اس قوم کا معیار

آج سے کچھ عرصہ قبل اس قوم نے ایک میڈیا گروپ کے خلاف دو باربڑھ چڑھ کر احتجاج کیااس میڈیا گروپ پر دو الزامات تھے ایک پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ، جس کو تجزیہ کاروں نے پاک فوج کو بدنام کرنے کی غیر ملکی سازش اور اس میڈیا گروپ کو غیر ملکی ایجنڈکہا، دوسرا الزام یہ تھا کہ اس میڈیا چینل نے اہل بیت کی شان میں گستاخی کی جس پر بھی تجزیہ کاروں نے خوب بڑھ چڑھ کر دلائل دئیے اوراسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کی دینی غیرت کو جگایا۔پاکستانی عوام کا اس میڈیا گروپ کے خلاف ان دو اقدامات پر احتجاج کرنا جائز بھی تھا اور حق بھی بنتا تھاکیوں کہ ایک طرف ملکی عزت ووقار کا سوال تھا تو دوسری طرف خاندان نبوتﷺ سے محبت کا تقاضا بھی۔

اس میڈیا گروپ کے خلاف ہونے والے اس احتجاج کے رنگ پاکستان میں جگہ جگہ دکھائی دیتے تھے، سوشل میڈیا سے لے کر ایس ایم ایس سروس تک کو لوگوں نے اس میڈیا گروپ کے خلاف استعمال کیا۔اس میڈیا گروپ کے خلاف ہونے والے ان احتجاجوں کا انجام یہ ہوا کہ اس میڈیا گروپ کی ریٹنگ ایک دم گِر گئی کیوں کہ میڈیا گروپ کے ان اقدامات کو اس ملک کے باسیوں نے ملکی حمیت اور دینی غیرت پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف گردان کر اس میڈیاگروپ کی طرف سے فراہم کردہ پاکستانی عوام کے لیے سروسز کا بائیکاٹ کیا۔بائیکاٹ اس حد تک پہنچ گیا تھاکہ یہ میڈیا گروپ ماننے پر تیار ہو گیا کہ اس بائیکاٹ سے اسے روزانہ کے حساب سے کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے ۔اس نقصان کا ازالہ اور لوگوں میں اپنا اعتماد دوبارہ بحال کرنااس میڈیا گروپ کے تھِنک ٹینک کے لیے چیلنج بن گیا جو اس میڈیا گروپ کے تھِنک ٹینک نے بہت احسن طریقے سے انجام پذیر کیااور ایک بار پھر یہ میڈیا گروپ اس عوام کے لیے دن رات بن گیا جو چند ماہ پہلے اس میڈیا گروپ سے ملکی اور دینی غیرت و حمیت کی وجہ سے الگ ہو گئی تھی۔

11مئی 2013سے چوں کہ ملکی سیاسی حالات کچھ پیچیدہ اور غیر یقینی صورت حال پر مشتمل ہیں جس کی وجہ سے ملکی سیاسی جماعتیں دو گروہوں میں بٹ چکی ہیں جو ایک دوسرے کی مخالفت شدت و حِدت سے کرتی ہیں۔ان حالات کو بھانپتے ہوئے اس میڈیا گروپ نے ایک سیاسی گروہ کی حمایت میں اپنے سبھی ذرائع استعمال کیے جب کہ دوسرے سیاسی گروہ کی کھل کر مخالفت کی۔ اس سے اس میڈیا گروپ کے ذرائع کو نہ صرف پہلے سیاسی گروہ کے حامیوں نے تعریفی نگاہ سے دیکھابل کہ اپنے دلائل کو حق و سچ منوانے کے لیے اس میڈیا گروپ کے ذرائع کو بطور دلائل بھی پیش کیا۔اس میڈیا گروپ کو ایک سیاسی گروہ کی طرف سے ہی فائدہ نہ ہوا بل کہ دوسرے سیاسی گروہ کی طرف سے بھی بہت فائدہ ہواایک سیاسی گروہ اس میڈیا کے ذرائع کو بطور حمایتی کسی نہ کسی طرح استعمال کرتے تو دوسرا سیاسی گروہ اس میڈیا کے ذرائع کو بطورمخالفین استعمال کرتے جس سے نہ صرف عوام کا اس میڈیا گروپ پر اعتمادبحال ہوا بل کہ اس کی ریٹنگ دوبارہ بڑھنا شروع ہو گئی اور اربوں کا نقصان کم ہوتے ہوتے نہ صرف ختم ہوگیا بل کہ عوام بھی اس میڈیا گروپ کی طرف سے کی جانے والی پاک فوج کی تضحیک اور اہل بیت کی شان میں گستاخی بھول کر قصہ پارینہ بنابیٹھی۔

اب ایک اور میڈیا گروپ کی طرف آئیے جو موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر بننے والے دوسرے گروہ کا حمایتی ہے ۔اس میڈیا گروپ پر ایک اینکر ایسا ہے جو پہلے سیاسی گروپ کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہے اور ایسے ایسے حقائق سامنے لاتا ہے کہ جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔پہلے سیاسی گروپ کی پکی مخالفت اور دوسرے سیاسی گروپ کی پکی حمایت کی وجہ سے اس اینکر کو بھی بے شمار حلقوں میں سراہا جاتا ہے ایک سیاسی گروہ اس اینکر کو بطور مخالفین دیکھتے ہیں جب کہ دوسرا سیاسی گروہ اس اینکر کو بطور حمایتی دیکھتے ہیں مگر اس اینکر کے بارے میں غالباً سال پہلے ملک کے ایک بڑے بلڈر کا پری پلینڈ(Pre-Planned)پروگرام کرنے کا الزام تھا جس پر بھی انھی عوام نے بڑھ چڑھ کر نہ صرف تنقید کی بل کہ نفرت اور بے اعتمادی کا اظہار بھی کیاجو آج اس اینکر پرسن کو سراہتے ہوئے تھکتے نہیں ،مگر اب یہ اینکر پرسن نہ بے اعتمادہے اور نہ ہی قابل نفرت ۔

ان دو مختصر وضاحتوں سے اندازہ لگا لیں کہ اس قوم کا معیار کیا ہے اور ذہنی سطح کتنی بالغ النظر ہے۔ مذکورہ بالا حقائق اور ہمارے موجودہ رویے کو دیکھ کر یہ کہتے ہوئے مضائقہ نہیں ہوگا کہ اس قوم نے ملکی غیر ت، حمیت اوراہل بیت سے محبت اپنی پسند کی خاطرپس پشت ڈال دی اور ماضی قریب کے حقائق کو بھول گئے۔ اس بچگانہ رویے سے اس قوم کی ذہنی غیر یقینیت اور ذہنی پستی کا عالم عیاں ہوتا ہے جس کو اس دین اور ملک و قوم کے دشمن باآسانی بھانپ کراتحاد و اتفاق کی ٹوٹی پھوٹی دیوار میں مزید دراڑیں ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ المیہ بھی یہی ہے کہ ہم میں دینی غیرت بھی ہے اورملکی حمیت بھی ، درد دل بھی اور خلوص نیت و رواداری بھی ، جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور قربانی بھی مگر ۔۔۔مگر صرف چند لمحوں کے لیے ،چند منٹوں کے لیے یا پھر چند گھنٹوں کے لیے ۔۔۔
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86088 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.