لسانیت ، قومیت اور ذات پات سے
بالاتر ہوکر ہمیشہ اس بات کو مقدم سمجھا ہے کہ سب سے پہلے امت مسلمہ کے ایک
فرد ، پھر اﷲ تعالی کی جانب سے شناخت کیلئے ، نسل قوم اور رہنے کی وجہ سے
باحیثیت وطن کو ترجیح دوں ، لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں اس کا الٹ ہے
پہلے ذات ، نسل اور صوبائیت کو ترجیح دی جاتی ہے پھر اس کے بعد پاکستانیت
اور جب کچھ باقی نہ بچے تو ہم اسلام کے داعی بن کر خود سچا مومن مسلمان
ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کچھ ایسی صورتحال ہمارے اخبارات کی ہے جہاں کا
یہ رواج جا نکلا ہے کہ اگر سینکڑوں کالموں میں کچھ کالم پختون قوم کے حوالے
سے لکھ لئے جائیں تو اسے لسانیت کا رنگ دیکر قلم کی نوک کو توڑ دیا جاتا
ہے۔پاکستان کی بات کریں تو سبھی کا مجموعی طور پر جواب یکساں ہوگا کہ وہ
مظلوم اور نظر انداز کئے جانے والی اکائیاں ہیں، لیکن کبھی کسی نے اس بات
پر توجہ دی ہے کہ پاکستان میں پنجابی کے بعد دوسرے نمبر پر بولے جانے والی
علاقائی زبان کے افراد کو بھی مسائل کاسامنا رہتا ہے ، پختون اپنے سماجی
مسائل کے سبب جس قدر سختیاں برداشت کرتا ہے اس کا عشر و عشیر بھی کوئی
دوسری قوم برداشت نہیں کرسکتی ، قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ،
حکومتی عدم توجہ کے سبب وہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور وہیں جا
بستے ہیں جہاں ان کی کئی نسلیں بڑھتی ہیں اور مر کر ادھر ہی دفن ہو جاتے
ہیں۔قوم کے بچوں کا اپنے ہیروز کے بارے میں بھی لسانی تفریق کیساتھ برین
واش کیا جاتا ہے کہ ان کے ہیرو دراصل کون تھے۔ سر سید احمد خان نے جدید
تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے مسلمانوں میں ایک شعور پیدا کرنے کی کوشش کی
اور اسی نتیجے میں مقتدر ہستیاں پیدا ہوئیں جنھوں نے قیام پاکستان میں
اپنااہم کردار ادا کیا۔جب ان ہستیوں کے تذکرے میں یہ یاددہانی کرانے کیلئے
کوشش کی کہ پختون زعما ء بھی اس میں شانہ بہ شانہ تھے تو ان کا شجرہ نسب
طلب کئے جانے لگا ۔ باچا خان بابا نے ایک ایسی قوم میں تعلیم کا عظیم شعور
دیا اور جدید تعلیم کی بنیاد رکھ کر تعلیم کے زیور سے ایسے ایسے ہونہار
پیدا کئے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ اسی تعلیمی تحریک سے متاثر ہوکر
سیاسی سفر شروع کیا اور خوشحال خان خٹک کی طرح قوم میں غلامی سے آزادی کا
علم بلند کیا کہ پاکستان کی تاریخ میں غیر مسلح سرخ پوشوں کو نظر انداز
کردیا جاتا ہے۔ پختون جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف مسلح ہوکر لڑے ، ٹیپو
سلطان کا ذکر تو ہے لیکن بالاکوٹ کے پختون ہیروز کے بارے میں بے خبر رکھنے
کا کیا جواز ہے۔علامہ اقبال کا ذکر کیا جاتا ہے ، وہ پاکستانی نہیں تھے
بلکہ متحدہ ہندوستان کے شہری تھے ، بھارت بھی ان کو اپنا شاعر مانتا ہے اور
