واگہہ: دہشت گردی کا یہ سفاک چہرہ

مودی نے مذمت کی ،بیٹنگ ریٹریٹ، کالا دھن ، 9نومبریوم اردو تقریب

دہشت گردی کی کسی واردات کی جب بھی کوئی خبرآتی ہے تو ایک گونہ گمان یہ ہوتا ہے کہ کہیں اس میں اسلام دشمن میڈیا کی تو کوئی کارستانی نہیں کہ تل کا پہاڑ بنادیا ہو، مگر عاشورہ محرم سے صرف دوروز قبل واگہہ کی سرحد سے متصل پاکستانی علاقہ میں جو سانحہ پیش آیا اس نے دہشت گردی کے انتہائی سفاک چہرے کو بلا شک و شبہ بے نقاب کردیا ہے ۔ اس طرح کے واقعات کی کسی اگر، مگر اور سیاسی عیاری کے بغیر مذمت ہونی چاہئے اور ہورہی ہے۔ ساتھ ہی یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ عفریت کس طرح پروان چڑھی، جس نے ہمارے برادر ملک کو ہلکان کررکھا ہے اور جس کے کچھ اثرات ہمارے ملک کی انتہا پسند تنظیموں میں بھی ، ہندتووا کے نام پر نظرآرہے ہیں۔

پاکستانی سیاست میں تشدد کی تاریخ پرانی ہے جس کا آغاز 16؍ اکتوبر 1951ء کو تحریک پاکستان کے اہم رہنما اور پہلے وزیراعظم نواب لیاقت خاں کے قتل سے ہو گیا تھا۔ اس واقعہ کے پس پشت سیاسی مقصد اس سے ظاہر ہے کہ اس کی کوئی تسلی بخش جانچ نہیں ہوئی اور قتل کے محرکات کبھی سامنے نہیں آنے دئے گئے۔

متحدہ پاکستان میں سنہ1971 کے اندوہناک واقعات ، جن کی بدولت ملک دو لخت ہوگیا، سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے تشدد کے حربہ کے استعمال کی ہی مثال ہے۔ یہ حربہ قوموں کو تباہ کرتاہے، توڑتا ہے، جوڑتا نہیں۔ بدقسمتی سے متحدہ پاکستان کے دونوں حصوں میں مختلف صورتوں میں سیاسی مقاصد کیلئے اس مکروہ حربہ کا استعمال جاری ہے۔ مشرق میں بھی شیخ مجیب کا قتل ہوا اور اب پھر سیاسی رقابتوں کو پھانسی کے پھندوں کا روپ دیا جارہا ہے اور جمہوری اقدار کو پنپنے نہیں دیا جارہا ہے۔

مودی نے مذمت کی
واگہہ میں8؍محرم الحرام کے اس واقعہ کی پوری دنیا نے مذمت کی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی بلا تاخیر سخت الفاظ میں اس کی مذمت کی اور مرحومین ومجروحین کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کیا ہے۔ہرچندکہ ہزار مطالبوں کے باوجود پچھلے 12؍سال میں ان کی زبان سے خود انکی اپنی ریاست گجرات میں تشدد میں ہلاک وتباہ حال لوگوں کے حق میں ایک بار بھی کلمہ خیر نہیں نکلا۔ لیکن اب اگروہ ایک بڑی ذمہ داری کے منصب پر بیٹھ کر سرحد پار کی اس حیوانیت کی مذمت کرتے ہیں تو اس کا خیر مقدم ہونا چاہئے۔ خدا کرے کہ مودی اسی طرح کی حسیت کا مظاہرہ اندرون ملک تشدد کے واقعات پر بھی کریں۔ ان کی اپیل کے باجود فرقہ ورانہ تشدد فروغ پر ہے جس کی تازہ مثال دہلی میں ترلوک پوری اور بوانہ کے واقعات ہیں۔ بوانہ میں عیدالالضحٰی اور محرم کے مواقع پر منصوبہ بند طریقے سے کشیدگی پھیلائی گئی ۔یہ واقعات کم سنگین نہیں ہیں ۔ یہاں بھی مظفرنگر کی طرح تشدد کا حربہ سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے استعمال کیا گیا ۔ بوانا میں ایک پنچایت کرکے یہ دھمکی دی گئی کہ اگرتعزیہ نکالا گیا تو تشدد ہوکر رہے گا ۔اس دھمکی کو بھاجپا کے مقامی ایم ایل اے کی تائید حاصل رہی۔ ایسی حرکتوں سے نوجوان نسل میں تشدد پسندی کی ذہنیت فروغ پاتی ہے۔دیگرفرقوں میں دہشت پیدا ہوتی ہے، روزمرہ کی زندگی متاثرہوتی ہے، چنانچہ یہ بھی دہشت گردی کی ہی ایک قسم ہے۔مودی صاحب کو کھل کر اس کے خلاف انتباہ دینا چاہئے۔بوانہ میں انتظامیہ کو دھمکی آگے جھکنا پڑا۔ چنانچہ اندیشوں وسوسوں کے درمیان محدود راستوں سے تعزیہ گزار کر محض رسم پوری کی گئی۔ تعزیہ داری ایک ثقافتی روایت ہے جس میں بڑی تعداد میں ہندو شائقین بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ہندتووا کی طاقتیں دہشت اور نفرت کا ماحول پیدا کرکے ان روایتوں کو ختم کردینا چاہتی ہیں جن میں مشترکہ تہذیب کی جھلک نظرآتی ہے۔

