ہمیں تو پروٹو کول اور وی،آئی پیز ہی لے ڈوبے
(Chohdury Fateh Ullah Nawaz, )
اِن دنوں الیکٹرانک میڈیا میں وی
آئی پیز اور اِن کو ملنے والے پر وٹوکول بارے کافی شور مچایا جارہا ہے،تاہم
وطنِ عزیز کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد بابائے قوم کے حیات رہنے تک اِس
ناسور پر کافی حد تک کنٹرول رہا اور کبینٹ کے اجلاسز تک میں بابائے قوم
ممبران کو چائے یا کافی پیش کرنے تک معمولی شہ سے بھی منا کرتے کیونکہ
بابائے قوم باخوبی جانتے تھے کہ عوام کے پیسوں کو کہاں خرچ کرنا ہے اور
کہاں ُٰیہ پیسے خرچ ہوئے تو فضول خرچی میں شمار ہونگے لہذا ایک ایک پائی کو
ہمارے عظیم قائد نے سنبھال کرخرچ کیا ، جبکہ اب حالات بالکل اس کے برعکس
ہیں اور اُمراء ہوں یا بیروکریٹ ،حکومتی عہدیدار ہوں یا اپوزیشن کے لوگ اور
تو اور مجھ سمیت میڈیا کا کوئی اینکر پرسن ہو یا ایک عام رپورٹر سبھی کو
زبردست پروٹوکول سے نوازنا انتظامیہ اپنی اولین ترجیح گردانتی ہے اور کسی
بھی موقعہ پے اشرافیہ کی چاپلوسی اور آؤ بھگت میں کوئی کثر باقی نہیں رکھتی
اگر کوئی افسر ایسے نا کرے تو وہ پھر نوکری نہیں کرسکتا بہرحال دورِ حاضر
میں پروٹو کول اور پی،آئی،پیز ایک ہی چیز کے دو نام سمجھے جائیں تو کچھ غلط
نا ہوگا ،دُور نہیں ہمسائے ملک چین کو ہی لے لیں ایک خاک روب بھی عام
سائیکل پر اپنی ڈیوٹی کرتا ہے اور ملک کا وزیر اعظم بھی اُسی سائیکل پر
اپنے آفس جاتا اور آتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم سے بعد میں آزادی حاصل کرنے
والی قوم آج بلندیوں اور ترقیوں کے اُفق پر ایک روشن ستارہ ہے، مگر ہمارے
ملک اور عوام کی بد قسمتی یہ ہے کہ ہم لوگ اپنے لیئے سب کچھ کرتے ہیں کہ
معاشرے میں ہماری ناک نا نیچی ہو مگر ترقیا فتہ ممالک کی عوام اور حکمران
اپنے ملک کی ترقی کی پلاننگ کرتے ہیں ہمیں اپنے اپنے مسالک اور برادریاں
وغیرہ عزیز ہیں مگر بیرونی ممالک میں یہ سب نہیں چلتا یہاں جو مال کمائے سب
اُس کا مگر باہر ایسا ہرگز نہیں خیر پہلے تو اشرافیہ کو دوروں اور عوامی
جگہوں پر پروٹو کول دیا جاتا تھا تاہم اب تو دربار بھی محفوظ نہیں ھو ل ناک
ہوٹروں ،خاردار تاروں اور دیگر روکاوٹوں سے پنجاب کے مشہور ومعروف علاقے
پاکپتن کو سیل کردیاگیا اِس لئے کہ یہاں برصغیر پاک وہند کے عظیم روحانی
پیشوا بابا فرید الدین ؒ سے دنیا واقف ہے اُن کے سالانہ عرس کی دس روزہ
تقریبات کا سلسلہ پانچ محرم سے جاری ہے اِس دوران ایس،پی سے لیکر ایک
کانسٹیبل تک پروٹوکول دینے میں پوری طرح مصروف دیکھائی دیتے ہیں مگر اپنے
لوگوں کو شہر کے تمام داخلی وخارجی راستوں کو سیل کردیا گیا ہے گویا کرفیو
کا ساماں نظر آتا ہے مگر اِس پر انتظامیہ اِس لیئے مطمئن دیکھائی دیتی ہے
کہ یہ سب سیکیورٹی کو فول پروف بنانے کے لئے عملی مظاہرہ ہی تو ہے مگر بات
یہاں ہی ختم نہیں ہوتی اندرون شہر کے تمام کاروباری مراکز اور جنرل بس
اسٹینڈوں کو بھی بند کردیا جاتا جس سے مقامی لوگ استحصالی کا شکار ہوتے ہیں
مگر انتظامیہ سیکیورٹی کے نام سے منصوب اپنی اِن حرکات کو ہر سال کم کرنے
کے بجائے اضافہ ہی کرتی ہے اِن دس دنوں کے دوران اگر آپ کو اتفاق ہو تو
پاکپتن کا وزٹ ضرور کریں باخوبی یہ بات جان سکیں گے کہ یہ کوئی کرفیو زدہ
علاقہ ہے کیونکہ ہماری انتظامیہ خدانخواستہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی روک
تھام کی مناسب حکمت ِ عملی طے کرنے کہ اپنے اپنے طریقے ایجاد کرلیتی ہے جن
سے عام عوام ناصرف متاثر ہوتی ہے بلکہ احساسِ کمتری کا بھی خوب شکار ہوجاتی
ہے مگر پھر اِس بات پر صبر شکر کرتی ہے کہ پیدا جو پاکستان میں ہوئے تو پھر
اِس میں رائج قوانین کو تو مانناہی پڑے گا۔اگر میڈیا کی بات کی جائے تو
میڈیا بھی پروٹوکول دینے اور لینے میں ذرا بھی نہیں جھکتا جیسے یہ کوئی بہت
بڑی نیکی کا کام ہو خصوصاً ہمارا الیکٹرانک میڈیا کیا کہنے اِس کی پالیسسیز
کے جو میڈیا ہاوسسز کو (من بھائے )وہ تو فرشتہ صفت ٹھہرا مگر جس نے حکم
عدولی کی اُس کی خیر نہیں ۔۔۔۔مگر عوام مایوس نا ہوں اچھے کی امیدوں پر
زندگی کے دن پورے کریں اور اِس خوش فہمی کو دل سے نکال دیں کہ ہماری
اشرافیہ ہمارے حکمران ہمارے سیاستدان یا دیگر پروٹوکول لینے کے شوقین افراد
کی فطرت نا بدلی نا بدلے گی عوام کو ہی صبر کی چادر اوڑھے گہری نیند میں
سوتے رہنا ہوگا اسی میں پروٹوکول اور وی، آئی ،پیز کا بول بالا ہے اور اسی
میں عوام اور ملک کی تعمیرو ترقی کی سب سے بڑ ی روکاوٹ چھپی ہوئی ہے ،جس
ملک میں ایمرجنسی کا شکار مریض اِس لئے ایمبولینس میں ہی سسک سسک کر دم توڑ
دے کہ وی ،آئی پی موومینٹ کے باعث وقت پر ہسپتال نا پہنچ سکے جس ملک کی
عوام کے بنادی حقوق پر پروٹوکول اور وی ،آئی، پیز ہی مسلط ہوجائیں اُس قوم
اور ملک کا اﷲ ہی حافظ ہو۔ اﷲ ہم سب کا حامی وناصر۔ |
|