موجودہ حکومتی اکابرین کے مطابق
پاکستان اب ترقی کی راہ پر بہت تیزی سے گامزن ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری
بھاگی آ رہی ہے اور بہت سے غیر ملکی سرمایہ کار پوری دلچسپی سے پاکستان کی
طرف دیکھ رہے ہیں۔ دھرنے نہ ہو رہے ہوتے تو یقینا وہ اس سرمائے کی جنت نظیر
وادی میں قدم رنجا فرما چکے ہوتے۔ میرے گھر کے نزدیک پاکستان کا ایک بہت
بڑا انڈسٹریل ایریا ہے جو سندر انڈسٹریل اسٹیٹ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ
انڈسٹریل ایریا سترہ سو(۱۷۰۰) ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے جس کے (۱۱۷۹) ایکڑ پر
سات سو دو ( ۷۰۲) انڈسٹریل پلاٹ ہیں۔ زیادہ تر پلاٹ چار کنال سے لے کر پانچ
ایکڑ تک کے رقبے کے ہیں جبکہ ۲۲ پلاٹوں کا رقبہ ۵ ایکڑ سے زیادہ ہے۔ بقیہ
رقبے پر سڑکیں، کمرشل جگہیں اور دوسری ضروری عمارتیں ہیں۔ اس انڈسٹریل
اسٹیٹ کا افتتاح ۲۰۰۷ء میں بہت زور شور سے کیا گیا لیکن سات سال گزرنے کے
باوجود تقریباً ۳۰۰ پلاٹوں پر فیکٹریاں کام کر رہی ہیں۔ کچھ بن رہی ہیں اور
بہت سے پلاٹ آج بھی خالی ہیں۔ حکومت نے بہت سی سہولتوں کا وعدہ کیا تھا اور
ون ونڈو سکیم کے تحت ان تمام سہولتوں کو مہیا کرنا تھا مگر صورت حال کچھ
بہت اچھی نہیں۔ بجلی اور گیس کا حصول شاید دوسری بہت سی جگہوں کی نسبت قدرے
سہل ہو مگر گیس کنکشن اگر مل بھی جائے گیس نہیں ملتی۔ بجلی کا میٹر مل تو
جاتا ہے لوڈ شیڈنگ کے طفیل بجلی پوری طرح نہیں ملتی۔ بہت ساری انڈسٹریاں
چوبیس گھنٹے لگاتار چلتی ہیں وہاں کچھ وقت بجلی کے نہ ملنے سے بھی لاکھوں
کا نقصان ہوتا ہے جیسے لوہے کی انڈسٹری، گلاس کی انڈسٹری۔ یہ انڈسٹریاں جوڑ
توڑ کے ساتھ تھوڑا بہت سانس لیتی ہیں مگر صورتحال مجموعی طور پر انتہائی
خراب ہے ۔ ہمارے ورکر بھی بگڑے ہوئے ہیں۔ کام کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔
سرکاری چھٹیاں ہی کم نہیں ہوتیں مگر یہ مزید ایک دو چھٹیاں نہ کریں تو ان
لوگوں کاگزارہ ہی نہیں ہوتا۔چوری ڈکیتی اور نظم و نسق کی انتہائی بگڑی
صورتحال سرمایہ کارکے لئے مزیدپریشانی کا باعث ہے۔ ان ناسازگار حالات میں
جو فیکٹریاں کام کر رہی ہیں ان کے مالکان بھی حالات سے خوش نہیں۔جس سے بات
کریں پریشان نظر آتا ہے۔ نئے کیسے آئیں گے۔ کون احمق ایسا ہے جو موجودہ
حالات میں انڈسٹری لگانے کی حماقت کرے گا اور غیر ملکی سرمایہ کار۔ اس کا
آنا ممکن ہی نہیں مگر حکومت لوگوں کو خوش کرنے یا کارکردگی کی نام نہاد
تشہیر کے لئے کچھ نہ کچھ بیان دیتی رہتی ہے۔
چند سال پہلے مجھے چین کے شہر زوہائے (Zhuhai) جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ شہر
ہانگ کانگ کے قریب مکاؤ سے متصل اور ڈوانگ گانگ صوبے میں واقع ہے۔ شہر کے
ایک طرف سمندر ہے اور دوسری طرف چھوٹے چھوٹے پہاڑ ہیں۔ پہاڑوں کے پار ژونگ
شان کا علاقہ ہے جس کا ایک قصبہ ٹن ژو (Tanzhou) ہے۔ ٹن ژو میں چائنہ نے
تین انڈسٹریل پارک بنائے ہیں۔ یہ قصبہ ایکسپورٹ ہونے والی اشیاء کے
کارخانوں کے لئے مشہور ہے۔ بہت سے کارخانے موجود ہونے کے باوجود اس کا شمار
چین کے صاف ترین قصبوں میں ہوتا ہے۔ ۲۰۰۸ میں جب میں وہاں گیا اس وقت ۲۵۰
غیر ملکی کمپنیوں نے وہاں اپنے کارخانے لگائے ہوئے تھے اور وسیع سرمایہ
