بلا شک و شبہ ضر ب عضب ہی دھشت گردی کا علاج تھا مگر ھمیں
دھشت گردی کی وجوھات کو بھی دیکھنا ہوگا اور اس تسلسل کو بھی روکنا ھوگا جو
پچھلی کئی دھائیوں سے شروع ھے اور اب حالت یہ ہے کہ ہر زہن پر ایک خوف سا
طاری ہے اور کوئ بھی اصل وجوھات کے خلاف بولنے کی سعی نہیں کر سکتا۔ اگر
کوئ جرات کر بھی لے تو اس کا کام تمام کر دیا جاتا ہے۔ حکومت اور میڈیا سے
لے کر کوئی ادارہ بھی ایسا نہیں جو اس کی نشاندہی کر سکے۔ اگر ہم باقاعدہ
اور پائدار امن چاہتے ہیں تو ہمیں بڑے پیمانے پر ریفارمز لانے ہونکے اور
دیکنھا پڑے گا کہ کہاں پر معصوم زہنوں پر تخریبی سکرپٹس کنندہ کی جاتی ہیں
اور سرگرمیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ یہ دہائیوں کے
تسلسل کا نتیجہ ہے کہ یہ عناصر معصوم زہنوں پر اس طرح سے اثر انداز ہو کر
قائل کر لیتے ہیں کہ یہ تو جنت کا راستہ ہے اور تم بہت ہی مقدس فریضہ سر
ٰنجام دینے جا رہے ہو کہ انکا اپنے فرض منصبی سے یوں منہ موڑ دیا جاتا ہے
کہ وہ محافظ سے قاتل بن جاتے ہیں۔ آپ سمجھ گئے ہونگے میرا اشارہ گورنر
سلمان تاثیر کی طرف ہے۔ اور پھر مجرم کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
میڈیا بھی گیت گاتا نظر آتا ہے ۔قانون کی حرمت کرنے والے بھی مجرم کے گلے
میں ہار پہناتے نظر آتے ہیں۔ یہی وہ سوچ ہے جس کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں
کہ کیا وہ وجوہات اور محرکات ہیں کہ ہماری سوچیں اتنی منفی اورانتہائی پست
ہو چکی ہیں کہ ہمیں اچھے اور برے کی تمیز ہی ختم ہو چکی ہے۔ جو انتہائی اہم
پہلو تھے ہم نے یکسر نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ہر کوئی بے لگام جیسے چاہتا ہے
فتوے لگائے جا رہا ہے اور انتہائی مقدس مذہبی کتب کی اپنی مرضی سے تفسیریں
پیش کر رہا ہے اور سادہ لوح لوگوں کو اپنی زاتی اور تفسانی خواہشوں کی
تکمیل میں استعمال کر رہا ہے اور ہم نے اتنے حساس پہلو کی طرف کبھی توجہ ہی
نہیں دی۔ ان چیزوں کی طرف توجہ دینا پہلی ذمہ داری حکومتوں کی ہوا کرتی ہے
اور حکومتی رٹ کو قائم کرنے کے لیے ایسے چند انتہا پسند مذہبی جنونی اور
دین کے ٹھیکیداروں کو لگام دینی پڑتی ہے-مذہبی منافرت کو روکنے کے لیے بھی
اصطلاحات کی ضرورت ہے اور عملا‘ ضرب عضب لگانا پڑے گی۔ ہم دہشت گردی کے
خلات اس آپریشن کے ثمر سے صحیح معنوں میں مستفید تب ہی ہو سکیں گے جب ان
سادہ لوگوں کی سوچوں پر اثر انداز ہونے والوں کا قلعہ قمع کریں گے۔
ان سوچوں کوختم کرنے کے لیے بھی دہائیوں پر محیط کوششوں کی ضرورت ہے مگر
آغاز تو ہو تا کہ حق آواز بلند کرنے والوں کو بھی کوئی حوصلہ ملے ورنہ کتنے
ایسے لوگوں کو سیکولر اور مغربی آلہ کار کے طعنے دیے جاتے ہیں اور کتنے ہی
اپنی زندگیوں سے ہاتھ دہو بیٹھے ہیں۔ہر کہیں خوف اور دہشت کی حکمرانی نظر
آتی ہے۔ کوئی ماں کا لال ان لوگوں کے مقاصد کے خلاف عمل کا سوچ پھی نہیں
سکتا۔ اقلیتوں کے حقوق کا معاملہ ہی لے لیجیے پورا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں
۔ایک دفعہ الزام لگا دیا گیا کوئی شنوائی نہیں اور غیر جانبدار تفتیش کا تو
آب سوچ ہی نہیں سکتے۔ ایسے مقدمات میں اب تک کتنے مجرموں کو سزا ہو پائی
بلکہ عدالتیں بھی ایسے مقدمات کو سننے سے اجتناب کرتی ہیں اور ایسے مقدمات
التوا کا شکار ہی رہتے ہیں۔
یہ دہشت اور خوف ہو کیسے نہ ہر آئے دن ایسے ہولناک واقعات رو نما ہوتے ہیں
کہ معصوم ذہنوں سے پہلے والا خوف ابھی ہلکا نہیں ہوا ہوتا کہ ایک ہور
دہشتناک واقعہ سے اور زیادہ ہیبت ناک خوف سوار کر دیا جاتا ہے۔ اسلام آباد
کچہری والا واقعہ ہی لے لیجیے۔ کتنی بے دردی اور سفاکی سے وکلا اور عدلیہ
کو ظلم و بر بریت کا نشانہ بنایا گیا اور یہ کتنا بڑا حکومتی نا اہلی اور
بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میں خود اس واقعہ کا چشم دید گواہ ہوں۔ اتفاق
سے میرے بچے بھی اس دن میرے ساتھ ہی تھے اور وہ کار میں بیٹھے پارکنگ میں
میرا انتظار کر رہے تھے اور میں نشانہ بننے والے جج رفاقت اعوان کے اوپر
واقع تحصیل کے رجسٹریشن دفتر میں تھا اللہ کا شکر ہے کہ میں بچ گیا ورنہ
اگر ایک منٹ تاخیر ہو جاتی تو میں بھی واقعہ بیان کرنے کی بجائے بیان ہو
رہا ہوتا-
یہ بہت ہی حساس معاملہ ہے اور آج تک اس کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی
جو کہ انتہائی ضروری ہے۔ تعلیم سوچوں کو بدلنے کا زریعہ ہو تی ہے اور اس
میں خواہ حکومنی سطح پر ہو یا نجی سطح پر اصطلاحات اور بکسانیت کی ضرورت
ہے۔ مزہبی تعلیم ہو یا عصری اس میں تربیتی پہلووں کو دیکھنے کے لیے کوئی
جامع حکمت عملی ہونی چاہیے۔ اور ایسی تدابیر اختیار کرنی چاہیں کہ سوچوں کو
انتہا پسندی اور پستی سے بچایا جاسکے اور دہشت گردی کے خلاف ضرب عزب کے ثمر
کو زیادہ پائدار اور دائمی بنایا جا سکے اور ساتھ ساتھ اصطلاحات کے زریعے
ایسی حکمت عملی اپنانا ہوگی جس سے منفی اور انتہا پسندی والی سوچوں کے لیے
کوئی عبرتناک مثال قائم ہو سکے - |