گجرات کا ایک انمول ہیرا ۔۔۔ مرزا شوکت علی
(Prof. Dr. Mirza Barjees Baig , )
ڈاکٹر محمود الرحمن
یوں تو پاکستان کا چپہ چپہ تاریخی عظمت ‘ ماضی کے جاہ و جلال اورد ورِ رفتہ
کی ایک دلآویز تصویر ہے ‘ لیکن شہر گجرات اپنی منفرد خصوصیات کی بدولت
تاریخِ عالم کا ایک منور و درخشاں صفحہ ہے جس کی جلوہ ریزیاں آنکھوں کو
خیرہ اور دلوں کو متحیر کئے دیتی ہیں۔
گجرات اور اس کے نواحی علاقے جہاں زراعت ‘ صنعت و حرفت اور تجارت کے شعبوں
میں شہرت دوام کے حامل ہیں ‘ وہاں علم و فن کے میدان میں بھی اپنا ایک
انفرادی مقام رکھتے ہیں۔ اور اس انفرادی مقام کو ہمہ گیریت عطاکرنے والی
ایک ایسی بے لوث ‘ محنتی ‘ انسان دوست اور علم پرور شخصیت ہے جسے ہم بلا
شبہ چون و چرا غ ایک انمول ہیرا قرار دے سکتے ہیں۔ اور اس دُرِ بے بہا کا
نام نامی ہے مرزا شوکت علی!
لا ریب ‘یہ وہ شخصیت ہے جس نے چالیس کی ابتدائی دہائی میں جبکہ شباب کا
ولولہ انگیز زمانہ تھا ‘ اپنا تن من دھن تحریک پاکستان کے لئے وقف کر دیا
اور عین نوجوانی میں جذبۂ بے پایاں کے تحت برصغیر کے شہرۂ آفاق رہنما حضرت
قائداعظم محمد علی جناح کوسرینگر خط لکھا کہ وہ گجرات آئیں اور یہاں کے
رہنے والوں کو ولولہ انگیز تقریر سے سرفراز فرمائیں اور اپنے بے لوث سراپا
کے دیدار کا موقع عنایت کریں۔
نوجوان مرزا شوکت علی نے جس جذبۂ خلوص سے بانیٔ پاکستان‘ قائداعظم محمد علی
جناح کو خط لکھا تھا‘ اسے دنیا کی عظیم و جلیل شخصیت کی نگاہِ عمیق نے آن
واحد میں محسوس کر لیا اور پاکستان کے قدیم شہر گجرات آنے کا وعدہ فرما لیا۔
قائد اعظم کی تشریف آوری کی یہ نویدسولہ سالہ مرزا شوکت علی کے لئے مژدہ ٔجاں
فزا سے کم نہ تھا۔ انہوں نے وقت کے عظیم لیڈر ‘ شہرۂ آفاق مقرر اور نامور
قانون دان کے استقبال کے لئے اپنا اکلوتا سرمایہ ․․․․ یعنی سائیکل بیچ دی۔
اور اسی رقم سے سٹیج تیار کیا۔ سبز جھنڈیوں سے سارے پنڈال کو آراستہ کیا۔
مہمان، خصوصی کے لئے کرائے پر مرصع کرسی حاصل کی۔ سامعین کے لئے دریوں
کافرش بچھایا۔ اور مین گیٹ پر سبز ہلالی پرچم آویزاں کر دیا ۔۔۔۔ وہ پرچم
جو ۱۹۰۶ء میں سب سے پہلی مرتبہ آل انڈیا مسلم لیگ کے یوم تاسیس کے موقع پر
ڈھاکہ میں آویزاں کیا گیا تھا۔
جب قائداعظم کار سے اترے تو انہیں خیر مقدم کرنے کے لئے منحنی ‘ کمزور اور
چشمہ لگائے ہوئے نوجوان ․․․․․․․ یعنی ہمارے ممدوح مرزا شوکت علی آگے بڑھے۔
قائداعظم اس خیر مقدمی منظر سے بہت خوش ہوئے‘ اس لئے کہ انہیں بچوں ‘
نوجوانوں اور طالب علموں سے بے حد محبت اور حد درجہ پیار تھا۔ وہ تیزی سے
آگے بڑھے‘ ہاتھ اٹھا کر مرزا کو سلام کیا ۔سرپر دست شفقت رکھا اور پوچھا:
’’ تمہاری زندگی میں سب سے زیادہ اہم اور عزیز چیز کیا ہے؟‘‘
گجرات کے اس نوجوان نے دنیا کے عظیم سیاست داں اور شہرہ ٔآفاق قانون داں کو