پاکستان بھی ۔۔رحمان بابا کو کیوں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔میرے ایک خیر
خواہ انور علی نے ہم سب سے ایک گلہ کیا کہ میرے استاد نے مجھے جھوٹی تاریخ
پڑھائی ، کیونکہ اِس کے استاد نے اُسے جھوٹی تاریخ پڑھائی تھی ، استاد نے
مجھے میسور کا حید ر علی اور ٹیپو سلطان پڑھایا لیکن پختون ہیرو عمرا خان
جندول کو مجھ سے چھپا لیا ، کیونکہ اس بچارے کو خود پتہ نہیں تھا کہ دیر کے
علاقے میں ٹیپو سلطان سے زیادہ زیرک اور بہادر پختون نے فرنگیوں کے خون سے
ملاکنڈ رنگ دیا تھا ، اسے تو لاہور میں لکھوائی جانے والی کتاب ہاتھوں میں
دی جو اس نے ہمیں پڑھائی اور یاد بھی کرائی، اسے کہا گیا تھا کہ مجھے سراج
الدولہ پڑھائے اور پشاور میں دفن وہ بہادر پختون فاتح میوند محمد ایوب خان
نہ پڑھائے جس نے میوند کے میدان میں فرنگیوں کی ہزاروں پر مشتمل لشکر کو
تہہتیغ کردیا ، کیونکہ محمد ایوب پختون تھا اس لئے استاد کو حکم تھا کہ
مجھے بابائے اردو عبدالحق پڑھائے لیکن بابائے پشتو خوشحال خان نہ پڑھائے ،
استاد نے مجھ سے جنگ آزادی کے عظیم ہیرو حاجی صاحب تر نگزئی کو چھپایا اور
دہلی اور لکھنو کے پہلوان پڑھائے ، مجھے جلیانوالہ باغ میں انگریزوں کا ظلم
پڑھایا گیا لیکن بابڑہ ، ٹکر اور قصہ خوانی کے بربریت کے قصے چھپا لئے ،
جالندھر کا حفیظ کو مجھ سے متعارف کرایا لیکن اکوڑہ خٹک کے اجمل خٹک سے
شناسائی نہیں کرائی ، الہ آباد کے اکبر الہ آبادی کو پڑھایا لیکن عمر زئی
چار سدہ کے عبدالاکبر خان اکبر کو پڑھنے نہیں دیا ، مرزا غالب پڑھائے
لیکنحمزہ خان شینواری ، سمندر خان سمندر ، ملنگ جان ، غنی خان نہ پڑھائے ،
لیکن میں اتنا گیا گذرا نہیں ہوں ۔ انور علی بھائی میں نے بھی اپنے بزرگوں
کو استاد کے بغیرپڑھا، میں اپنے استاد کی جھوٹی تاریخ پر یقین نہیں رکھتا
بلکہ سچی تاریخ کیلئے سچائی چھپانے کے باوجود جانتا رہوں گا ۔ہماری کتابوں
میں صرف اس بات کا تذکرہ ہے کہ پختون قوم ہے جو شمال مغربی سرحد میں رہتی
ہے لیکن ڈیورنڈ لائن کے مشرق میں پختونوں میں غالب سیاسی جذبات ، بٹوارے کے
خلاف ہونے کے اسباب کیا تھے ، صدیوں سے رہنے والوں کو انگریزوں نے اپنی
چالبازیوں کی وجہ سے مختلف حصوں میں تقسیم کردیا تو جب جنگ آزادی کی تحریک
میں ان کی یکجہتی کا معاملہ سامنے آیا تو انھیں ان کا حق دینے سے انکار
کردیا گیا اور انھیں پابند کردیا گیا کہ پاکستان کو تسلیم کرو یا ہندوستان
کو ۔پاکستان کو تسلیم کرنا ضروری تھا اس لئے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں
ووٹ ڈالے گئے ، اگر ان دو شرائط کے علاوہ تیسری شرط لکھی جاتی کہ پختون
آزاد رہنا چاہتے ہیں یا ڈیورنڈ لائن کے خاتمے کے بعد افغانستان کے وہ علاقے
واپس انھیں دے دئیے جائیں جو سو سالہ معائدے کے تحت لئے گئے تھے تو اس کا
