سانحہ واہگہ بارڈر، ناکامی کا ذمہ دار کون؟

واہگہ کی چیک پوسٹ تک نہ پہنچنے والا خود کش کتنی چیک پوسٹیں گزر کر آیا؟اسے کیوں نہ پکڑا گیا؟
حکومت خوشنما دعوے تو کر رہی ہے لیکن حقیقت میں یہ دعویٰ آئندہ کا سد باب نہیں۔
اطلاع ملنے کے باوجود دھماکہ ہوجانا اور قیمتی جانوں کا ضائع ہونا۔۔غفلت نہیں تو اور کیا ہے۔
پاکستانی قوم کا خون ۔۔۔کب تلک بہتا رہے گا۔۔ایوانوں میں بیٹھنے والے کب بیدار ہوں گے

محرم الحرام کے مہینے میں سخت ترین سیکورٹی انتظامات کے باوجودوطن عزیز کے دشمنوں نے وہگہ بارڈر پر خون کی ہولی کھیلی۔کمسن بچوں،خواتین سمیت60افراد جن کا تعلق پاکستان کے مختلف شہروں سے تھا وہ وطن کی عزت و عظمت پر قربان ہو گئے۔واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا مقصد پاکستان سے محبت کرنے والوں کو نشانہ بنانا تھا۔ پرچم اتارنے کی تقریب میں پاکستان کے ہر گوشے سے لوگ آتے اور پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے ہیں، اسی لئے اس تقریب کو ٹارگٹ کیا گیا۔ تقریب کے بعد ہونے والے خودکش دھماکے کے شہیدوں میں کراچی، خیبر پی کے، سمندری غرض ہر جگہ کے لوگ شامل ہیں۔ سیکورٹی کے سخت ترین ،کڑے انتظامات،پولیس کے ناکے،گشت لیکن اس کے باوجود حساس ترین علاقے میں دھماکہ حکومتی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کہا جا رہا ہے کہ خود کش سیکورٹی چیک پوسٹ تک نہیں پہنچ سکا اور اس سے پہلے ہی دھماکہ کر دیا لیکن اس بات پر توجہ کیوں نہیں دی جا رہی کہ پانچ دن قبل اخبارا ت میں خبریں شائع ہوتی ہیں۔حساس ادارے واہگہ پر ممکنہ حملے کا الرٹ جاری کرتے ہیں اور پانچ دن بعد کاروائی ہو جاتی ہے۔ایسی واردات جس نے قیامت صغریٰ کا منظرپیش کیا۔ایک ہی خاندان کے نو فرد شہید ہوئے تو رینجرز اہلکار نے بھی جام شہادت نوش کیا،اس حملے کو سرانجام دینے والا کہاں سے چلا؟خود کش جیکٹ ،بارود کی فیکٹری واہگہ پر تو نہیں لگی ہوئی وہ آر یا پار کہیں سے تو آیا ہے ،کڑے سیکورٹی انتظامات کے باوجود بارود،خود کش جیکٹ وہاں کیوں اور کیسے پہنچیں؟یہ ناکامی کس کی ہے،حکومت کو اس بات کا اعتراف کر لینا چاہئے ۔ساٹھ شہادتیں ،جنازے پورا ملک غم و غصے کی کیفیت میں ،ہر آنکھ اشکبار،لیکن حکمران اس بات کو اپنی کامیابی کہہ رہے ہیں کہ حملہ آور نے سیکورٹی چیک پوسٹ سے پہلے ہی حملہ کیا۔ہماری یہ خوش فہمی ہے کہ ہم حقائق کو مسخ کر دیتے ہیں اور دوسرا خوشنما پہلو عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔اس وجہ سے تباہی ہمارا مقدر ہو کر رہ جاتی ہے حالانکہ پاکستانی قوم بہادر قوم ہے،وطن عزیز کے لئے جانیں قربان کرنا ہر پاکستانی اپنے لئے قابل فخر اور اعزاز سمجھتا ہے۔حکومتی مذمتی بیانات اور تحقیقاتی ٹیمیں بنانے کا اب وقت نہیں اب دشمن نے کھلم کھلا پاکستانی قوم پر وار کیا ہے حکومت کو اب پالیسیاں تبدیل کرنی ہوں گی اور اپنے دشمن کا تعین کرنا ہوگا۔ بھارت افغانستان کے راستے بلوچستان اور خیبر پی کے میں مسلسل دہشت گردی کروا رہا ہے۔ پاکستان کے دوسرے حصوں میں بھی وہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے پس پردہ موجود ہے۔ خودکش حملے کے بعد تین تین دہشت گرد گروہوں کی طرف سے واردات کی ذمہ داری قبول کرنے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ وہ ابھی ’’ایکٹو‘‘ ہیں۔ اس بارے تحقیقات سے پتہ چلے گا کہ کون ملوث ہے۔ اطلاع ملنے کے باوجود دھماکہ ہوجانا اور قیمتی جانوں کا ضائع ہونا ’’غفلت‘‘ کی بنا پر ہوا۔ حکومت کو تیاری کرلینی چاہئے تھی۔راولپنڈی کا نوبیاہتا جوڑا بھی واہگہ بارڈر پر خود کش دھماکے کی نذرہوگیا، نوبیاہتا جوڑا الیاس اور اس کی بیوی ارم بیرون ملک سے لاہور ہنی مون کیلئے آئے تھے۔ الیاس 10سال سے کویت میں مقیم اور لیدر کا کاروبار کرتا تھا اور اسکی بیوی ارم ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینجر تھی۔ پندرہ اکتوبر کی رات الیاس اور ارم کی کویت کے ایک ہوٹل میں شادی ہوئی اور وہ نیا نویلا جوڑا ہنی مون منانے کے لئے لاہور پہنچ گیا، لاہور میں الیاس نے اپنے ایک قریبی دوست جمیل کے گھر قیام کیا ، وقوعہ کے روز دونوں میاں بیوی نے ناشتے کے بعد جمیل کو بھی واہگہ بارڈر پر پرچم کشائی کی تقریب میں ساتھ جانے کے لئے کہا، لیکن جمیل کسی ضروری کام کی وجہ سے واہگہ بارڈر نہ جا سکا، دونوں میاں بیوی دوست کی گاڑی لیکر واہگہ بارڈر چلے گئے۔ واقعے کی اطلاع ملنے پر جمیل اپنے اہل خانے کے ہمراہ روتا ہوا ہسپتال پہنچ گیااوردوست الیاس اور اس کی بیوی کی موت کی خبر سن کر بے ہوش ہوگیا، بعد ازاں ان کے گھر والوں کو اطلاع دی گئی۔جماعۃالدعوۃ پاکستان کی طرف سے واہگہ بارڈر بم دھماکہ میں شہید ہونیو الے 9افراد کی نماز جنازہ جامع مسجد القادسیہ چوبرجی میں اداکی گئی جس میں شہداء کے لواحقین سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ نماز جنازہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرؤف نے پڑھائی جبکہ اس موقع پر امیر جماعۃالدعوۃ لاہور مولانا ابو الہاشم و دیگر بھی موجود تھے۔ اس دوران رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔شہداء کے لواحقین زاروقطار روتے رہے۔ جامع مسجد القادسیہ میں جن افراد کی نماز جنازہ ادا کی گئی ان میں سے چھ کا تعلق کراچی اور تین کا پشاور سے تھا۔ بعد ازاں ان کی میتوں کو کراچی اور پشاور بھجوا دیا گیا۔ کفن اور تابوت وغیرہ کا بندوبست فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی جانب سے کیا گیا۔فلاح انسانیت کی طرف سے دھماکہ میں شہید ہونیو الے 29افراد کی میتوں کو ایمبولینسوں کے ذریعہ لاہور، پشاور، ننکانہ، سرگودھا، حافظ آباد، مردان اور مانسہرہ بھجوایا گیا۔وفاقی وزیر اطلاعات ونشر یات سینیٹر پر ویز رشید کہتے ہیں کہ واہگہ بارڈر پر پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجتے ہیں ‘دیکھنا ہو گا کہ کوئی ہمسایہ ملک پاکستان زندہ باد کے نعروں کو ختم کر نے کے درپے تو نہیں اور واضح ہے کہ یہ ملک دشمن ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ہم دہشت گردی کی جڑ یں کاٹنے کے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے اور آخری دہشت گر د کے خاتمے تک جنگ جاری رہیگی۔ سانحہ واہگہ بارڈر ہر حوالے سے انتہا ئی احساس جگہ ہے اورسانحہ واہگہ بارڈر کی ہمسایہ ملک کے ملوث ہونے کے خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام پہلویوں پر تحقیقات کی جا رہی ہے۔ لاہور میں ہونے والے دھماکے میں60سے زائد افراد کی ہلاکت اور دوسو سے زائد کازخمی ہونا انتہائی قابل مذمت اور تشویش ناک امر ہے۔قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکومت امن قائم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ دشمن قوتیں پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے خلاف متحد ہوچکی ہیں۔راء سی آئی اے اور موساد گھناؤنی سازش کے تحت ملکی حالات خراب کررہی ہیں۔جب تک امریکی جنگ سے باہر اور ریمنڈڈیوس نیٹ ورک کا خاتمہ نہیں کیاجاتا وطن عزیز میں امن کاخواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔امریکی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ عملاً پاکستان کے گلی محلوں تک پہنچ چکی ہے۔اس جنگ میں اب تک پاکستان کے50ہزار سے زائدافراد لقمہ اجل اور معیشت کو100ارب ڈالر سے زائد کانقصان ہوچکا ہے۔سوالیہ نشان یہ ہے کہ واہگہ بارڈر پر دہشت گردی کی ممکنہ وارننگ کے باوجود حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے؟ ملک دشمن بیرونی قوتیں سازشوں میں مصروف ہیں۔ان قوتوں کو پہلی ایٹمی اسلامی ریاست پاکستان کا وجود برداشت نہیں ہے۔مشرف کی بزدلانہ پالیسیوں کا خمیازہ پوری پاکستانی قوم آج تک بھگت رہی ہے۔سانحہ واہگہ بارڈر کے افسوس ناک واقعہ کی فوری تحقیقات کراتے ہوئے اصل ذمہ داران کوگرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایاجائے ۔
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 175883 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.