ہر سال ملک میں نئے اسلامی سال محرم الحرام کی آمد کے
ساتھ ہی امن وامان کے حوالے سے حالات پریشان کن ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ سالوں
ملک کے مختلف حصوں میں خونریزی کے متعدد واقعات کے پیش نظر حکومت و
انتظامیہ سے لے کر ایک عام شہری تک کو دہشتگردی کا خوف پریشانی میں مبتلا
کیے دیتا ہے۔ اگرچہ حکومت امن و امان کے حوالے سے ہر سال اپنے تئیں
انتظامات کر کے مطمئن ہوجاتی ہے، لیکن پھر بھی شرپسند عناصر اپنے مقاصد
حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ امسال الحمد للہ محرم الحرام کا ایک ہفتہ
خیر و عافیت کے ساتھ گزر چکا ہے، جبکہ یوم عاشور کے حوالے سے ہر طرف انجانا
خوف ابھی دامن گیر ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی حکومت و انتظامیہ ملک بھر
میں یوم عاشور کو پرامن بنانے کے لیے اپنی سی کوششوں میں مصروف ہے۔ ملک بھر
میں محرم الحرام کے لیے سیکورٹی انتظامات سخت کیے جارہے ہیں۔ یوم عاشور پر
سیکورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے مختلف حصوں میں موٹر سائیکل کی ڈبل
سواری پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ محکمہ داخلہ سندھ نے کراچی، حیدرآباد،
خیرپور، سکھر اور سانگھڑ میں آٹھ، نو اور دس محرم الحرام کو موٹرسائیکل کی
ڈبل سواری پر پابندی عاید کردی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پابندی لگائے جانے
کی وجہ یومِ عاشور پر کیے جانے والے سیکورٹی انتظامات کو موثر بنانا ہے۔
لاہور میں بھی سیکورٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے نو اور دس محرم الحرام کو
موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی ہوگی اور شہر کے مختلف علاقوں میں دفعہ
144 بھی نافذ کی جائے گی۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر
راولپنڈی میں نو، دس اور گیارہ محرم الحرام کو ڈبل سواری پر پابندی عاید کر
دی گئی ہے اور اعلامیہ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ گوجرانوالہ میں ضلعی
انتظامیہ نے آٹھ سے دس محرم الحرام تک موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی
عاید کردی ہے اور دفعہ 144 کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل
خان میں یکم سے آٹھ محرم تک ڈبل سواری، جبکہ نو اور دس محرم کو موٹر سائیکل
چلانے پر پابندی عاید کی جاچکی ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے
مطابق عاشورہ کے موقع پر انتہائی درجے کا الرٹ برقرار رکھنے کی ہدایات جاری
کی گئی ہیں۔ وزارت داخلہ نے صوبائی حکومتوں کی معاونت کے لیے فوج، رینجرز
اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے 32ہزار 695 اہلکاروں کو ملک بھر کے 54 اضلاع میں
تعینات کر دیا ہے اور مختلف مقامات پرسیکورٹی انتظامات کو مزید مضبوط بنانے
کے لیے 12 ہیلی کاپٹر موجود رہیں گے۔ وزارت داخلہ کے کنٹرول روم میں 24
گھنٹے محرم سے جڑی سرگرمیوں کی نگرانی کی جا رہی ہے۔چودھری نثار کے مطابق
ان کی وزارت خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے ساتھ ساتھ کسی خاص
