ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ۔۔

میں نے واقعہ کربلاء کے اسباب پر لکھنے کا آغاز کیا تھا جسکا تیسرا حصہ آج لکھنا تھا ۔ مگر میرے ایک مہربان جرنلسٹ نے مجھے آج ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کا مسجد کے عنوان سے لکھا کالم ای میل کیا جوکہ آج جنگ اخبار میں چھپا۔ جس میں موصوف نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جماعت اسلامی نے قیام پاکستان کی مخالفت نہیں کی تھی بلکہ مسلم لیگی قیادت کی مخالفت کی تھی ۔ دوسرا موصوف نے تاثر دیا ہے
کہ علماء دیوبند بھی سارے پاکستان کے مخالف نہیں تھے بلکہ صرف مہتمم دارلعلوم دیوبند مولانا حسین احمد مدنی صاحب نے مخالفت کی تھی ۔ مجھے یہ کالم اس لئیے بھیجا گیا کیونکہ ٹیوٹر پر میں اکثر ٹیوٹس کرتا رہتا ہوں کہ جماعت اسلامی اور علماء دیوبند نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی ۔ آج میں نے باقی مصروفیت ترک کرکے سوچا کہ یہ تازہ ادھار پہلے چکتا کروں۔ مجھے کوئی شوق نہیں اختلافی مسئلے بیان کرنے کا نہ مجھے لطف آتا ہے بیان کرنے کا ، نہ کسی کی شان گھٹانا میرا مقصد ہے ۔ لیکن جب کوئی حقائق مسخ کرنے کی کوشیش کرتا ہے اور تاریخ کے صفحات پر بکھری سیاہی کو چاٹتا ہے تو میرے تن من میں آگ لگ جاتی ہے ۔ آئیے اب ملاحظہ کریں موصوف کی دلیل جو وہ دیتے ہیں اور نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے پاکستان بنانے کی حمایت کی تھی ، انکا کالم سامنے رکھ کر لفظ با لفظ لکھتا ہوں ۔ جماعت اسلامی کے ١٩٤١ میں قیام کے بعد جماعت کے جنرل سیکرٹری قمرالدین خان کو دہلی بھجوایا گیا جہاں جماعت کی درخواست پر ہندوستان کی ممتاز شخصیت رآجہ محمودآباد نے انکی قائداعظم سے ملاقات کا اہتمام کیا تھا ۔ اس ملاقات میں قمرالدین خان نے جماعت اسلامی کے منشور سرگرمیوں اور پروگرام پر روشنی ڈالی اور قائد اعظم سے کہا کہ وہ اسلامی ریاست کے قیام کا وعدہ کریں ۔ قائداعظم نے فرمایا میں مسلمانوں کے لئیے علیحدہ وطن کی جدوجہد کرتا رہوں گا اور آپ بھی اپنی کوشیش جاری رکھیں ۔ آگے جاکر موصوف فرماتے ہیں کہ میرے مطالعے کے مطابق جماعت اسلامی نے قیام پاکستان کی مخالفت نہیں کی البتہ مسلم لیگی قیادت پر تنقید کی ۔ اب میں نے اس واقعہ کو کراس چیک کیا تو ایک اور مصنف کی تحریر سامنے آئی اور اسنے بھی اس ملاقات کا ذکر کیا مگر سن ١٩٤٠ لکھا اور لکھا کہ ملاقات خود مودودی صاحب کی ہوئی تھی ۔ اب دو تحریروں میں کھلا تضاد بتاتا ہے کہ یہ واقعہ بہت بعد میں گھڑا گیا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ آج سے دس سال پہلے میں نے اس موضوع پر تحقیق کی تھی اور جماعت اسلامی والوں سے کہتا تھا کہ تم لوگوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی تو وہ مانتے تھے کہ ہاں کی تھی مگر اسے جسٹی فائی کرنے کی کوشیش کرتے تھے مگر اس قسم کے واقعات نہیں سناتے تھے۔ خیر اگر کالمسٹ کا واقعہ سچ مان بھی لیا جائے تو اس سے پاکستان کی حمایت کرنا کیسے ثابت ہوتا ہے ؟ حالانکہ آپکے بیان کردہ واقعہ میں جماعت اسلامی نے علیحدہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانی چاہی اور قائداعظم نے فرمایا کہ تم اپنی کوشیش جاری رکھو میں اپنی پاکستان کی جدوجہد جاری رکھوں گا ۔ ڈاکٹر صاحب قائداعظم زیرک دانا اور صاحب فراست مومن تھے آپکے کہنے کا مقصد تھا کہ جماعتیو تم اپنی کوشیش کرو اور میں اپنی اور پھر اینڈ رزلٹ دیکھیں گے کامیابی کسے ملتی ہے ؟ قائداعظم ؒنے نہ صرف سات سال کی مختصر مدت میں انہونی کو ہونی کردکھایا۔ ایک ہزار میل (1500کلومیٹر) کے فاصلے پر 2الگ الگ صوبوں (مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان) پر مشتمل ایک اسلامی نظریاتی ریاست کی بنیاد رکھ دی (جو 23 یا 24 سال تک اکٹھے رہے )....جماعت اسلامی ہند اور جماعت اسلامی پاکستان آج تک ایک صالح معاشرے اور اسلامی نظام کے قیام کے لئے سرگرداں ہے۔ جناب آپ کی دلیل تو آپ کے خلاف ہی چلی گئی۔ میں اپنے مؤقف کی تائید میں بے شمار دلائل لکھ سکتا ہوں مگر صرف دو دلائل مختصر ترین بیان کروں گا جن کی تصدیق آپ آن لائن کرسکتے ہیں ۔ تحریر و تقریر کے ان گنت انداز ہیں مگر میں منطقی انداز پسند کرتا ہوں یعنی دلیل مختصر مگر عقلی ، منطقی ہو مگر لوہا توڑ ہو جو مخالف کا ناطقہ بند کردے۔ ١٢ نومبر ٢٠١١ کو مودودی کے بیٹے نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی اور میرے والد مودودی بانی جماعت اسلامی نے پاکستان کی مخالفت کی تھی اور وہ پاکستان کو ناپاکستان کہتے تھے اور وہ آخری دم تک اس پر قائم تھے ہم پٹھان کوٹ میں تھے لہذا پاکستان آگئے ورنہ ہم آنا نہیں چاہتے تھے ۔ میں آج بھی کہتا ہوں فخر سے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے ۔ اب ڈاکٹر صفدر محمود کی بات سچی یا حیدر فاروق کی گواہی اپنے باپ کے حق میں سچی ۔ لنک پیسٹ کررہا ہوں آپ سنکر تصدیق کرلیں اور تاریخ مسخ کرنے والوں کو دعا دیں ۔ https://www.unewstv.com/…/haider-farooq-maududi-son-of-maula… ۔ دوسری دلیل گوگل میں جماعت اسلامی لکھیں اور ویکی پیڈیا کھولیں جماعت اسلامی کے کارناموں میں دوسرے کارنامے کو دیکھیں لکھا ہے ہم نے بے دین پاکستان کی مخالفت کی تھی ۔ میں تاریخ کی مستند کتب سے حوالے دے سکتا تھا مگر کون کتابیں پڑھتا اور تصدیق کرتا۔ صحافت میں مختلف جماعتوں اور مذہبی مسالک کے خیرخواہ آگئے ہیں جو اپنے مسلک و جماعت کو اونچا دکھانے کی خاطر تاریخ اور حقائق کو مسخ کررہے ہیں تحریک پاکستان کے اصل ہیروز کو زیرو اور زیروز کو ہیرو بنا رہے ہیں ، یہ کھلواڑ ہمارے ساتھ اس لئے ہورہا ہے کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جسکا ہاضمہ مضبوط اور حافظہ کمزور ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کے کالم کے دوسرے حصے میں علماء دیوبند کے قیام پاکستان میں کردار کا ذکر ہے جسکا تفصیلی آپریشن آئندہ کروں گا اور گذارش کروں گا کہ جو میڈل علماء دیوبند کو دینا ہے دو مگر حقائق و تاریخ مسخ نہ کرو ۔
میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
تاثیر کا سائل ہوں ، محتاج کو ، داتا دے
بے لوث محبت ہو ، بے باک صداقت ہو
سینوں میں اجالا کر، دل صورت مینا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے

Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186532 views System analyst, writer. .. View More