نہایت عزم و حوصلے کے ساتھ یہ جواب دیا:
’’ایک تو پاکستان ‘ دوسرے علم کا حصول اور اس کی ترویج وترقی۔‘‘
اس جواب سے قائداعظم کی آنکھیں چمک اٹھیں‘ چہرے پر دلآویز مسکراہٹ چھا گئی
اور شفقت کا سمندر موجزن ہو گیا۔آپ نے سرزمین پنجاب کے ایک نوجوان و نوخیز
طالب علم سے فرمایا:
’’بیٹے ! میں ایک تو تمہیں ہر صورت میں بنا کر دے دوں گا۔ لیکن اس پاکستان
میں تعلیم کو فروغ تمہیں دینا ہوگا۔‘‘
قیام پاکستان سے تقریباً تین سال قبل ‘ قائداعظم نے مرزا شوکت علی سے
جووعدہ سرزمینِ گجرات پر کیا تھا‘ اس کی لاج پروردگارعالم نے رکھ لی اور
۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو نئی مملکت اسلامیہ عالم وجود میں آ گئی۔ نہ پوچھئے کہ اس
روز شوکت علی کو کتنی بے پایاں خوشی حاصل ہوئی تھی۔ وفورِ مسرت سے ان کی
آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے اور لب پر’’اللھم انی اشکرک ‘‘کے الفاظ جاری
تھے۔
۔۲۔حصولِ آزادی کے اس پُر مسرت موقع پر نوجوان کو بانیٔ پاکستان قائداعظم
محمدعلی جناح کا یہ جملہ رہ رہ کے یاد آ رہا تھا:
’’اس پاکستان میں تعلیم کو فروغ تمہیں دینا ہوگا۔‘‘
مرزا صاحب نے قائد سے کئے ہوئے وعدے کو وفا کرنے کا پختہ عزم کر لیا۔ بی‘
اے کا امتحان زمیندارڈگری کالج گجرات سے درجۂ اول میں پاس کیا۔ گھر کی
اقتصادی حالت کچھ ایسی تھی کہ مرزا شوکت علی کو حکومت میں آفیسر آبادکاری
کے طور پر ملازمت کرنا پڑی۔ لیکن․․․․ ضمیر انہیں مسلسل چونکا رہا
تھا․․․․․․․․․
’’کہاں گیا تمہارا وہ وعدہ جو قائداعظم کے ساتھ کیا تھا۔ انہوں نے اپنا
وعدہ پورا کر دکھایا اور تمہیں پاکستان بنا کر دے دیا۔ لیکن تم کہ ٹھاٹ باٹ
والی نوکری کرنے لگے۔ چہ خوب مرزا شوکت علی۔‘‘
ضمیر کی طرف سے یہ سرد جنگ مسلسل جاری رہی ۔ قلب کے اندر جوار بھاٹے موجزن
ہوتے رہے۔ اور ابھی پُر تعیش ملازمت کرتے ایک سال نہیں ہوا تھا کہ ایک دن
بیس سالہ شوکت علی نے متعدد سہولتوں سے پُر اپنی افسری کوتیاگ دیا اور
گجرات کے پبلک ہائی سکول نمبر۱ میں بہت ہی قلیل تنخواہ پر تدریس کاپیشہ
اختیار کر لیا۔ اب مرزا شوکت علی کو دلی سکون مل گیا تھا۔ ان کا ضمیرمطمئن
تھا۔ ان کی روح پاتال تک خرم و شادماں تھی۔ اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ
قائداعظم کی روح؛
’’بعد منزل نہ شود در سفر روحانی‘‘
کے مصداق اس سکول ٹیچر کو شاباش دے رہی تھی جو نئی مملکتِ پاکستان میں
تعلیم کو فروغ دینے کے لئے کمر بستہ ہو چکا تھا۔
متذکرہ بالا سکول میں مرزا جی نے اس عزم و حوصلے اور محنت و مشقت سے طالب
علموں کو پڑھایا کہ وہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو ہو کر مختلف
کالجوں؍یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے پہنچتے رہے اور بالآخر عملی