بیٹنگ ریٹریٹ
فوجی روایت کے مطابق سورج غروب ہونے کے ساتھ قومی جھنڈا اتارا جاتا ہے۔ اس کے لئے ایک پریڈ ہوتی ہے، جسے ’بیٹنگ ریٹریٹ‘ یا ’بیرک میں واپسی‘ کہا جاتا ہے۔ واگہہ سرحد پر یہ تقریب بڑی پرکشش ہوتی ہے۔ دونوں طرف ہزاروں لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔ 8؍محرم کا یہ دھماکہ پریڈ کے مقام کے پاس پارکنگ میں اسوقت ہوا جب پریڈ کے بعد لوگ واپس لوٹ رہے تھے۔اس کے بعد خبر یہ آئی کہ پاکستا ن رینجرس نے یہ پریڈ تین دن کے لئے ملتوی کرنے کی اطلاع دی ہے، لیکن شام ہوتے ہوتے فیصلہ بدل گیا۔ سوگوار ماحول میں اگرچہ پریڈ کا رنگ پھیکا رہا تاہم اس کو دیکھنے حسب معمول بہت سے پاکستانی موجود تھے۔جرأت کے اس مظاہرے سے یقینا ایک اچھا پیغام گیا ہے۔ تاہم اس دھماکہ کا اثر بس سروس اورسرحد پر تجارتی سامان کے آنے جانے پرپڑا ہے۔ اس کو جلد بحال نہ کیا گیا تو دہشت گرد عناصر کا ایک مقصد ضرور پورا ہوجائیگا۔
جس شخص نے یہ دھماکہ کیا اس کو شک کی بناء پر اندر نہیں جانے دیا گیاتھا۔ اگر یہ دھماکہ عین پریڈ کے وقت ناظرین کے درمیان ہوتا تو تباہی زیادہ ہوتی اور اس کرتوت کوانجام دینے والوں کے حوصلے بلند ہوتے۔لیکن سوال یہ ہے کی جس شخص کو شک کی بناء پر اندر جانے سے روک دیا گیا تھا اس کی جامہ تلاشی کیوں نہیں ہوئی کیوں اس کوپارکنگ میں رہنے دیا گیا، اس کو حراست میں کیوں نہیں لیا گیا؟ سرحد کے قریب چندروز قبل گولہ بارود اوراسلحہ ضبط کئے جانے کے بعد سیکیورٹی بڑھا دی گئی تھی ۔ دہشت گرد اس کو ناکام کرنے میں کامیاب کیسے ہوگئے؟ خود کش دھماکہ کے لئے ایک کمسن نوجوان کو آلہ کار بنایا گیا۔ ظاہر ہے سرزمین پاکستان میں ایسی تربیت گاہیں چل رہی ہیں جن میں اس طرح کے حملے انجام دینے کئے جنون پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ انڈسٹری جس کسی کی سرپرستی میں نہیں چل رہی اور اس کا مقصد بھی سیاسی ہے۔ اس کے خاتمہ کے لئے پوری قوم کو متحد ہوکر جدوجہد کرنی ہوگی۔

کالادھن
2؍نومبر کو اپنی ریڈیائی تقریر ’من کی بات ـ‘میں وزیراعظم نریندر مودی نے قوم کو یقین دلایا ہے کی ان کی حکومت بیرونی ممالک سے کالادھن واپس لاکر رہیگی۔ لیکن اسی کے ساتھ انہوں نے ان بھاری بھرکم آنکڑوں سے دامن چھڑانے کی کوشش کی ہے جن کا پرچار لوک سبھا کی انتخابی مہم میں خود انہوں نے اور ان کے مداح ’بابا‘ رام دیو نے بڑے زوروشور سے کیا تھا۔ کہا یہ گیا تھا کی کالادھن اتنا ہے کہ ملک کے ہرباشندہ کے حصے میں 5تا 15لاکھ روپیہ آئے گا۔لیکن اب مودی صاحب نے ’من کی بات ـ ‘ میں کہاہے : ’ـ’میں ان آنکڑوں میں الجھنا نہیں چاہتا، میں صرف اس بات کے لئے پابند ہوں کہ دوروپیہ ہے، پانچ روپیہ ہے، کروڑ ہے، ارب ہے یا کھرب ہے، یہ ملک کے غریبوں کا پیسہ ہے، واپس آنا چاہئے۔‘‘چلئے قصہ ختم ہوا۔ جس رقم کو اربوں ، کھربوں میں بتایا جارہا تھا، جس کو 90دن میں واپس لے آنے کا بھروسہ دلاکر ووٹ حاصل گیا گیا تھاوہ دوروپیہ اور پانچ روپیہ بھی ہوسکتی ہے جس میں آج کے دور میں ایک چائے نہیں ملتی۔

