تحریر۔۔۔ فضل خالق خان
وفاقی کابینہ کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس بات کو تسلیم کرلیا گیا کہ ملک کو
روشنیوں سے اندھیروں میں منتقل کرنے والے واپڈا کے ذمہ داروں نے ماہ جولائی
کے بجلی بلوں میں عوام سے 2ارب 2کروڑ روپے اضافی وصول کرکے حکمرانوں کے
خزانوں میں تھوڑا !سا اضافہ کرلیا ہے۔
خبر اب بھی ادھوری ہے !کیونکہ اندرون خانہ ماہ جولائی کے بلوں میں اووربلنگ
کی مد میں قوم سے دراصل70 ارب روپے اضافی وصول کئے گئے ہیں جس پر وزیر اعظم
کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں 2 ارب2کروڑ کو مان کر باقی پر پردہ ڈال
دیا گیا۔دھرنوں کے نتیجے میں عوامی دباؤ پر مقرر کردہ کمیٹی نے اجلاس کو
بتایا کہ اضافی رقم غلط میٹر ریڈنگ ،فرضی بل اور بل ایڈجسٹمنٹ کی شکل میں
عوام سے وصول کئے گئے ہیں جس کے بارے میں ذمہ داروں نے اعلان کیا تھا کہ
اسے اگست کے بجلی بلوں میں عوام کو واپس کیا جائے گا لیکن اگست تو کیا
ستمبر کا مہینہ بھی گزرگیا اور اکتوبر، نومبر تو کیا دسمبر کے مہینے بھی گز
ر جائیں گے لیکن کسی کو نہ اضافی مد میں وصول کی گئی رقم واپس ملنی ہے اور
نہ ان کی دادرسی کرنے والے ذمہ دار کوئی ہیں۔
اس سے قبل اس بات کو بھی منطر عام پر لایا گیا کہ تھا کہ واپڈا نے عوام کو
لوٹنے کیلئے جو بجلی میٹر فراہم کئے ہیں وہ اعدادوشمار کے مطابق30 فیصد
اضافی تیز چل رہے ہیں ،گزشتہ روز کے اجلاس میں اس بات کو تودرخور اعتناء ہی
نہیں سمجھا گیا کہ ان تیز میٹروں کا کیا کیا جائے گا اور ہر ماہ تیز میٹر
ریڈنگ کی مد میں سالہا سال سے عوام کو لوٹنے کا جو سلسلہ جاری ہے وہ اضافی
رقم کس شکل میں عوام کو واپس کی جائے گی،جبکہ حالیہ ڈاکہ جو حکم رانوں نے
دن دہاڑے عوام کی جیبوں پر ڈالا ہے اس کی واپسی کیسی ہوگی ۔
تین نکاتی ایجنڈے کا اجلاس صرف اس بات پر منتج ہوا کہ ماہ جولائی کے بلوں
میں عوام سے صرف 2ارب2کرو ڑ روپے اضافی وصول کئے گئے ہیں !اور بس ! اس کے
بعد نشست وبرخاصت اور بقول شخصے بات خلاص!
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں اول تو ایک عشرے سے زیادہ وقت گزرنے کے
باؤجود عوام بجلی کی دید کیلئے ترس رہے ہیں جو تھوڑی بہت ملتی ہے اس کی
قیمت اتنی زیادہ ہے کہ اس کے بل عوام اپنا خون نچوڑ کر ادا کررہے ہیں اور
اوپر سے اضافی بلوں کی یہ نئی اُفتاد ۔
کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک بدبخت باپ اپنی بیٹی کو ہوس کا نشانہ
بناتا رہا جس کے نتیجے میں وہ بدقسمتی بچی ’’ماں‘‘ بن گئی کسی نے اس معصوم
سے پوچھا کہ جب تیرے ساتھ یہ ’’زیادتی‘‘ ہوتی رہی تو تو نے کسی کو بتایا
کیوں نہیں ،اس بچی کا جوا ب کتابوں میں ڈھونڈے سے نہیں ملے گا، کہا ! کہ جب
کسی کے ساتھ کوئی ظلم ہوتا ہے تو وہ اپنے ’’بھائی یا باپ ‘‘ کو ازالے کیلئے
پکارتے ہیں یہاں میرا سگا باپ ہی میرے ساتھ ظلم کرتارہا تو میں کسے پکارتی!
پاکستانی عوام کی مثال بھی میرے خیال میں اس معصوم بچی کی مانند ہے جنہیں
سالہا سال سے اپنے ہی حکمران نوچ کھسوٹ رہے ہیں ایسے میں یہ بے چارے جائے
تو کہاں جائیں! کسے منصف کریں ؟کس سے فریاد کریں؟۔
پاکستان میں دُنیا کی سستی ترین بجلی پیدا ہونے کے باؤجود عوام اپنے حکم
رانوں کے پاپی پیٹ بھرنے کیلئے ہر ماہ اپنے منہ کا نوالہ توڑ کر ان کا پیٹ
بھرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں لیکن معاملہ ابھی تک اُلٹا ہی ہے ،شر م کی
بات ہے کہ اب حکم رانوں نے شارٹ کٹ اختیار کرتے ہوئے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ
ڈالنے کیلئے اول تو بجلی میٹروں کو تیز کردیا ، اس کے بعدا ب یہ نیا کھیل
شروع کردیا گیا جس میں میٹر ریڈرز گھر میں بیٹھ کر فرضی یونٹ ڈال کر عوام
کو لوٹنے کے دھندے میں شامل ہورہے ہیں ،یہاں میٹر ریڈروں کے لئے میرا صائب
مشورہ ہے کہ ایک نہ ایک دن تم نے اس پانچ فٹ کے گھڑے میں جانا ہے جس میں
تیرے آگے پیچھے منکر نکیر کے علاوہ بچانے کیلئے کوئی زرداری ،کوئی نوازشریف
نہیں ہوگا تب تو اپنے اعمال کا جواب کیا دے گا ، عوام کے جسم اب شل ہوچکے
ہیں ،انصاف کا ترازو آج تیرے ہاتھ میں ہے لیکن کل کو کچھ بھی نہیں ہوگا !
۔تو صارف کے بل میں یونٹ زیادہ ڈالے یا پورا تجھے تن خواہ وہی ملے گی جو
تیر ی مقرر ہے پھر کیوں اپنی آخرت خراب کرر ہے ہو۔ایسے میں حکم رانوں کیلئے
بھی ہوش کے ناخن لینے کا شائد ابھی موقع ہو کہ وہ اپنے عوام کو جو ، اب اس
ملک میں صرف اور صرف جینے کیلئے ترس رہے ہیں ،زندگی کی تمام تر خوشیاں جو
صحت کے میدان میں ہوں یا کھیل کے میدان میں جو اشیائے ضروریہ کی خریداری کی
شکل میں ہو یا کسی دوسرے شعبے میں سب کے ’’آوے کا آوا‘‘ ہی بگڑا ہوا ہے
سہولیات فراہم کریں ۔
کیونکہ اب بھی اگر بگاڑ کی بجائے کوئی بناؤ کی جانب جانا چاہے تو یقینا
حالات اس ملک کے غریبوں کے بہتر ہوسکتے ہیں،باقی کو چھوڑ کر حالیہ ڈاکہ میں
عوام کو جتنا لوٹا گیا ہے اس کا عشر عشیربھی اگر اگلے ماہ کے بجلی بلوں میں
عوام کو واپس کی جائے تو یقینا غریبوں کی کچھ نہ کچھ دادر سی ہوجائیگی
بصورت دیگر سب کا اﷲ حافظ!۔ |