دینِ اسلام کی ایک اہم ذمہ داری انسانوں کو حیاتِ طیّبہ
فراہم کرنا ہے۔ حیاتِ طیّبہ سے مراد ایسی زندگی ہے جس میں دنیا و آخرت
دونوں کی بھلائی ہو۔ اسلامی نظریہ حیات کے مطابق انسان اس وقت تک دنیا اور
آخرت کی بھلائی کو نہیں پاسکتا جب تک وہ الٰہی قوانین کی پابندی نہ کرے۔
دینِ اسلام اپنے پیروکاروں سے صرف یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ الٰہی قوانین
کی پابندی کریں بلکہ یہ دین اپنے ماننے والوں کو دیگر انسانوں کی بھلائی کا
بھی مسئول اور ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ اس مسئولیت اور ذمہ داری کا ایک سلسلہ
غارِ حرا سے غارِ ثور تک اور دوسرا لیلۃ المبیت سے شامِ غریباں تک پھیلا
ہوا ہے۔
یہ بعثت کا چودہواں سال تھا کہ جب پیغمبر نے اپنی مقدس زندگی کو نادانوں سے
بچانے کے لئے مکے کے جنوب میں واقع "غارِ ثور" میں پناہ لی۔ [1] آپ تین دن
تک غارِ ثور میں محّبوس رہے اور یہ تین دن عالم بشریت کی تقدیر سنوارنے میں
ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر آج بھی قافلہ بشریت کو غارِ ثور کے
افق سے دیکھا جائے اور لیلۃ المبیت [2] میں بسترِ موت پر سونے والے جوان سے
مدینے میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست کا مقصد پوچھا جائے تو جواب "انسانی
زندگی کو حیات طیّبہ سے ہمکنار کرنے کے سوا کچھ اور نہیں ملے گا۔" کتب
تواریخ کے مطابق تین دن کے قیام کے بعد چار ربیع الاوّل کو پیغمبرِ اسلام
نے غارِ ثور کو یثرب جانے کی نیّت سے ترک کیا [3] اور ۱۲ربیع الاوّل کو
رسولِ اعظم محلّہ قُبا میں وارد ہوئے۔[4] آپ نے چند روز یہیں پر امام علی�
کے آنے کا انتظار کیا اور اسی مدّتِ انتظار میں آپ نے یہاں ایک مسجد تعمیر
کروائی جسے مسجدِ قبا اور اسلام کی پہلی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ [5]
امام علی رضی اللہ کے پہنچنے کے بعد پیغمبر نے بنی نجار کے ایک گروہ کے
ہمراہ یثرب کی طرف اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اسی سفر میں پیغمبرِ اسلام نے
قبیلہ بنی سالم بن عوف کے ہاں پہلی نمازِ جمعہ بھی برگزار کی۔ [6]
جب پیغمبر یثرب میں داخل ہوئے تو اہلِ یثرب میں سے ہر کسی کی یہی خواہش تھی
کہ رسولِ گرامی اسے ہی شرفِ میزبانی بخشیں۔ رسولِ خدا نے فرمایا کہ جہاں
میرا اونٹ بیٹھے گا میں بھی وہیں قیام کروں گا۔ کچھ دیر بعد پیغمبرِ اسلام
کا اونٹ محلّہ بنی نجار میں حضرت ابو ایّوب انصاری کے گھر کے نزدیک دو
یتیموں کی زمین پر بیٹھ گیا۔ پیغمبر نے حضرت ابو ایّوب انصاری رضی اللہ کے
ہاں قیام فرمایا اور اونٹ کے بیٹھنے کی جگہ پر بعد ازاں مسجدِ نبوی تعمیر
کی گئی۔ [7]
یہیں سے عالمِ بشریّت کی حیاتِ طیّبہ کی خاطر پہلی اسلامی ریاست کی بنیادیں
پڑنا شروع ہوگئیں اور یثرب رفتہ رفتہ مدینۃ النّبی بن گیا۔ پھر اسی مدینۃ
النبی میں اصحابِ صفّہ کی تربیت ہوئی، مختلف اقوام و ادیان کے ساتھ معاہدے
ہوئے، مہاجرین و انصار کے درمیان رشتہ اخوّت قائم ہوا، مسلمانوں کا قبلہ
تبدیل ہوا، پہلی اسلامی فوج تشکیل پائی، مولودِ کعبہ� کا عقد دخترِ پیغمبر
سے ہوا، حسنین کریمین� کی ولادت ہوئی، معجزاتِ نبوی کا چرچا ہوا، عالمی
دعوتِ اسلامی کا آغاز ہوا اور لشکرِ اسامہ تشکیل دیا گیا۔۔۔ اسی مدینے سے
پیغمبر اسلام نے فتح مکّہ کے لئے قدم اٹھایا، نجران کے مسیحیوں کے ساتھ
مباہلے کے لئے تشریف لے گئے اور اسی مدینے میں ۲۳ سالہ تبلیغ کے بعد رسولِ
اکرم نے رحلت فرمائی اور اسی مدینے میں دفن ہوئے۔۔۔
مدینے کی یہ ریاست جو انسانوں کی دنیا و آخرت کی بھلائی اور حیاتِ طیّبہ کے
لئے قائم کی گئی تھی، رسولِ گرامی کے بعد مرحلہ وار اس قدر تبدیل ہوگئی کہ
۶۱ ھجری میں مدینۃ النبی سے فرزندِ نبی "حسین ابن علی�" کو تنہائی کے عالم
میں کوچ کرنا پڑا۔ جب حسین ابن علی رضی اللہ تعالی نے مدینے سے کوچ کیا تو
