محرم اور ہم ؟؟

فرقہ وارانہ مستقل امن کیلئے سنجیدگی ضروری ہے او یہی ملک بھر میں قیام امن کیلئے مسئلے کا واحد حل قرار دیا ۔ کسی ذاتی مفاہمت کے نام پراجتماعی مفادات کو ترجیح نہ جائے تو پاکستان میں امن کے قیام کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ جرائم پیشہ عناصر کے پاس جدید اسلحے کی فروانی کا سدباب غیر قانونی تارکیں وطن کی بیدخلی ، پولیس و قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے مورال کو بلند کرنے کیلئے انھیں جدید اسلحہ اور سیاسی آلودگی سے پاک کرنے ، بلا امتیاز رنگ و نسل آپریشن کے لئے مانیٹرنگ کمیٹی کا قیام ،تاکہ کسی بھی سیاسی جماعت یا تنظیم کو آپریشن پر کوئی اعتراض نہ ہو ، اس کیلئے ضروری یہی ہے کہ مساجد کی سطح تک انتظامی اداروں کے تعاون کے ساتھ ہر سیاسی ، مذہبی اور سماجی تنظیم کے ایماندار نمائندوں پر مشتمل اور میڈیا کی سرپرستی میں ایک کمیٹی بنا دی جائے جو غیر قانونی آنے والے غیر ملکی تارکین وطن کے علاوہ ، جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھ سکیں اور قانون ہاتھ میں ازخود لینے کے بجائے کمیٹیاں انتظامی اداروں کی مدد حاصل کرسکے، سپریم کورٹ کی روشنی میں غیر قانونی اسلحے کو ختم کرنے کیلئے غیر جانبدارانہ شفاف طریقہ اختیار کرکے عدلیہ کی نگرانی میں چھاپوں کا سلسلہ یقینی بنایا جائے ، کیونکہ یہی دیکھا گیا ہے کہ ہزاروں بے گناہ افراد آپریشن کی آڑ میں اٹھائے جاتے ہیں ، یا تو انھیں رشوت لیکر چھوڑا جاتا ہے یا پھر جعلی مقابلے میں ہلاک کردیا جاتا ہے ۔ ناقص تفتیشی نظام کی وجہ سے گناہ گار بچ جاتا ہے ، عدلیہ کی نگرانی میں چھاپوں سے ایک توقانونی تقاضا پورا ہوگا ۔گھر و چادر و چاردیواری کا تقدیس بلا وجہ پامامل نہیں ہوگا اور ملی بھگت کرکے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان ، ناقص تفتیش کا سہارا لیکر ضمانتیں لیکر عدالتوں میں اپنے مقدمات میں شواہد ختم کرانے کیلئے ، اثر رسوخ استعمال نہیں کرسکیں گے ، سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو جیل کے اندر ہی ٹرائیل کرکے گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور حکومت کی جانب سے احکامات کے باجود خصوصی عدالتوں کیلئے پہلے ہی سے مصروف جج صاحبان کے بجائے ایسے منصفوں کو تعینات کیا جائے جو صرف انسداد دہشت گردی کے مقدمات کی پیروی کرسکیں ۔اس کیلئے ویڈیو لنک کو یقینی بنا کر جج صاحبان کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے ۔جیلوں کے اندر خصوصی مقدمات ہی نہیں بلکہ دیگر جرائم میں ملوث ملزمان کے مقدمات کے لئے نئی جیلوں میں عدالتیں بھی قائم کیں جائیں جس میں صرف وکلا ء اور مقدمات سے متعلق افراد ہی داخل ہوسکیں ۔