مودی جی آرایس ایس کے تربیت یافتہ ہیں۔ مدتوں اس کے پرچارک رہے ہیں، اس لئے قوم ان کے اس وعدے پر بھی یقین کرلیگی۔ دراصل ان کو بتانا چاہئے تھا:’ بھائیوں اوربہنوں، میں نے پردھان سیوک بن جانے سے پہلے ہی کالے دھن کو واپس لانا شروع کردیا ہے۔ یہ کالا دھن گورا ہوکر عوام میں پہنچ رہا ہے۔پہلے لوک سبھا چناؤ میں، پھر مہاراشٹرا اور ہریانہ اسمبلیوں کے چناؤ میں اور آئند چند ماہ میں دیگر ریاستوں میں ہونے والے چناؤوں میں کالا دھن لگاتار گورا بن کردیش واسیوں کو پہنچتا رہیگا۔‘آخر اس سچائی کے اظہار میں کیا شرمانا؟

عوام کویہ اندازہ تو ہوگا کہ انتخابی جلسوں میں، ریڈیو، ٹی وی اور اخباروں کے اشتہارات پر جوہزارہا کروڑروپیہ پانی کی طرح بہایا گیا، اس کا رنگ کیا تھا؟ دراصل کالا دھن وہ بہتا ہوا دریا ہے جس میں اکثرسیاست داں غوطے لگاتے ہیں۔ ہرسیاسی پارٹی اس کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ مودی جی نے قوم کو یقین دلا دیاہے کہ کالا دھن واپس لائیں گے۔ ہم یقین کرلیتے ہیں ۔ وہ یہ تو نہیں بتاسکتے کی بیرون ملک کتنا کالادھن ہے، مگر ان کی ہائی ٹیک سرکار یہ تو بتاسکتی ہے کہ حالیہ انتخابات میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے کتنا کالادھن نکالا اور اس میں خود انکی پارٹی کا حصہ کتنا ہے؟ ابھی چند اوراسمبلیوں کے چناؤہونے والے ہیں، کالی دولت کا جلوہ ان میں بھی رنگ دکھائے گا۔

اور پھرانتخابات میں ہی کیوں ؟ کالے دھن کا جلوہ تو ہمیں عقیدتمندوں کے ان بھاری بھرکم چڑھاووں اورنذرانوں میں نظرآتا ہے جو مختلف مواقع پر مٹھوں، مندروں اور خانقاہوں میں چڑھایا جاتا ہے۔ جب دین دھرم کے بڑے ناموں کو اس کے قبول کرنے میں کوئی تکلف نہیں تو بیچارا ایک کلرک، ایک سپاہی، ایک افسر اور ایک نیتا کس گنتی میں ہیں۔

9نومبراردوڈے
1997 میں ایک محب اردو حکیم سیداحمد خاں نے معروف صحافی محفوظ الرحمٰن کی تحریک پر علامہ اقبالؒ کے یوم پیدائش 9نومبر کو ’یوم اردو‘ـ کی طرح ڈالی۔ اس کی پہلی تقریب جے پور میں ہوئی جس میں مجھے بھی حاضررہنے کا موقع ملا۔ اس وقت یہ اندازہ کسے تھا کہ اس تحریک کو ایسی مقبولیت حاصل ہوگی کہ پورے ملک میں ہی نہیں،دنیا کے مختلف شہروں میں بھی یوم اردو منایا جانے لگے گا۔ اس دن محبان اردو مل بیٹھتے ہیں اور اپنے احساسات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ یہ ایک اچھی تدبیر ہے۔ اردو تاریخی اعتبار سے کسی ایک فرقہ کی زبان نہیں، لیکن تقسیم ملک کے وقت اس پر فرقہ پرستوں نے ایک لیبل چسپاں کردیا۔ اس کا اثر اب دکھائی دے رہا ہے کہ برادران وطن میں اردوداں خال خال ہی رہ گئے ہیں۔ لیکن اردو کے شیدائی اب بھی کم نہیں ہیں۔ کرناٹک کے وزیراعلا نے تو پولیس افسران سے کہہ دیاکہ شائستہ کلامی کے لئے اردو سیکھو۔ ہندی داں بھی اپنی تحریروں میں اردو الفاظ اور محاورے خوب استعمال کررہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے زد زبان کی عوامی مقبولیت پر نہیں صرف رسم الخط پر پڑی ہے جس کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ آپ بھی اس موقع پر اپنے مقام پر مل بیٹھئے۔بڑا نہیں تو چھوٹی سی ہی نشست کیجئے۔ مقامی سرکاری افسران اورغیرمسلم دوستوں کو بھی مدعو کیجئے۔ میڈیا میں اپنے روابط کو بروئے کارلاکر اس کی خبریں شائع کرائیے۔۔ہر بستی میں ایک چھوٹا سا چراغ جلے گاتو اس سے بھی اجالا ہوگا۔ اردو کا اجالا ۔ اور اجالے کا کوئی دھرم نہیں ہوتا، وہ ہرایک کو راستہ دکھاتا ہے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180684 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.