اس وقت مدینے میں محدثین و مفسّرین سمیت اصحاب رسول کی ایک بڑی جماعت موجود
تھی، منبروں سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جا رہا
تھا، ہر طرف قال اللہ تعالٰی اور قال النبی کی صدائیں گونج رہی تھیں،
عبادات بجا لائی جاتی تھیں، اذانیں دی جا رہی تھی اور نمازیں پڑھی جا رہی
تھیں لیکن حسین � اس مدینے سے نکل رہے تھے۔
ایسے میں اگر امام حسین رضی اللہ کو عالم بشریّت کی حیاتِ طیّبہ کے بجائے
اپنے ذاتی مفادات عزیز ہوتے اور آپ کے پیشِ نظر صرف اور صرف اپنے کام
نکلوانے ہوتے تو آپ بھی کرپٹ حکومت کے مظالم پر چپ سادھ لیتے۔ اوباش
حکمرانوں کو بے نقاب کرنے کے بجائے کُلی طور پر منبر سے امربالمعروف اور
نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے رہتے، قرآن و سنّت کی روشنی میں مقالات
لکھتے، وعظ فرماتے، درس دیتے اور اوّل وقت میں نمازیں پڑھتے۔۔۔ لیکن آپ نے
اذانوں سے گونجتے ہوئے مدینے کو ترک کر دیا، مسجد النّبی کی نمازوں کو چھوڑ
دیا، باندھے ہوئے احرام کھول کر حج جیسی عظیم عبادت کو وداع کہہ دیا اور
فاسق کو فاسق کہنے کے لئے میدان عمل میں اتر آئے۔ یوں درحقیقت فسق و فجور
کے خلاف یہی میدانِ عمل میں اترنا ہی آپ کی تنہائی کا باعث بنا۔
آج کی موجودہ صدی میں ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کو بھی مدینے کی مانند ایک
اسلامی ریاست کے طور پر حاصل کیا گیا تھا۔ ۶۱ ھجری کے مدینے کی مانند آج کا
پاکستان بھی قال اللہ تعالٰی اور قال النّبی کی صداوں سے گونج رہا ہے، قرآن
و سنت کی روشنی میں مقالات لکھے جا رہے ہیں، دینی رسائل و جرائد کی تعداد
میں اضافہ ہو رہا ہے، مسجدوں سے اذانیں ہو رہی ہیں اور منبروں سے
امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جا رہا ہے لیکن عملی طور
پر ہر طرف فسق و فجور اور کرپشن کا بازار گرم ہے۔
کوئی شیخ الاسلام کسی رشوت خور کو بے نقاب کرنے پر تیار نہیں، کوئی فخرِ
ملت کسی کرپٹ بیوروکریٹ سے ٹکرانے کے لئے آمادہ نہیں، کوئی شہنشاہِ اقلیم
سخن کسی سرکاری کارندے کے خلاف زبان کھولنے پر راضی نہیں۔ زبان بندی کا یہ
عالم ہے کہ اندرون ملک تو جو ہو رہا ہے سو ہو رہا ہے لیکن اب تفتان بارڈر
پر ملیشیا کی وردی میں ملبوس اہلکار بھی مسافروں سے چائے پانی کا مطالبہ
کرتے ہیں اور کسی میں دم نہیں کہ وہ ان اہلکاروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کر بات کرے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بلند و بالا دعووں، اونچے اونچے نعروں، بھاری
بھر کم اور بھدّے مقالات کو ایک طرف رکھ کر میدان عمل میں اتریں، اگر ہم
اور کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنے عہد کے یزیدوں کی بیعت تو نہ کریں۔۔۔
سرکاری لٹیروں کو رشوت دینا، ان کی خوشامد کرنا اور ان کے جرائم پر خاموش
رہنا یہ سب یزیدانِ عصر کی بیعت ہی تو ہے۔ اگر ہم حسین ابن علی رضی اللہ
تعالی کے پیروکار ہیں تو پھر ہمیں حسین ابن علی رضی اللہ تعالی کا یہ جملہ
ہر حال میں یاد رکھنا چاہیے۔۔۔
مثلی لایبایع مثلہ۔۔۔مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا
آیئے پاکستان کے عملی میدان میں دیکھئے۔۔۔ کل کے اسلامی مدینے کی طرح آج کے
اسلامی پاکستان میں بھی حسین ابن علی رضی اللہ تعالی تنہا ہیں۔
--------------------------------------------------------------------------------
[1]استفادہ :ابن کثیر،البدایۃ والنھایۃ،ج۳ ص ۱۶۹
[2]۔ہجرت کی شب جس میں امام علی� بستر رسول پر سوئے
[3]استفادہ:۔محمد بن سعد،الطبقات الکبریٰ،ج۱،ص ۲۳۲
[4]استفادہ:مجلسی،بحارالانوار،ج۱۹،ص۸۷
[5]استفادہ:ابن شہر آشوب،مناقبِ آلِ ابی طالب،ج ۱،ص۱۸۳
[6]استفادہ: تاریخ یعقوبی،ج ۲،ص۳۴
[7]بیھقی،دلائل النّبوّۃ،ترجمہ محمود مہدوی دامغانی،ج۲،ص۱۸۷ |