دیکھا یہی گیا ہے کہ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ایسے از خود قائم کردہ سیاسی ،یا سماجی تنظیموں کے نام پر دفاتر قائم کئے گئے ہیں جو گلی گلی اور محلوں میں عوامی فیصلے کرتے ہیں اور اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتے ہیں اگر ایک طرف شدت پسندوں کیجانب سے قائم کردہ عدالتوں میں سزاؤں و فیصلوں پر قابل واقعی اعتراض کیا جاتا ہے تو دوسری جانب یہی طریقہ نام بدل کر کالعدم جما عتیں اور عوامی مسائل کے نام پر کچھ سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی محلے در محلے کر رہی ہیں ، اس پر قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔ محرم الحرام کے حوالے سے قیام امن کیلئے اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں اعزا داروں اور دیگر مسالک کے درمیان اتفاق و یک جہتی پیداکرنے کیلئے محلے کی سطح پر قائم کمیٹیوں کو متحرک کیا جائے ، روایتی جلسے جلوسوں میں کسی بھی مسلک کو نہ روکا جائے اور نہ ہی ان کے اکابرین کی مرضی کے بغیر روایتی روٹس تبدیل کئے جائیں۔کچھ عرصہ قبل سیاسی جماعتوں کے جھنڈے ہر سرکاری ادارے و املاک سے باہمی رضا مندی سے ہٹا دئیے گئے تھے لیکن اس پانچ نکاتی معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ۔ ہمیشہ یہی ہوتا آرہا ہے کہ کسی بھی سانحے کے بعد ہی اجتماعی مارچ کرائے جاتے ہی اور عوام کے خوف کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ سانحے سے قبل ہی اتحاد بین المسلمین کے مظاہرے کے طور مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہی نہیں بلکہ رہنما بھی فلیگ مارچ میں عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کیلئے جہاں ایک طرف بلا امتیاز رنگ و نسل ہر حساس علاقے میں جائیں وہاں اگر ممکن ہوسکے تو اجتماعی نماز بھی ادا کرکے عوام میں امت واحدہ کا تصور بھی فراہم کریں کہ مسالک کے اختلافات کامعاملہ ایسا نہیں ہے کہ کسی مسلک پر کفرکا فتوی لگا کر مسجد ،مزارات اور مذہبی مقامات و جلوسوں کو نقصان پہنچایا جائے یا دہشت گردوں کو اختلافات کا فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا جائے۔ہر سال انتظامیہ میٹنگ ضرور کرتی ہیں لیکن اس پر عمل درآمد کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ اور مسلسل ربط کی کمی کا سامنا رہتا ہے اس سلسلے کو مستقل یامعینہ معیاد تک بحال رکھنا چاہیے ۔مانٹرنگ کمیٹوں کے قیام کے بغیر آپریشن پر اٹھنے والے سوالات کے جوابات دینا مشکل ہو جائیں گے۔ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اگر ابنیا کرام علیہ اسلام اور صحابہ رضوان اﷲ اجمعین و اہل بیت کے تقدس کیخلاف کوئی بد بخت دشنامی طرازی کرتا ہے تو اس کیخلاف بلا امتیاز کاروائی کی جائے ، اسلام میں کسی عام فرد کی توہین کی اجازت نہیں ہے ۔ تو بھلا اشتعال انگیزی کیلئے نا عاقبت اندیش و سوچی سمجھی سازش کے تحت ضابطہ اخلاق کو یقینی بنانے کیلئے قانون میں دئیے گئے حدود کا بھرپور استعمال کیا جائے ۔اسلامی مہینے ہمیشہ قربانی سے شروع ہوتے ہیں اور قربانی سے شروع ہوتے ہیں ۔ غیر مسلم قوتیں ہمیشہ مسالک اور فرقوں کے درمیان کچھ اختلافات کا فائدہ اٹھا کر مستقل بد امنی کا سبب بنتی ہیں ، اس لئے حکومت جب کسی سیاسی رہنما یا پھر کسی بھی شہر یا علاقے میں ہنگامہ آرائی کے دوران ہلاک ہونے والوں کیلئے تعطیل کا اعلان کردیتی ہے تو حکومت کو لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کی اکثریتی مسلک کے مطالبات ، جو امت مسلمہ کی خواہش بھی ہے اس کے احترام میں حضرت عمر فاروق و عثمان و علی و حسنین رضوان اﷲ اجمعین کے ایام کو بھی سرکاری طور تعطیل کا اعلان کرکے ایک مثبت پیغام دینا چاہیے کہ حکومت کے نزدیک تمام صحابہ اکرام رضوان اﷲ اجمعین و اہل بیت قابل احترام ہیں ۔ محرم الحرام میں ایک ہفتے تک کاروبار معطل رہتا ہے ، جلسوں اور اعزا داروں کی حفاظت کیلئے کاروباری مراکز سمیت اہم راستے سیل کردئیے جاتے ہیں ، دھرنوں اور جلسے جلسوں کیلئے خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں اگر امن کے قیام میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہے تو جہاں مختلف ایسے علما پر صوبہ بدری اور صوبے میں آمد پر پابندیاں عائد کردیں جاتی ہیں ۔ اسی طرح پیش ماتقدم کے طور پر حکومت ایسے اقدمات ضرور کرسکتی ہے جس سے مذہبی انتشار و اختلاف میں کمی واقع ہو۔سیکولر جماعتیں کہلانے والی جماعتیں گو کہ کسی بھی فرد کی مذہبی عقائد سے مبرا ہوتی ہیں لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ یہی سیکولر جماعتیں ان مذہبی فرقہ وارانہ جلسے جلسوں میں آگے آگے ہوتی ہیں اور جب قانون نافز کرنے والے ادارے ان سے شناخت طلب کرتے ہیں یا پھر ان کے ساتھ مسلح فوج ظفر کو ساتھ لے جانے پر اجازت دینے سے انکار کرتے ہیں تو پھر انکا استحقاق مجروح ہوجاتا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ ہسپتالوں کے راستوں ،اور حساس مساجد اور گزر گاہوں کی خصوصی حفاظت کا انتظام کرے کیونکہ ماضی میں ایسے واقعات ہوچکے ہیں کہ بظاہر سوئپنگ کے باوجود شدت پسندوں کو اپنی کاروائی کرنیکا موقع مل جاتا ہے۔ علما و ذاکرین کے مشوروں سے اجتماعات میں اشتعال انگیزی تقاریر ، مذہبی جذبات کے برخلاف بیانات اور لاؤڈ اسپیکر پر ماسوائے اذان کے مکمل پابندی عائد کرنے کیلئے ان سے مدد و معاونت و مشورہ لیا جائے تو مناسب ہوگا ۔اس سلسلے میں حکومت مذہبی وابستگی رکھنے والے ممالک کے جید علما اکرام سے رابطہ کرکے انھیں مخصوص ایام میں اتحاد بین المسلمین کے مظاہرے کے لئے خصوصی سمیناروں کا انعقاد کرکے عوام میں اس کی تشہر کرے تو مستقبل میں سانحہ پنڈی جیسے واقعات کا سدباب ہوسکے گا۔ عشرہ فاروق رضی اﷲ تعالی عنہ و حسین رضی اﷲ تعالی عنہ منانے کا سرکاری اہتمام و اعلان مذہبی فرقہ وارانہ سازشوں کے خاتمے میں ممدو معاون ثابت ہوگا۔یہ سب کچھ نا ممکن نہیں ہے کہ اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکے ، کوئی مسلمان، مومن جب کسی غیر مسلم کی مذہبی روایات میں شرکت کرنے کے علاوہ ان کی مذہبی مقامات کی حفاظت کرسکتا ہے تو کراچی کے حساس علاقے کو اور ملک بھر مثبت اقدامات پر کسی مذہبی تنظیم کے مطالبے سے قبل ہی حکومت از خود ایسے اقدامات کردے تاکہ کسی دوسرے مسلک کو بلا جواز اعتراض کا راستہ ختم ہوجائے ۔ حل یہی ہے باقی ارباب اختیار کی مرضی ہے کہ سانحات سے بچنے کیلئے بیحسی وطیرہ ہے یا سنجیدگی۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744900 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.