1988ء میں انسان نے سمندر کے تہہ میں ہی ابدی زندگی کا
وجود رکھنے والے ایک جاندار کو دریافت کر لیا جیسے جیلی فش کہتے ہیں۔یہ
دریافت بیسویں صدی میں ایک عیسائی جرمن سمندری حیاتیات کے طالب علم نے
نادانستہ طور پر تلاش کی. جیلی فش کی کچھ ایسی اقسام ہیں جن بیالوجی کی حد
تک لافانی ہونے کی تصدیق جا چکی ہے، جو کہ زخمی حالت یا مرنے سے قبل اپنے
خلیات کو پہلے کی حالت میں لانے کے قابل بنا کے خود کو دوبارہ زندہ کر لیتی
ہے. اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ یہ چار سے پانج ملی میٹر کا جاندار ممکنہ طور
پر لامحدود زندگی رکھتا ہے.اس جاندار کا سائنسی نام ٹیوریٹوپسس
نیٹریکیولاہے اور یہ پہلی بار 1883ء میں بحیرہ روم کے سمندر میں دریافت کئے
گئے تھے، لیکن ان کی دوبارہ سے جنم لینے کی انوکھی خوبی 1990ء کے وسط صدی
تک کسی کو علم نہیں تھا۔ تحقیق کے مطابق زندگی کو سائیکل کرنے میں
ہائیڈرزون کا انحصار چھوٹے فقاری کی موجودہ عمر پر منحصر ہے چاہے وہ جیلی
فش کا دوبارہ سے جوان ہونا ہو یا نرم مرجان کا دوبارہ تروتازہ ہونا. سائنس
دانوں نے سمندر کی تہوں میں ہائیڈروزون کی تلاش میں پلینکٹن جال سے چھان
مارا اور حیاتیات کی نئی سینکڑوں چھوٹے نسبتاً گمنام جاندار ڈھونڈ نکالے جو
کہ اب بیالوجی میں جیلی فش اور ڈوھری کے نام سے جانے جاتے ہیں.ان حیاتیاتی
نمونوں کا مشاہدہ کرنے پر ایک حیران کن بات پتہ چلی کہ جیلی فش مرتی نہیں۔
تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اگر ایک ٹیوریٹوپسس ( جیلی فش ) کسی حادثے کا شکار
ہو جائے یا بھوک سے کمزور ہو جائے تو یہ سمندری ریت میں خود کو لپیٹ لیتا
ہے اور ایک بلاب کی شکل میں خود کو ڈھال لیتا ہے، اس کے بعد یہ ایک تعامل
کرتا ہے جسے سائنسی زبان میں سیلز انڈر گو ٹرانسڈیفرینیشن کا نام دیا گیا
ہے جس میں خلیات کی ایک اقسام بنیادی طور پر خلیات کی دوسری اقسام میں
تبدیل ہو جاتی ہیں. اعضاء کے خلیات مادہ منویہ یا انڈوں میں تبدیل ہو جاتے
ہیں یا پھر اعصابی خلیے اعضاء کے خلیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیںکسی بھی
جاندار میں اس طرح سے خلیات کی تبدیلی کا بلاشبہ یہ ایک بیمثال طریقہ
ہے.‘‘انواع کی اصل’’ سے اقتباس جو 1996ء میں شائع ہوئی۔ جاپان، سپین اور
بحر اوقیانوس میں پانامہ کی طرف جیلی فش کی دریافت کے سے پتہ چلا ہے کہ
جینیاتی طور پر تمام جیلی فش اپنے اصل مسکن جیسی ہی ہیں. محققین نے تحقیق
سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پانی میں فوجی مشقوں سے کئے گئے دھماکوں سے،
کارگو جہاز میں لگے پانی کے پمپس میں پانی کے کھنچاؤ سے لگنے والی ضرب سے
زخمی ہوتی ہیں.جیلی فش ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنے کی خوبی بھی رکھتی ہیں
مثال کے طور پہ معتدل علاقوں میں رہنے والی جیلی فش میں 24 ٹینٹاکلز یا اس
سے کچھ زیادہ ہیں اور گہرے پانیوں میں رہنے والی جیلی فش میں 8 ٹینٹاکلز
ہیں.لیکن جیلی فش مناسب حالات نہ ہونے کی بنا پر شکار بھی ہو سکتی ہیں اور
شکار یا بیمار ہوتی بھی ہیں اور مر بھی جاتی ہیں. جدید تحقیق بتاتی ہے جس
طرح ‘‘بریڈ پٹ’’ کی ایک فلم میں جیلی فش کا کردار خود کو بڑھاپے سے واپس
بچہ بنا لیتا ہے اور امر ہو جاتا ہے لیکن اصل زندگی میں جیلی فش اس کردار
سے دو ہاتھ آگے ہے کیونکہ وہ یہی عمر کو بڑھاپے سے جوانی اور جوانی سے
بڑھاپے کے عمل ایک بار نہیں بلکہ بار بار لگاتار تبدیل کرتا ہی رہتا
ہے.سائنسدانوں نے جیلی فش کو دنیا کا واحد معلوم امر رہنے والا جاندار قرار
دیا ہے. اسی طرح انسانی عمر میں اضافے، بیماری یا دوسرے خلیاتی مسائل کے حل
کے لئے جیلی فش پر تحقیقی مطالعہ جاری ہے۔ |