خاموشی میں شور

کہتے ہیں کہ خاموشی بہترین انتقام ہے اور دنیا کی ہر بڑی سے بڑی سزا سے زیادہ سخت ترین ہے۔بسااوقات کسی کو انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود چپ رہ کر کچھ نہ کہنا بھی وہ انقلابی تبدیلی کسی انسان میں لا سکتی ہے جو کہ آپ کسی کو سزا دے کر یا سمجھا کر بھی نہیں لا سکتے ہیں۔بقول میری ایک قاری آصفہ نورین کے کبھی کبھی خاموشی میں بھی بہت شور چھپا ہوتا ہے جو کہ محسوس کرنے والوں کو بخوبی سنائی دیتا ہے۔جولوگ اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں وہ اُن لوگوں کی بانسبت کم خطرناک ہوتے ہیں جو کہ خاموش طبع ہوتے ہیں اورحالات کا دھارا بدلنے پر وہ ایک طوفان کی مانند سب کچھ اُلٹ پلٹ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ہر بات کی کہا جاتا ہے کہ حد ہوتی ہے اسی طرح ایک عمل کی ،ظلم کی بھی حد ہوتی ہے اور جب بھی حد سے ذیادہ لوگ چپ رہتے ہیں تو انکی خاموشی میں چھپا شور اگر کوئی نہ سن رہا ہوتو پھر وقت آنے پر وہ ایک انقلاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔پاکستان کے موجودہ سیاسی ،معاشی حالات بھی نئی جمہوری حکومت کے آنے کے بعد سے مسلسل بدل رہے ہیں ۔عوام میں ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی وجہ انکو اپنے حقوق کی پامالی کا شدت سے احساس ہو رہا ہے۔قیام پاکستان سے اب تک انکی خاموشی میں چھپے شور کو کوئی بھی محلص سیاست دان نہیں سنا پایا ہے اگر سنا بھی ہے تو اس کو کسی خاطر میں نہیں لاسکے ہیں۔اب جس طرح سے موجودہ حالات جا رہے ہیں لگ رہا ہے کہ اگر عوام کی خاموشی میں چھپے ہوئے شورکو نہ سنا گیا تو پھر پاکستان میں گذشتہ کئی دہائیوں سے اپنے حقوق کی متلاشی عوام جب حق کے لئے سڑکوں پر آکر بول کر اپنے حقوق کی ادائیگی کا مطالبہ کرے گی تو پھر کوئی بھی طاقت انکو انکے حق سے محروم زیادہ دیر نہیں رکھ پائے گی۔

عمران خان اور طاہر القادری کے آزادی مارچ اور انقلاب دھرنوں کی وجہ سے کوئی خاص تبدیلی رونما ہونے کی باتیں کرنے والے اس خاموش تبدیلی کو رونما ہوتے دیکھ کر ڈرے ہوئے ہیں کہ اب کہ پاکستان کی سیاست میں انکی کوئی جگہ باقی نہیں ہے یا وہ جان بوجھ کر عوام کی نظروں میں اپنی قدروقیمت انکو یوں نظرانداز کر کے بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ اب کہ عمران خان اور طاہرالقادری نے عوام کی سوچ کو بدلنے میں کسی قدر کامیابی حاصل کر لی ہے اور یوں خاموشی سے ایک بڑی تبدیلی آنے کی پاکستان میں امید ہو چکی ہے کہ شاید اب کہ محروم طبقوں کو انکے حقوق مل سکیں اور پاکستان جس مقصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا وہ بھی پورا ہو سکے۔

پاکستان میں سب کچھ ہی غلط نہیں ہو رہا ہے یہاں ایدھی صاحب جیسے لوگ بھی خاموشی سے بھلائی کا کام کر رہے ہیں اور انکے پس پردہ کارناموں کا شور سن کر بہت سے لوگ کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور مصیبت زدہ کی مدد کرتے ہیں۔شوکت خانم ہسپتال کا نام تو کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے اس کے بارے میں لوگ کچھ بھی کہتے رہیں مگر وہاں بھی غریبوں کو بہترین کم نرخوں پر یا بالکل مفت علاج معالجے کی سہولیت دی جا رہی ہیں۔اسکے علاوہ پاکستان کے طول وعرض میں بے پناہ کرپشن کے باوجود اس ملک سے محبت کرنے والے اپنے فرائض منصبی نہایت ہی دیانتداری ومحنت سے سرانجام دے رہیں اورایسے لوگوں کے لئے ایک مثال بن رہے ہیں جو کہ آنے والے وقت میں اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالے گی یا جن کے ہاتھوں میں اس ملک کے اداروں کاانتظام ہوگا۔جہاں تک اچھے انداز سے اپنے فرائض کی ادائیگی کا سوال ہے تو یہاں میں بالخصوص جناب اسسٹنٹ کمشنر لیاقت پور ظہورحسین بھٹہ صاحب کا ذکر کرنا چاہوں گاکہ انہوں تعیناتی کے بعد سے آج تک اپنے فرائض کو ایمانداری اور فرض شناسی سے نبھایا ہے ،چاہے بات جعلی انتفال رجسٹریوں کی ہو یا دیگر معاملات کی انہوں نے اپنے کسی بھی لمحے دباؤ میں آئے بنا عوام کو ہر لحاظ سے انصاف فراہم کیا ہے اور دن رات اسی میں مصروف عمل ہیں دوسری طرف کچھ ایسا ہی دسٹرکٹ لائیو سٹاک آفیسر سید سبطین بخاری کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ وہ جب سے رحیم یارخان میں اپنے فرائض ادا کرنا شروع ہوئے ہیں ،بہت سے معاملات بخوبی سرانجام دیئے جا رہے ہیں۔پورے پاکستان میں ہرطرف اقربا پروری، ناانصافی اور کرپشن کا شور ہے ،کہیں یہ کہاجاتا ہے کہ اچھے لوگ خاموش ہیں؟لیکن یہاں پھر یہ بات کی جا سکتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں چھائی خاموشی میں بھی کہیں نہ کہیں شور ہو رہا ہے کوئی نہ کوئی کچھ نہ کچھ اچھا ضرور کر رہا ہے ۔اگر ہمارے ملک میں سید سبطین بخاری)ڈی ایل او،رحیم یارخان) اور ظہور حسین بھٹہ (اے سی،لیاقت پور)جیسے اچھے لوگ اپنے فرائض منصبی کو عمدگی سے سرانجام دے کر دوسروں کے لئے ایک اچھی مثال بن رہے ہیں۔دوسری طرف پاکستان کے حالات میں تبدیلی آہستہ آہستہ رونما ہو رہی ہے اس میں سب کو مل کر اپنا اپن کردار ادا کرنا ہوگا تب ہی معاشرے میں امن وسکون ہو سکے گا اور بڑی تبدیلی رونما ہو سکے گی ،جب تک ہم اپنے آپ کو اور اپنی سوچ کو نہیں بدلیں گے اس وقت تک ہمارے اور پاکستان کے مسائل حل نہیں ہو پائیں گے ،نہ ہماری زندگی میں خوشیاں آسکیں گی ،نہ ہی ملک کو استحکام حاصل ہو سکے گا۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522733 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More