این اے 149 کے حالیہ ضمنی
انتخابات میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کو واضح اکثریت کے
ساتھ کامیابی حاصل ہوگئی، پیپلزپارٹی کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہوگئی او
جاوید ہاشمی نے شکست قبول کرلی، ورنہ تو حسب روایت دھاندلی کا الزام عاید
کیا جاسکتا تھا جس کا نزلہ بالآخر الیکشن کمیشن پر ہی جاکر گرتا۔ ویسے بھی
اس کہاوت کو جھٹلانا بہت مشکل ہے کہ جہاں نشیب ہوتا ہے پانی وہیں ہوتا ہے،
واقعی اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہمارے الیکشن کمیشن کی کارکردگی
کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہی اور اس کے نظام اور طریقہ کار میں بہت سی
خامیاں اور موجود ہیں۔
اس وقت اس اعلیٰ منصب پر سپریم کورٹ کے ایک اور نیک نام جج جناب جسٹس انور
ظہیر جمالی قائم مقام کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تاہم چیف الیکشن
کمشنر کی تقرری کے عمل میں آئین کے تحت کلیدی کردار وزیراعظم اور قائد حزب
اختلاف کو ادا کرنا ہے جوکہ آئین کی 18 ویں ترمیم کے تحت طے کیا جاچکا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر آئینی و سیاسی بحران پیدا ہونے کا خدشہ لاحق
ہوگیا ہے۔
سپریم کورٹ اگر اپنی دی ہوئی ڈیڈ لائن کے مطابق قائم مقام چیف الیکشن کمشنر
کو واپس طلب کرلیتی ہے تو سیاسی و آئینی ماہرین کی رائے کے مطابق الیکشن
کمیشن غیر فعال ہوجائے گا جب کہ حکومتی ماہرین کا اس رائے سے اختلاف کرتے
ہوئے نکتہ نظر یہ ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بہرحال بال ایک مرتبہ
پھر سپریم کورٹ کے کورٹ میں ہی جائے گی اور جب حکومت اور اپوزیشن کی جانب
سے سپریم کورٹ سے مہلت مانگی جائے گی تو فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنا پڑے
گا۔
ادھر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ہم
عدلیہ کا احترام کرتے ہیں لیکن چیف الیکشن کمشنر پر صرف ریٹائرڈ جج ہونے کی
پابندی ختم ہوجانی چاہیے اور چیف الیکشن کمشنر کا تقرر آئینی اصلاحات کے
بعد عمل میں لایا جانا چاہیے۔ دوسری جانب آئینی اور قانونی ماہر ایس ایم
ظفر کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن مکمل ہی اس وقت ہوتا ہے جب اس کا چیف موجود
ہوتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ اپنا جج واپس بلالے گی تو پھر الیکشن کمیشن مکمل
نہیں ہوگا۔ ایسی صورت حال میں نہ وہ اپنا کام کرسکے گا اور نہ ہی ضمنی
انتخابات منعقد کراسکے گا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک
ہندوستان میں اس روایت سے قطعی انحراف کیا گیا ہے اور اس کے بڑے اچھے نتائج
بھی سامنے آچکے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہناہے کہ وطن عزیز میں اس دیرینہ
روایت کے خاتمے کے لیے آئین میں 21 ویں ترمیم کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔
وطن عزیز میں جمہوریت کے تحفظ اور اسے پروان چڑھانے کے لیے ازحد ضروری ہے
کہ انتخابی نظام میں موجود خامیوں، کمزوریوں، ابہام اور اسقام کو جلد از
جلد دور کیا جائے اور انتخابی اصلاحات کے عمل کا نہ صرف بلاتاخیر نیک نیتی
کے ساتھ آغاز کیا جائے بلکہ اسے ممکنہ طور پر جلد از جلد پایہ تکمیل تک
پہنچایا جائے۔
گزشتہ عام انتخابات میں تین مختلف اقسام کی روشنائیاں استعمال کی گئی تھیں۔
نادرا کی سفارش کے تحت مقناطیسی سیاہی کے ساتھ ساتھ عام سیاہی بھی استعمال
کی گئی جس نے انتخابی عمل کے بارے میں کئی ابہام اور شکوک پیدا کردیے۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی کو ہمارے موجودہ انتخابی نظام میں پائی جانے والی
کمزوریوں اور نقائص کی اعلیٰ پیمانے پر خوردبینی انداز میں تحقیق کرکے
آیندہ کے لیے راہ ہموار کرنی چاہیے۔ مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی اصل حقیقت
کو جاننا قوم کا حق ہے۔
ہمارے انتخابی نظام میں عوامی نمایندگی ایکٹ 76 کے ذریعے بنیادی نقائص کو
بڑی چالاکی کے ساتھ پیوست کیا گیا ہے، اس ایکٹ کا مسودہ بھٹو حکومت کی
نہایت شاطر ٹیم نے بڑی عرق ریزی سے تیار کرکے پارلیمنٹ سے منظور کروایا تھا
اس کے بعد اس ایکٹ میں جنرل ضیاالحق، صدر غلام اسحاق خان اور جنرل پرویز
مشرف کے ادوار حکمرانی میں حسب ضرورت اور حسب پسند تبدیلیاں کی گئیں لیکن
بنیادی خرابیوں کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
اگرچہ الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کے حوالے سے بنیادی اہمیت حاصل ہے لیکن
سب سے بڑی خامی اس کی تشکیل میں مضمر ہے۔ آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر
اور کمیشن کے چاروں ارکان اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ جج صاحبان میں سے لیے
جاتے ہیں جو نہ مطلوبہ اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی مطلوبہ تجربے کے حامل
ہوتے ہیں۔ مزید برآں بڑھاپے کے اثرات کی وجہ سے وہ اتنے چاق و چوبند بھی
نہیں ہوتے کہ باآسانی ایک روز کی انتہائی قلیل مدت میں انتخابات کے انعقاد
کی بھاری ذمے داری سے بخوبی عہدہ برآ ہوسکیں۔
بھارت کا الیکشن کمیشن ایک چیف الیکشن کمشنر اور صرف دیگر دو ارکان پر
مشتمل ہے جن کا تعلق انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس سے ہوتا ہے۔ بھارتی حکومت نے
غیر معمولی انتظامی صلاحیت اور غیر جانب داری کی پختہ روایات پر مبنی ایک
ایسا قابل اعتماد انتخابی نظام قائم کیا ہے جسے دیانت داری اور شفافیت کے
اعتبار سے دنیا بھر میں ایک رول ماڈل تسلیم کیا جاتا ہے، بھارت کا حلقہ
بندی کمیشن بھی اسی طرح کا ایک مثالی ادارہ ہے، جمہوری نظام کے تسلسل کو
برقرار رکھنے کے لیے ہمیں بھی وطن عزیز میں اسی طرح کے ادارے تشکیل دینے
ہوں گے۔
ہمارے انتخابی نظام کی ایک اور بڑی خامی یہ بھی ہے کہ اس میں ووٹ ضایع
ہوجاتے ہیں اور کامیاب قرار پانے والا امیدوار عوام کا حقیقی نمایندہ نہیں
ہوتا کیوں کہ اس نے عام طور پر تیس فیصد یا اس سے بھی کم ووٹ حاصل کیے ہوتے
ہیں لہٰذا انتخابی اصلاحات کمیٹی کو 51 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے لیے قانون
سازی کرنا چاہیے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سینیٹ کے ممبران کا انتخاب بھی
براہ راست اور مناسب نمایندگی کی بنیادی پر کرایا جائے۔ |