں کی
تھی ‘ اسے پاکستان میں شامل ہوتا تھا مگر بھارت نے انگریز کی ملی بھگت سے
اس پر فوجی قبضہ کیا بعد ازاں جب قائداعظم کے کہنے پر جنرل گریسی نے بھارتی
فو ج کا غاصبانہ قبضہ ختم کیلئے پاکستانی فوج بھیجنے سے انکار کیاتو مولانا
فضل الہٰی وزیر آبادی کی قیادت میں پاکستان کے قبائل اور دیگر علاقوں سے
تعلق رکھنے والے مجاہدین کی بڑی تعداد نے کشمیرکار خ کرنا شروع کیا۔ اپنے
مظلوم بھائیوں کی مدد کیلئے وہاں پہنچے ، قربانیوں و شہادتوں کی نئی تاریخ
رقم کی گئی اور وہ سری نگر تک پہنچ چکے تھے کہ نہرو بھاگا ہوا اس مسئلہ کو
اقوام متحدہ لے گیا اور دہائیاں دیں کہ کسی طرح ان مجاہدین کو روکا جائے
وگرنہ ان کے بڑھتے ہوئے قدوں کو روکنا مشکل ہو گا اور یہ کشمیر کے بعد
بھارت کیلئے سخت خطرات کا باعث بن سکتے ہیں۔ یوں اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل نے 21اپریل1948میں کشمیر کے حوالے سے ایک تاریخی قرارداد منظور کی جس
میں کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا اورواضح طور پر کہا گیا
کہ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے گا۔ وہ اپنی مرضی سے فیصلہ
کریں گے کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ رہنا ہے یا بھارت کے ساتھ۔یوں یہ
قرارداد پاس کر کے کشمیری و پاکستانی قوم سمیت پوری دنیا کو دھوکہ دیا گیا
اورپھر لیاقت علی خاں کے کہنے پر مجاہدین کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے جس پر
نہرو نے خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے یہ معاہدہ کر کے
بھارت کو بچالیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اس وقت کی حکومت سازشوں اور دباؤ
کا شکار نہ ہوتی تو آزاد کشمیر کی طرح مقبوضہ کشمیربھی جسے پاکستان کی شہ
رگ کی حیثیت حاصل ہے آج ہندو بنئے کی غلامی سے آزاد ہوتا۔بہرحال بھارت
سرکار نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا ۔ دن بدن
کشمیر پر اپنے فوجی قبضہ کو مستحکم کیا اور پھر سرے سے کشمیریوں کو ان کا
حق خودارادیت دینے سے انکار کرکے اسے اپنا اٹوٹ انگ قراردینا شروع کر
دیا۔اس دوران آٹھ لاکھ بھارتی فوج نے کشمیریوں کا جذبہ حریت دبانے کیلئے ہر
حربہ اختیار کیا لیکن وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا اور ہر
آنے والے دن نہتے کشمیریوں میں بھارت سرکار کے خلاف نفرت بھرے جذبات میں
مزید اضافہ ہوا ہے۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بھارت خود اس مسئلہ کو اقوام
متحدہ میں لیکر گیا مگر وہ مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یو این کی
قراردادوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر چانکیائی سیاست کا مظاہرہ کر
رہا ہے اور کسی طور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مخلص نہیں ہے۔ بھارت اپنی آٹھ
لاکھ فوج کے ذریعہ کشمیر کوہر صورت اپنے قبضہ میں رکھنا چاہتا ہے۔ وہ
مقبوضہ کشمیر سے بہنے والے دریاؤں پر جنگی بنیادوں پر غیر قانونی ڈیم تعمیر
کر رہا ہے تاکہ جب چاہے پاکستان کو خشک سالی اور جب چاہے سیلاب کی صورتحال
سے دوچار کر دے۔ اسے معلوم ہے کہ کشمیر قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان
کے مطابق پاکستان کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے وہ ہر صورت اسے وطن
عزیز سے کاٹ کر رکھنا چاہتا ہے ۔ بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت
قرار دیتا ہے لیکن محض مسلمان ہونے کی بنا پر بھارتی و کشمیری مسلمانوں کا
جس طرح بے دردی سے خون بہایا جارہا ہے وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب بن چکا ہے۔
کشمیر میں آنے والے حالیہ سیلاب کے دوران بھی بھارتی فوج اور حکومت کا
بہیمانہ کردار ایک بار پھر کھل کر دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا ہے۔ بھارتی
فوج نے ان دنوں کنٹرول لائن پر فائرنگ اور جھڑپوں کے ذریعہ دہشت گردی کا
ایک نیا بازار گرم کر رکھا ہے۔ وہ فائرنگ اور گولہ باری بھی خود کر رہا ہے
اور پروپیگنڈا پاکستان کے خلاف کیاجارہا ہے اس سے ہندوبنئے کی ذہنیت کا
بخوبی اندازہ لگایا سکتا ہے۔ آج 27اکتوبر کو دنیا بھر میں کشمیری بھارت کے
غاصبانہ قبضہ کے خلاف یوم سیاہ منارہے ہیں۔ آزاد و مقبوضہ کشمیر سمیت پوری
دنیا میں تقریبات کا انعقاد کیاجائے گااور بھارتی دہشت گردانہ کردار کو بین
الاقوامی دنیا کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ یہ دن جس طرح کشمیر پر بھارت کے
غاصبانہ قبضہ کی یاد دلاتا ہے اسی طرح اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کا
دوہرا معیار بھی ظاہر کرتا ہے۔ مشرقی تیمور اور سوڈان کا مسئلہ ہو تو اقوام
متحدہ جیسے ادارے فوری حرکت میں آجاتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر جس کے حوالہ سے
اقوام متحدہ کی درجنوں قراردادیں موجود ہیں ان پر عمل درآمد کروانے کیلئے
کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی۔ اگر اسکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم کروایا جاسکتا
ہے تو مقبوضہ کشمیر میں کیوں نہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان
مظلوم کشمیریوں کی دل کھول کر مدد کرے ۔ دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو
متحرک کیاجائے اور آزاد کشمیر کی طرح مقبوضہ کشمیر کو بھی بھارتی قبضہ سے
نجات دلانے کیلئے قربانیوں و شہادتوں کا راستہ اختیار کیاجائے۔ تنازعہ
کشمیر حل کئے بغیر کسی صورت خطہ میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔ |