لفظوں کی زنجیریں کیا بناؤں
گا۔وہ الفاظ کہاں سے لاؤں گا ۔ہاتھ لرزتے تھے۔آنکھیں نم ہوتی تھیں۔چار سال
گزر گئے ۔سوچوں تو ہر بار نئی فکر ‘نیاسبق ۔اک اک حرف‘اک اک جنبش جن کی
لازوال ہو ایسی ہستی پر لکھوں تو کیا لکھوں۔نسبت دیکھ کر سہم جاؤں کہ کہیں
کمی نہ رہ جائے ۔کرم ہے ‘کرم ہے کہ لکھ رہاہوں ‘وگرنہ پیرمہر علی شاہ نے
فرمایا تھا
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
بادشاہ میرے حسین ؑ کی آرام گاہ کانشان مٹاتے مٹاتے خودمٹ گئے ۔بغض وکینہ
کے بھرے صفحہ ہستی سے سسکتے سسکتے گزرگئے ۔ سیدنا امام عالی مقام اس جہان
فانی سے اوجھل ہوئے توسرمبارک سجدہ میں تھا۔یہ سب پیارے مدنی آقا کافیضان
نظر‘تربیت اورصحبت تھی جو تاریخ میں آل پیمبر ساصابراس امت میں نہ آئے
گا۔اخلاقی جراء ت ‘قوت اقدام ‘راست بازی ‘راست کرداری ‘ثبات واستقلال
‘ایثاروسخاوت ‘علم وعمل ‘انکساری وجلال ‘صلح جوئی اورحکمت ہراک معاملے میں
میراحسین ؑمسلمانوں میں یکتاتھے۔ جب بھی دس محرم آئے گی ‘جب بھی کوئی
جابرکے سامنے کھڑاہوگا‘جب بھی کوئی حق کی بات کرے گا‘واقعہ کربلااسکامعاون
ورہبرہوگا۔وہ مسلم ہو ‘ہندکا ہویاسندھ کا‘مشرق کا ہو یامغرب کا‘میرے حسین ؓ
کی بابرکت ہستی میں تو خدانے ایسی تاثیررکھ دی کہ خدا کونہ ماننے
والاکیمونسٹ بھی ابوالمساکین کی عظمت کوتسلیم کرتاہے۔
نجانے کیوں جب بھی کوئی جنازہ اُٹھتاہے مجھے جگرگوشۂ بتول ‘فرزندحیدر‘کے
کربلاکامنظر یاد آتاہے ‘وہ معتبر ہستی جس کے عید کے کپڑے فلک سے آتے ہوں اس
کاجسم اطہر بے گوروکفن ؟۔میری لوں لوں میں درداترجاتاہے اورمجھے ایک نیا
حوصلہ ‘نیاولولہ اورنئی قوت بھی عطاکرجاتاہے ۔کربلاکے ایک ایک پرت میں فیض
کے ہزاروں سبق پوشیدہ ہیں ‘ہاں مگر کوئی سوچے تو‘کوئی سمجھے تو‘یہاں معاملہ
فقط عقل پربھی نہیں موقوف! اصل شہ کرم ہے کرم ‘تب ہی حجابات ہٹتے ہیں وگرنہ
ابوجہل نے کیا معجزے نہ دیکھے تھے؟ اوردوسری جانب کیا غازی علم دین شہید نے
زمانہ سرورکائنات دیکھاتھا؟نہیں ناں بس کرم‘کرم۔انگریز نے اردوکے سب سے بڑے
مرثیہ نگارکوکہاتھاکہ اگرمسلمان کربلاسے سبق سیکھیں تو تاج برطانیہ لمحوں
میں نیست ونابود ہوجائیگا۔ اور یہ اسوقت کہاتھا جب تاج برطانیہ کے محکوم
علاقے میں سورج غروب نہیں ہوتاتھا۔
ظالموں کے ظلم کا اندازاہ امام کو تھا‘مگر رب کائنات نے اپنے محبوب کے
نواسے کو ناحق کے خلاف ڈٹ جانے کی ایسی قوت عطاکی تھی کہ عقل دنگ رہ جاتی
ہے اورکافرفرنگی بھی کہہ اٹھتاہے ’’اوردنیاکی عظیم ترین ہستی کو
پھرشہیدکردیاگیا‘‘۔
ہم غم حسین ؓ میں ڈوبتے ہیں‘ڈوبتے رہیں گے لیکن اگرلمحہ بھرکوسوچیں توہم
اپنی زندگی میں کم وبیش ہریزید وقت کو مانتے آئے ہیں۔جھکتے آئے ہیں۔مفادات