زندگی میں شریک ہو کر اپنے پیارے وطن پاکستان کی خدمت میں شب و روز مصروف
رہے۔ مرزا صاحب کی اعلیٰ کار کردگی کا اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ
آپ کو پبلک ہائی سکول نمبر۱ گجرات کا ہیڈماسٹر بنا دیا گیا۔ اس حیثیت سے
موصوف نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے وہ پورے علاقے میں قابل ستائش بن
گئے۔
مرزا صاحب نے محض گریجوئیشن کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا ‘ بلکہ ایم ‘ اے کی
امتیازی ڈگری بھی حاصل کی۔ نیز کئی بیرونی زبانوں پر عبور حاصل کیا ۔یہ
حقیقت ہے کہ انہوں نے تعلیم کے فروغ کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ بچوں کو
پڑھانا اور انہیں زیورتعلیم سے آراستہ کرنا ان کے نزدیک عبادت کے مترادف
تھا۔ اسکول میں چھٹی کے بعد ان کے گھر کا دروازہ کھلا رہتا ۔ طلبا ہر شام ‘
بعد مغرب آتے ․․․․․․ مگر ٹیوشن کے لئے نہیں! مرزا شوکت علی کے یہاں تو’’
ٹیوشن‘‘ کا تصور ہی نہیں تھا۔ وہ ایک شفیق باپ اور مہربان استاد کی حیثیت
سے گھر پر آنے والے ہر طالب علم کو اپنے بحرِ علم سے فیضیاب کرتے۔ یہی وجہ
ہے کہ پبلک سکول نمبر۱ گجرات کے لا تعداد طلباء نے پاکستان میں اہم اہم
پوزیشنیں سنبھالیں۔ دنیامیں مرزا صاحب کے شاگردوں نے بڑا نام پیدا کیااور
اپنے وطن عزیز کو نیک نام بنایا۔
مرزا شوکت علی مسلسل سینتیس(۳۷) سال تک درس و تدریس سے منسلک رہنے کے بعد
۱۹۸۷ء میں بہ حیثیت ہیڈماسٹر ریٹائر ہو گئے۔ یہاں بھی ان کا جذبۂ خدمتِ
نوجواناں برقرار رہا۔۔۔۔ یعنی سکول سے ملنے والی پروویڈنٹ فنڈ کی یکمشت رقم
کو قوم کی امانت سمجھا اور اس رقم سے اور کچھ خاندانی جائیداد کو فروخت کر
کے شوکت ماڈل سکول قائم کیا۔ اپنے وافر تجربے اور بائیٔ پاکستان سے کئے
ہوئے وعدے کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے موصوف نے اس سکول کو واقعتا ماڈل سکول
بنا دیا۔ یہاں بچوں کی تعلیم و تربیت کا اعلیٰ ترین انتظام ہے جس کا ہر کس
و ناکس معترف ہے۔ شوکت ماڈل سکول میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لئے علیحدہ
علیحدہ انتظامات کئے گئے۔
لیکن شوکت ماڈل سکول ان کی آخری منزل نہ تھی۔ موصوف نے اپنے لائق بیٹے
پروفیسر ڈاکٹر مرزا برجیس بیگ جو بیرون ملک اپنی خداداد صلاحیتوں اور والد
کی گراں قدر تربیت و تعلیم کی بدولت وطن کا نام روشن کر رہے ہیں اور دیگر
احباب کے تعاون کے نتیجے میں ایک قعۂ اراضی خرید لیا اور شوکت ایجوکیشنل
اکیڈمی قائم کی۔ اس ادارے کے تحت لڑکیوں کے دوہائی سکول‘ لڑکوں کا ایک ہائی
سکول اور ایک ہائر سکنڈری سکول قائم ہیں جو فروغ تعلیم میں ’’ نہ نفع نہ
نقصان‘‘ کی بنیاد پر مخلصانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔
۔۳۔شوکت ایجوکیشنل اکیڈمی ‘ پاکستان ہی نہیں ‘ دنیا کی واحد تنظیم ہے جہاں
۸۰ سالہ مگر جوانوں جیسے پُرجوش چیئرمین جناب مرزا شوکت علی کے شانہ بہ
شانہ ایک سو(۱۰۰) سے زیادہ اساتذہ سارا سال بچوں کوزیور تعلیم سے آراستہ و
پیراستہ کرنے کی گراں بہا قومی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سب سے بڑی اہم بات
یہ کہ شوکت ایجوکیشنل اکیڈمی میں کوئی چھٹی نہیں ہوتی۔ اس کی تمام تر وجہ
یہ ہے کہ خود مرزا صاحب قطعاً ان الفاظ سے ناآشنا ہیں: تعطیل ۔۔۔ آرام ۔۔۔
چھٹی وہ قائداعظم کے اس مقولے کے قائل ہیں ۔ کا م ۔کام اور صرف کام ! اور
یہ ہے بھی ضروری ! بھلا وہ شخص جوسولہ سال کی عمر میں بانیٔ پاکستان سے ’’
پاکستان‘‘ میں فرو غ ِتعلیم کا وعدہ صمیم قلب سے کرے ‘ وہ کس طرح آرام کر
سکتا ہے ‘ چھٹی لے سکتا ہے اور تعطیلات گزار سکتا ہے جبکہ اسے بخوبی معلوم
ہے کہ خود قائداعظم نے بیماری کے باوجود ‘ بڑھاپے کے باوجود‘ اضمحلال جسم
کے باوجود‘ نہ آرام کیا‘ نہ چھٹی کی اور نہ تعطیل سے بہرہ ور ہوئے۔ اس
گجراتی ماہرتعلیم کو یہ حقیقت بھی معلوم ہے کہ جب محمد علی جناح کی بہن
فاطمہ جناح نے بھائی کو آرام کا مشورہ دیا تھا تو انہوں نے برملا ان سے کہا
تھا:
’’کیا کوئی جرنیل میدانِ جنگ میں چھٹی کرتا ہے؟‘‘
اور یہ امر مسلمہ ہے کہ ’’محمد علی‘‘ کے مخلص اور بے لوث پیروکار’’ شوکت
علی‘‘ بھی میدان جنگ میں جہالت کے خلاف گذشتہ ساٹھ (۶۰) برسوں سے ایک
پُرجوش جرنیل ‘ کی طرح معرکہ آرائی میں مصروف ہیں:
جس دن سے چلا ہوں میری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں سے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
صورت حال یہ ہے کہ مرزا صاحب تقریباً سات ہزار (۷۰۰۰) طلباء و طالبات کو
جہالت ‘ نادانی اور لاعلمی کے اندھیروں سے نکال کر علم و فن کے دائرہ نور
میں لا رہے ہیں۔ یقینا قائداعظم کی روح اپنے اس بے لوث مخلص ‘ وفا دار
اور’’وعدہ ‘‘ کا پاس رکھنے والے پیروکار کی گراں قدر کارروائیوں کو دیکھ
دیکھ کر خوش ہو رہی ہوگی۔ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو پھر شہر گجرات کا سفر
کرتے‘ اسی (۸۰) سالہ شوکت علی اپنی اکلوتی سائیکل (جو آج ان کی واحد ملکیت
ہے اور جس پر سوار ہو کر بعد نماز فجر وہ اکیڈمی جایا کرتے ہیں) کو فروخت
کر کے’’ مہمان گرامی‘‘ کے شایان شان استقبالیہ کا انتظام کرتے اور قائداعظم
پنڈال میں پہنچتے ہی منحنی ‘ کمزور اور ناتواں بوڑھے کے سر پرایک ’’باپ‘‘
کی حیثیت سے دست شفقت رکھتے ہوئے کہتے:
’’ شوکت علی! آج میں بہت خوش ہوں تم نے میرے بنائے ہوئے پاکستان کو علم کی
روشنی سے منور کر دیا ہے۔
کاش میری قوم بھی میرے خوابوں کی تعبیر اس ’’پاکستان‘‘ کو اپنی بے لوث
خدمات سے اُجالادیتی۔ مگر افسوس․․․․․ ! ‘‘ |
|