علاقے میں ممکنہ خطرہ کی معلومات کا تبادلہ بھی کر رہی ہے۔ جبکہ سیکورٹی
ایجنسیوں کی جانب سے ملک بھر میں حساس قرار دیے جانے والے مختلف مقامات پر
نو اور دس محرم (پیر اور منگل) کو موبائل فون خاموش کر دیے جائیں گے۔ وزارت
داخلہ کی جانب سے محرم الحرام میں سیکورٹی خدشات سے متعلق ہائی الرٹ جاری
کیا گیا ہے، جس کے باعث ملک بھر میں 9 اور 10 محرم الحرام کے دوران موبائل
فون سروس کو بھی بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سندھ حکومت نے کراچی سمیت 5
اضلاع میں 8 سے 10 محرم تک موبائل سروس معطل رکھنے کی درخواست کی۔ محکمہ
داخلہ کے مطابق کراچی، حیدرآباد، خیرپور، سکھر اور لاڑکانہ میں سیکورٹی
خدشات کے باعث موبائل فون سروس بند رکھنے کی درخواست کی گئی ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت نے یوم عاشور کے موقع پر پشاور، ہنگو، ٹانک اور ڈیرہ
اسماعیل خان کو انتہائی حساس قرار دیا، جبکہ سیکورٹی خدشات کے پیش نظر حساس
علاقوں میں 9 اور 10 محرم کو موبائل فون سروس معطل رکھنے کا بھی اعلان کیا
ہے۔
دوسری جانب ذرائع کے مطابق دوسرے شہروں کی بنسبت کراچی میں دہشتگردی کے
خطرات زیادہ ہیں، کیونکہ یہاں مسلسل دہشت گردی کے سانحات رونما ہورہے ہیں
اور ذرائع کے مطابق ہفتے کے روز بھیمحرم الحرام کے پیش نظر کراچی میں
دہشتگردی کی کسی بڑی ممکنہ کارروائی کے لیے افغانستان سے لائے جانے والے
اسلحے کی بھاری کھیپ کو انٹیلی جنس ذرائع کی خفیہ اطلاع پرکراچی کے قریب
واقع بلوچستان کے صنعتی اور ساحلی علاقے وندر کے قریب ایک کار سے قبضے میں
لیا گیا۔ برآمد کیے گئے اسلحہ وگولہ بارود میں 35 کلو دھماکہ خیز مواد، 21
آوان گولے، 4 وائرلیس ڈیوائس، 15 بڑے ہتھیار جن میں کلاشنکوف، رپیٹر، شاٹ
گن اور کالاکوف شامل ہیں، جبکہ اس اسلحہ اور گولہ بارود کے ہمراہ 5 عدد ٹی
ٹی پستول، ایک سو سے زاید کارتوس، کلاشنکوف اور ٹی ٹی پستول کی سیکڑوں
گولیوں سمیت ایک درجن سے زاید میگزین اور 2 عدد دوربین برآمد کرلیے گئے
ہیں۔جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ 9 اور 10 محرم الحرام میں کراچی سینٹرل جیل
پر حملے کا خطرہ موجود ہے، اس سلسلے میں جیل کے گرد حفاظتی انتظامات مزید
سخت کردیے گئے۔ جیل کے عقبی حصے میں کنکریٹ کے بلاک لگا کر مکمل دیوار
بنادی گئی ہے، جبکہ مرکزی دروازے کی جانب مزید 2 سیکورٹی بیریئر لگادیے گئے
ہیں۔ گزشتہ ماہ رینجرز نے سینٹرل جیل کے عقب میں قائم غوثیہ کالونی میں
چھاپے کے دوران ایک مکان سے سرنگ برآمد کی تھی، جوکہ سینٹرل جیل تک جارہی
تھی۔ ذرائع کے مطابق گرفتار ملزمان نے انکشاف کیا تھا کہ 7 محرم الحرام سے
10 محرم الحرام کے دوران ان کا ایک گروپ شہر میں دہشت گردی کی بڑی واردات
کرتا اور اسی دوران جب تمام انتظامی مشینری کا رخ اس جانب ہوجاتا تو دوسرا
گروپ سینٹرل جیل پر حملہ کرکے اپنے ساتھیوں کو چھڑالیتا۔ واقعے کے بعد سے
تاحال سینٹرل جیل پر حملے کا خدشہ بدستور منڈلارہا ہے۔ حملے کے پیش نظر
حکام نے سینٹرل جیل کے گرد حفاظتی انتظامات مزید سخت کردیے ہیں۔ پی آئی بی
