مقبوضہ کشمیر پر بھارتی ناجائز
تسلط کے67سال ہونے پر خصوصی ایڈیشن کے لئے تحریر
27اکتوبر وہ سیاہ ترین دن ہے جس دن بھارت نے کشمیریوں سے حق آزادی چھین لیا
اور رات کے اندھیرے میں آکر کشمیر پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔مقبوضہ کشمیر
پر بھارتی ناجائز تسلط کے67سال مکمل ہو رہے ہیں۔ہر سال کنٹرول لائن کے
دونوں اطراف اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری 27اکتوبر کو صرف اس لئے یوم سیاہ
مناتے ہیں کہ اقوام متحدہ و عالمی برادری کی طرف توجہ مبذول کروائیں کہ وہ
جموں کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کو مسترد کرتے ہیں۔27اکتوبر 1947
کو بھارتی فوجیں سرینگر میں داخل ہوئیں اور برصغیر کی تقسیم کے منصوبے اور
کشمیریوں کی خواہشات کے برعکس جموں کشمیر پر زبردستی قبضہ کیا گیا۔ ریاست
جموں کشمیر کبھی بھارت کا حصہ تھی ہی نہیں ، جب 1947میں بر صغیر کی تقسیم
کے نتیجہ بھارت اور پا کستان دو آ زاد ملک بر صغیر کے نقشہ پر ابھر ی، اس
وقت بھارت نے فوج کشی کر کے کشمیر پر اپنا جا برانہ تسلط قائم کیا ۔ بھارت
اپنی ملٹری مائیٹ کے ذریعے سے کشمیر پر قابض ہے اور اس ریاست کی متنازعہ
حیثیت اتنی بڑی حقیقت ہے کہ کوئی بھی ذی ہوش شخص اس سے انکار نہیں کرسکتا
ہی۔ کشمیر کے آزادی پسند عوام اپنے پیدائشی اور بنیادی حق، حقِ خودارادیت
کے لیے ایک جائز جدوجہد کررہے ہیں اور وہ بھارتی حکمرانوں کی دھمکیوں سے ڈر
کر اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوسکتے ہیں۔آزادی کشمیر کے لئے نہ صرف کشمیری
قوم کی بیش بہا قربانیاں ہی شامل ہیں، بلکہ اس کی پشت پر اقوامِ متحدہ کی
18قراردادیں اور بھارتی حکمرانوں کے وہ وعدے اور معاہدے بھی ہیں، جو انہوں
نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کے ساتھ کئے ہیں۔ کشمیر میں آج
ہر محلے ،ہر نکڑ پر بھارت کی فوج ہے اور کشمیری قوم ظلم و جبر کی انتہا میں
بھی تحریک آزادی کی جد و جہد میں سرگراں ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتوں نے یہ
تسلیم کیا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ کشمیری قوم
کی جد و جہد حق پر مبنی ہے۔کشمیریوں نے ہندوستا ن کے قبضے کو ایک دن کے لیے
تسلیم کیا ہے نہ کریں گے،نواز شریف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ا قوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کو خطاب کیا وہ خوش آئند ہے مگر سفارتی حکمت عملی
واضع کرنے کی اشد ضرورت ہے،ہندوستان کی8لا کھ فوج نے ظلم وجبر کے تمام
ہتکھنڈے آزمائے مگر کشمیریوں کے دل و دماغ سے آزادی کی تمنا اور آرزو کو
ختم نہ کر سکی، اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کشمیرپر قراردادوں پر
عمل درآمدکروانے میں ناکام رہی ہے،جنوبی سوڈان اورمشرقی تیمور جو عیسائی
اکثریتی علاقے تھے جن کی وجہ سے اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل متحرک
ہو گئی اور ان کو علیحدہ کر دیا گیا جب کہ کشمیر اور فلسطین پر بھی
قراردادیں سلامتی کونسل میں موجود تھیں مگر ان پر آج تک عمل درآمد نہ ہو
سکا جو امریکہ اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی دو عملی کا واضح ثبوت ہے۔
پاکستان فریق ہونے کی حیثیت سے کشمیر کی آزادی کے لیے اپنا کردار ادا کرے
پاکستان کی قومی اور سیاسی جماعتیں اہل دانش اس کو اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے
کردار ادا کریں ہندوستان حکومت پاکستان کی طرف سے یکطرفہ دوستی کا جواب
لاشوں اور گولہ باری سے دے رہا ہے اس خطرے کے پیش نظر ہندوستان کے عزائم کو
ناکام بنانے کے لیے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیریوں نے آزادی کے لیے
لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا ہے اور مکمل آزادی تک قربانیوں کا سلسلہ
جاری رہے گا۔کشمیری قوم نے کبھی بھارت کی اس جبری غلامی اور فوجی تسلط کو
قبول نہیں کیا بلکہ پچھلے67برسوں سے ایک منظم مزاحمتی تحریک چلائی جسے
کچلنے کے لئے بھارتی سامراج نے فوجی قوت کا بے تحاشا استعمال کیا اور جس کے
نتیجے میں آج تک 5 لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں، لاکھوں لوگ زخمی،
ہزاروں خواتین بیوہ اور لاکھوں بچے یتیم ہوچکے ہیں اور ہزاروں عفت مآب
خواتین کی عصمت کو داغدار بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ خونین اور افسوسناک
سرکاری دہشت گردی کا کھیل ہنوز جاری ہے لیکن یہ قربانیوں کا ثمرہ ہے کہ
باطل قوتیں اب پسپائی کے راستوں پر گا مزن ہوچکی ہیں اور حق پرست اور آزادی
پسند قوتیں کا میابی سے آگے بڑھتی جارہی ہیں۔ بھارت گزشتہ 67سال سے جبر و
تشدد کے زور پر ریاستی عوام کو یر غمال بنانے اور عالمی اداروں کی آنکھوں
میں دھول جونکنے کے عمل میں مصروف ہے، انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور
اقوام عالم کو جنوبی ایشیا ء میں مستقل قیام امن کے لئے مسئلہ کشمیر کو
ترجیح بنیادوں پر حل کرانے میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے اور
مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لینا چاہیے
بھارتی فوج لائن آف کنٹرول پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں مصروف
ہے ،انسانی حقوق کے علمبردار نہتے کشمیری عوام پر مظالم کے خلاف آواز
اٹھائیں ، بھارت گزشتہ 67سالوں سے کشمیری عوام کو مختلف حیلوں اور بہانوں
سے دبانے کی کوشش کرتا چلا آرہا ہے۔اور اس نے ریاست کے اندر عوامی خواہشات
کے بر عکس جو کٹھ پتلی حکومت قائم کر رکھی ہے اب وہی اسمبلی بھی بھارت کے
بے پناہ مظالم اور انسانیت سوز سرگرمیوں کے خلاف سراپا احتجاج بنتی جا رہی
ہے۔ اور یہ صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ بھارت بھرپور ریاستی جبر و تشدد
استعمال کرنے کے باوجود تحریک آزادی کشمیر کو نہیں دبا سکتا۔ الحاق پاکستان
صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ کشمیریوں کے ایمان کا حصہ ہے پاکستان کشمیریوں کی
امیدوں کا مرکز ہے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاکستانی عوام کی قربانیوں کو
نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،اقوام عالم مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی
کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ کشمیر کی ساری
قومی قیادت مسئلہ کشمیر کے پر امن اور باوقار حل کے لئے یک زبان ہے۔ لائن
آف کنٹرول کی سنگین خلاف ورزیوں پر بھارت کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں
مقدمہ قائم کیا جانا چاہیے،عالمی طاقتیں مسئلہ کشمیر پر جانبدارانہ کردار
کو تبدیل کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی
کا ساتھ دیں،کشمیر کوئی علاقائی تنازعہ نہیں بلکہ برصغیر جنوبی ایشیا میں
قیام امن کی واحد ضمانت ہے ،عالمی دنیا نے اس سلسلے میں اپنا کردار ادانہ
کیا تو جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ کا خطرہ بدستور موجود رہیگا۔ 27اکتوبر
ایک سیاہ ترین دن ہے جس دن بھارت نے اندھرے میں آکر یہاں فوجی قبضہ کیا اور
اب اسی طرح اندھیرے میں ہی بھارت کو یہاں سے نکلنا ہوگا۔بھاررت مقبوضہ
کشمیر میں الیکشن کراکے دنیا کو گمراہ کر رہا ہے اور یہاں کی مزاحمتی قیادت
کو جیلوں میں بند کرتی ہے ،اگر قیادت کو الیکشن میں لوگوں کے پاس جانے کا
موقعہ دیا جائے تو پھر بھارت دیکھے گا کہ کشمیری قوم کیا چاہتی ہے۔ کشمیری
قوم گذشتہ0 60برسوں سے غلام ہے اور غلامی کی انتہا اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب
مسئلہ کشمیر ایک آتش فشاں بن چکا ہے۔کشمیری قوم نے تحریک آزادی کیلئے اپنا
بچپن دیا ،جوانی میں قربانیاں دیں اور اب بڑھاپا دینے کیلئے بھی تیار
ہیں۔ایک طرف بھارت کا جبر ہے اور دوسری طرف بین الاقوامی برادری کا اپنا
مفاد ہے۔ کشمیری قوم نے جد و جہد آزادی کی جو تحریک شروع کی ہے وہ جاری رہے
گی اور اپنے منطقی انجام تک پہنچے گی۔پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے
خارجہ امور سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب
سے ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر
کرنے کی مہم شروع کرے گا۔ جنگی جنون میں مبتلا بھارتی فوج کی جانب سے جنگ
بندی کے معاہدے کی خلاف ورزیوں کے حالیہ واقعات سے متعلق سینیٹ میں بیان
دیتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ یہ خلاف ورزیاں موجودہ بھارتی حکمران
جماعت کے اس منشور کی عکاسی کرتی ہیں جس کا اعلان اس نے انتخابی مہم کے
دوران کیا تھا۔ بھارت نے رواں سال لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر جنگ
بندی کی 224 خلاف ورزیاں کیں جن کی شدت گزشتہ خلاف ورزیوں کے مقابلے میں
کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی
کوشش کی لیکن اس حوالے سے بھارت کی جانب سے کبھی کوئی مثبت ردعمل سامنے
نہیں آیا۔ مقبوضہ کشمیر میں 7 لاکھ بھارتی فوجی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں
کے ذمہ دار ہیں اور پاکستان ان خلاف ورزیوں کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر
کرنے کی مہم شروع کرے گا۔ایک ایسے موقع پر جب بھارتی ناجائز تسلط کو67سال
ہو رہے ہیں اور بھارت کی ظلم و زیادتیاں نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی جا
رہی ہیں بلکہ کنٹرول لائن پر جارحیت بھی کر رہا ہے۔حکومت پاکستان کی طرف سے
کشمیری مسلمانوں کو ایک مثبت پیغام ملا ہے جس سے تحریک آزادی میں مزید تیز
ی آئے گی اور جلد وہ دن آنے والا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے
بعد بھارت بھی کشمیر میں نہیں ٹھہر سکے گا۔ |