کاری کی ہوئی تھی۔ ان کمپنیوں کا تعلق جاپان، امریکہ، فرانس، اٹلی، ہانگ
کانگ، مکاؤ اور تائیوان کے علاوہ دیگر بہت سے ممالک سے ہے۔ انڈسٹریل پارک
میں لوگوں کے آنے جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کا شاندار انتظام ہے۔ سڑکوں کا جال
بچھا ہوا ہے۔ خاص طور پر ریل انڈسٹریل پارک سے گزرتی ہے۔ انڈسٹریل پارک کی
ٹاؤن پلاننگ کا کام بہت خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ بجلی اور گیس کا حصول
انتہائی آسان ہے۔ لوڈ شیڈنگ کا تصور بھی نہیں۔ صاف پانی کی سپلائی کے لئے
فرانس سے خصوصی سامان منگوا کر روزانہ دو لاکھ چالیس ہزار مکعب میٹر پانی
روزانہ انڈسٹریل پارک میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ بجلی کی ضروریات کے لئے تین
گرڈ سٹیشن بنائے گئے ہیں جن میں ہر ایک ۱ لاکھ دس ہزار وولٹ کا ہے۔ چوتھا
گرڈ سٹیشن دو لاکھ بیس ہزار وولٹ کا زیر تعمیر تھا۔ یہ بجلی اگلے دس سال تک
لگنے والی تمام انڈسٹری کے لئے بہت کافی ہے۔ یہ علاقہ سرمایہ کاری کی جنت
ہے۔ ٹیکس میں چھوٹ، سرمایہ کی واپس منتقلی اور دیگر تمام مراعات کے ساتھ
ساتھ حکومتی تعاون ہمہ وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہاں عام چھٹی کا تصور بھی
نہیں۔ انڈسٹریل پارک میں لوگ دن کے چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے سات دن لگاتار
کارخانے چلاتے ہیں۔ ورکرزکو اگر ہفتے میں ایک دن چھٹی ہوتی ہے تو وہ کوئی
فکس دن نہیں سات آدمی اگر کام کر رہے ہیں تو ہر ایک نے ہفتے میں ایک دن
چھٹی کرنی ہے اور وہ کوئی بھی دن ہو سکتا ہے مگر فیکٹری کسی دن بند نہیں
ہوتی ۔مگرعام طور پر ورکر چھٹی نہیں کرتے ۔چھٹی کے دن بھی اوور ٹائم لگانا
پسند کرتے ہیں کیونکہ ہر فیکٹری میں ورکرز کے لئے باقاعدہ ہوسٹل موجود
ہیں۔ورکرز کا تعلق دور دراز کے علاقوں سے ہوتا ہے وہ عام دنوں میں گھر نہیں
جا سکتے۔ نئے سال کی آمد اور بہارکی آمد پر یعنی سال میں دو دفعہ چار پانچ
دن کی اکٹھی چھٹی ملتی ہے۔ ورکرز زیادہ تر فقط انہی دنوں میں گھر جاتے ہیں۔
انڈسٹریل پارکس میں بنک اور دوسرے یوٹیلٹی ادارے بھی چھٹی نہیں کرتے۔ صرف
ایک فون پر تمام ادارے سرمایہ کار کی مدد کو موجود ہوتے ہیں۔مجھے یاد ہے
ایک دفعہ ہفتے کی شام میں ایک چائینیز دوست کے ساتھ پھر رہا تھا تو میں نے
اسے کہا کہ مجھے جلدی ہے اس لئے یہ کام ادھورا چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ مگر
کیوں؟ اس نے سوال کیا۔۔۔ مجھے صبح ایک جگہ کچھ ادائیگی کرنی ہے۔ پانچ بجنے
والے ہیں میں چاہتا ہوں جلدی سے بینک سے رقم لے آؤں کیونکہ صبح اتوار ہے
اور بنک بند ہو گا۔ وہ ہنسا اور کہنے لگا ہم جو کام کر رہے ہیں اسے اطمینان
سے کرو۔ یہاں بینک اتوار کو بھی بند نہیں ہوتے۔ یہ انڈسٹریل زون ہے۔ یہاں
کے بینک اگر اتوار کو بند ہونے لگیں تو ہم ترقی کیسے کریں گے؟ ویسے بھی
زیادہ رقم ہو تو ہوٹل میں اپنے پاس نہیں رکھتے۔ چین کے کسی انڈسٹریل پارک
کا چکر لگانے کے بعد آپ کو چین کی ترقی کا سبب سمجھ آ جاتا ہے۔ ہماری
حکومتوں کو بھی انڈسٹری کی ترقی کے لئے نعرے بازی کی بجائے عملی اقدامات
کرناہوں گے جس کے مستقل قریب میں کوئی آثارنظر نہیں آتے۔ |