کالونی کی جانب عقبی حصے میں جیل کی دیوار کے اندر اور باہر کنکریٹ کے بلاک
لگا کر مکمل دیوار بنادی گئی ہے، جبکہ یونیورسٹی روڈ کی جانب پہلے ہی بم
پروف دیوار تعمیر کی جاچکی ہے۔ عقبی حصے کی جانب پی آئی بی کالونی اور
یونیورسٹی روڈ دونوں جانب بیریئر لگا کر سڑک کو بڑی گاڑیوں کی آمدورفت کے
لیے بند کردیا گیا، جبکہ متصل گلیوں پر بھی کنکریٹ کے بلاک لگادیے گئے ہیں۔
پولیس کی موبائل اور بکتر بند گاڑی بھی 24 گھنٹے حفاظتی ڈیوٹی پر مامور ہے۔
مرکزی دیوار کے ساتھ ساتھ واچ ٹاورز کی تعداد بھی بڑھادی گئی ہے، جن پر
جدید اسلحے کے ساتھ اسنائپرز تعینات ہیں، اسنائپرز کو رات میں دیکھنے والی
جدید خوردبین بھی فراہم کردی گئی ہیں، مرکزی دروازے پر بھی تعینات نفری میں
اضافہ کر دیا گیا ہے، جبکہ مزید دو سیکورٹی بیریئر بھی بنادیے گئے ہیں۔ رات
کے اوقات میں جیل کے اندر گشت بڑھا دیا گیا ہے، جبکہ جیل پولیس کے اہلکاروں
کو بھی ایل ایم جی اور ایس ایم جی سمیت دیگر جدید اسلحہ فراہم کر دیا گیا
ہے۔ ذرائع کے مطابق کراچی میں دہشتگردی کے پیش نظر 18 ہزار پولیس اہل کار
سیکورٹی ڈیوٹیاں نبھا رہے ہیں، جلوس کے راستے میں اونچی عمارتوں کی چھتوں
پر ماہر نشانہ باز تعینات کیے گئے ہیں۔ جلوس کے راستوں اور اطراف سے آنے
والی گلیوں کو کنٹینر اور بسوں کے ذریعے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
جلوس کے روٹ پر چلنے والی گاڑیوں کو خصوصی اجازت نامے جاری کیے گئے ہیں۔ اس
کے علاوہ جلوس میں داخل ہونے والی گاڑیوں، سبیلوں اور لنگر تقسیم کرنے والے
ٹرک بھی صرف متعین کردہ روٹ سے داخل ہو رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق حفاظتی
اقدامات کے ذریعے ملک کے شہریوں کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن
حکومت کو چاہیے حفاظتی اقدامات اس طرز پر نہ کیے جائیں، جس سے عوام کو
پریشانی لاحق ہو۔ حکومت ہر سال حفاظتی اقدامات کے نام پر کئی علاقوں کو
مکمل طور پر بند کریتی ہے ، ایک طرف تو کئی بڑی مارکیٹیں کئی روز تک بند
رہتی ہیں، جس سے تاجر برادری کو کافی تحفظات ہوتے ہیں، دوسری جانب عوام کے
لیے کافی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ یوم عاشور پر سیل کیے گئے
روٹوں پر موجود مساجد کو بھی بند کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان مساجد میں
نماز بھی ادا نہیں کی جاسکتی۔ حالانکہ مساجد کو کسی حال میں بھی بند نہیں
کیا جانا چاہیے۔ محرم الحرام میں امن کے قیام کے حوالے سے سب سے بڑی ذمہ
داری حکومت کی ہے کہ وہ سخت حفاظتی انتظامات کرے تاکہ ملک میں بدامنی و
فساد پھیلانے والے عناصر کو شرپسندی کا موقع نہ مل سکے اور حکومت کی یہ ذمہ
داری بھی بنتی ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے جلسے جلوسوں کو نہ صرف مکمل
تحفظ فراہم کرے، بلکہ ان میں شریک ہونے والے عوام اور واعظین، خطباء،
مقررین اور ذاکرین کو بھی اس بات کا پابند بنائے کہ ایک دوسرے کے مسالک کا
احترام کیا جائے اور کسی کے مکتب، مسلک یا مقدس شخصیات کی توہین نہ کی جائے،
کیونکہ یہی صورت فساد کا ذریعہ بنتی ہے۔ |