کی خاطرمفاہمت کرتے آئے ہیں۔حسینیت پر یزیدیت کو فوقیت دیتے آئے ہیں۔یہ سب
کچھ درحقیقت حسینیت سے انکارہے ۔ فلسفہ ء کربلاکی نفی ہے۔جس دن ہم نے امام
عالی مقام سیدناحسین ؓ کی ذات مبارک سے جڑے واقعہ کربلاکے فلسفہ
کوسوچااورسمجھااوراس پر عمل کیاتو ہم محکوم نہیں رہیں گے ۔ ہمارے ہاں بم
دھماکے نہیں ہونگے ۔ہماراکشمیروفلسطین آزادہوگا۔دنیامیں ہرمذہب وملت محفوظ
ہوگی۔
حسینیت تویہ ہے کہ تین دن سے مسلسل پانی نہ ملنے اوردشمن کے ہرحال میں
آمادہ ء جنگ ہونے کے باوجود جنت کے سردار نے پہلے حملہ نہیں کیا اورآخری
سانس تک صلح کی پہیم پیشکش فرماتے رہے ‘ہم ہیں کہ ان کے پیروکارہونے کادعوی
کرتے ہیں اور مظلوم وبے قصوراقلیتیں ہوں یا اختلاف رائے رکھنے والے مسلمان
سب کو بے دریغ قتل کرتے ہیں ۔قتل کے بدلے ان لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو
معصوم ہیں ۔ہمیں امن‘ برداشت‘ صبر اور جبر کے خلاف ڈٹ جانے کاسبق کربلاسے
سیکھناہوگاوگرنہ ہم حسینی ؓومحمدی ﷺ کہلاتے تورہیں گے لیکن ہمارے ضمیر
اورتاریخ کے اوراق ہمیں کوستے رہیں گے۔
یہ سب فیضان مصطفی ہے کہ ثناء حسین عالی مقام رہتی دنیا تک اختتام پذیر
نہیں ہو گی ۔میرے حسین ؓکو مسلم تو مانتاہی ہے ۔ کافربھی کہتاہے
Antoine Bara (Lebanese writer): “No battle in the modern and past
history of mankind has earned more sympathy and admiration as well as
provided more lessons than the martyrdom of Hussain in the battle of
Karbala.” (Hussian in Christian Ideology)
دنیا میں کسی لڑائی نے چاہے ماضی ٰ یا حا ل کی تاریخ میں ہو‘ نہ تو اتنی
ہمدردی حاصل کی ہے نہ تعریف اور نہ ہی زیادہ اسباق مہیا کیئے جتنے کہ حسینؑ
کی شہادت نے میدان کربلا میں کیئے ۔
Dr. Rajendra Prasad
“The sacrifice of Imam Hussain (A.S.) is not limited to one country, or
nation, but it is the hereditary state of the brotherhood of all
mankind.”
امام حسینؑ کی قربانی کسی ایک قوم یا ملک تک محدود نہیں بلکہ ساری انسانیت
کے بھائی چارے کیلئے ماروثی حیثیت رکھتی ہے۔
لفظوں کی زنجیریں کیا بناؤں گا۔وہ الفاظ کہاں سے لاؤں گا ۔ہاتھ لرزتے
تھے۔آنکھیں نم ہوتی تھیں۔چار سال گزر گئے ۔سوچوں تو ہر بار نئی فکر ‘نیاسبق
۔اک اک حرف‘اک اک جنبش جن کی لازوال ہو ایسی ہستی پر لکھوں تو کیا
لکھوں۔نسبت دیکھ کر سہم جاؤں کہ کہیں کمی نہ رہ جائے ۔کرم ہے ‘کرم ہے کہ
لکھ رہاہوں
‘وگرنہ پیرمہر علی شاہ نے فرمایا تھا
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
لکھوں بھی تو کیا لکھوں دوجہانوں کے سردارنے فرمایاہے
عربی:حسین منی وانامن الحسین
ترجمہ :حسین ؑ مجھ ﷺ سے ہے اورمیں ﷺ حسین ؑ سے ہوں |