آسان جواب اسی وقت انھیں مل جاتا کیونکہ مسلم لیگ کی حکومت اس صوبے میں نہ
ہونا ، اسی بات کا ثبوت تھا کہ اس صوبے کی عوام کی خواہشات کچھ اور تھیں ،
لیکن پاکستان میں شمولیت کے بعد انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش
نہیں کی گئی ، نیشنل سیکورٹی پالیسی کے تحت فاٹا ، پاٹا کے علاقے بنا دئیے
گئے ، پختونوں کو تقسیم در تقسیم کردیا گیا ، قبائلی نظام کے ہاتھوں پختون
ترقی کی وہ منازل طے نہیں کرسکے جو لاہور اور کراچی نے کی ۔پختونوں کو
ہمیشہ عالمی سازشوں کا حصہ بنایا گیا ،روس اور امریکہ کے خلاف جنگ ہو تو
پختون ہی ایندھن بنے ، طالبان کے خلاف امریکی ڈو مور پالیسی ہو تو پختون
نشانہ بنے۔آپریشن کا زور ہو تو پختون علاقے بنے ،تعلیمی اداروں کو دہماکوں
سے اڑائے جانے لگا تو نشانہ پختون علاقے بنے ، لاکھوں انسانوں نے نقل مکانی
کی تو وہ بھی پختون ہی بنے۔ہزاروں انسان کراچی میں بلاجواز ماردئیے جاتے
ہیں لیکن ایک ایسا آپریشن کراچی میں نہیں کیا جاسکا جیسا ، سوات ، ملاکنڈ
ڈویژن ، شمالی و جنوبی وزیرستان میں کیاگیا۔بلوچستان میں نفرتوں کا بیج
بویا گیا تو وہاں سے آواز اٹھی کہ پختونوں کیلئے ڈیڑھ لاکھ مربع میل پر
مشتمل الگ صوبہ درکار ہے۔سینکڑوں سال سیپختون برصغیر سمیت پوری دنیا میں
سفر کرتے ہیں اور اکثر ان ہی علاقوں میں ضم ہوجاتے ہیں اور اسی جگہ کی بود
باش اختیار کرلیتے ہیں۔بد قسمتی یہ ہے کہ اگر بم دہماکے ہوتے ہیں تو پختون
ہی نشانہ بنتے ہیں ، لسانی فسادات میں کچھ آبادیوں میں رہنے والوں کے گھر
جلا دئیے جاتے ہیں ، نسلی عصبیت ، پروفائیلنگ اور سیاسی انتقام کے نام پر
پختون سے بڑھ کر کوئی ستم نہیں سہتا۔کیا بلوچستان میں لاکھوں افراد نے کسی
آپریشن کے نتیجے میں اتنی نقل مکانی کی ہے جتنی پختونوں نے کی ، حالاں کہ
بلوچستان میں شناخت کرکے قتل کئے جاتے ہیں ۔کیا کراچی میں کسی آپریشن کے
نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں کسی لسانی اکائی نے نقل مکانی کی جتنی
پختونوں نے کی حالاں کہ کراچی پاکستان کا سب سے زیادہ متاثرہ شہر ہے۔پختون
نوجوان ان تمام حالات کا جائزہ لے رہے ہیں اور ان کی فطرت میں ایک وقت تک
کسی کا بھی ظلم برداشت کرنا ہوتا ہے ،کوئی سندھ تقسیم کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
ہم ہندوستان تقسیم کرسکتے ہیں تو سندھ کیا چیز ہے ۔اس بحث میں نہیں جاتے
لیکن سات سو سال سے زائد پختونوں نے پورے ہندوستان پر بلا شرکت غیرے حکومت
کی ہے ، روس کو شکست دیکر اس کا شیرازہ بکھیر دیا ، امریکی اور اس کے مغرب
کے نیٹو افواج کو شکست دیکر امریکہ کو دیوالیہ کرادیا ۔ اس پختون کیلئے کیا
مشکل ہے کہ جب دوبارہ میوند کی کوئی ملالہ اپنا ڈوپٹہ ڈنڈے پر باندھ کر
لہرادے کہ اٹھو میری قوم کے جوانوں ۔ تو کیا کوئی پختونوں کے سوالوں کا
جواب دے سکے گا۔ |