بینک آف ایشیا کا قیام
(عابد محمود عزام, karachi)
ایشیائی بینک کے قیام سے چین اب
امریکا و یورپ کے مدمقابل آکھڑا ہوا ہے۔ چین کی سربراہی میں ابتدائی طور پر
سو ارب ڈالر سے پاکستان سمیت اکیس ملکوں کی جانب سے نئے ایشیائی بینک
”ایشین انفرا اسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک“ کے قیام کے عالمی حالات پر دور رس اور
مثبت اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔ بینک آف ایشیاءکے قیام کا بڑا مقصد
خطے میں سرمایہ کاری کے مواقع میں اضافہ اور اقتصادی ترقی ہے، جس کے لیے
بینک رکن ممالک کے علاوہ پورے خطے میں مواصلاتی ذرائع اور اسٹرکچر کی بہتری
کے لیے مالیاتی معاہدے، مختلف منصوبوں کی تشکیل اور قرضے فراہم کیے جائیں
گے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہدنیا کی معیشت پر ایک عرصے سے
ورلڈبینک، آئی ایم ایف، عالمی مالیاتی فنڈ اور ایشین ڈیویلپمنٹ بینکوں کا
راج ہے اور ان اداروں پرامریکا، جاپان اور یورپی ممالک کی اجارہ داری قائم
ہے اور یہ ادارے اپنے انہی سرپرست ملکوں کے مفادات کی تکمیل کے لیے کام
کرتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کو درکار مالی وفنی امداد فراہم کرنے کے لیے کڑی
شرائط عاید کرکے بسااوقات امداد کی خواہاں ریاستوں کی آزادی تک کو گروی رکھ
کر ان ممالک کا اقتصادی استحصال کیا جاتا ہے۔
یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ دنیا کی معیشت پر قابض امریکا و یورپ کے مفاد
پرست سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا میں جو طبقاتی تقسیم پیدا کر کے غریب
وامیر کے مابین خلیج بڑھائی ہے، اس کا شاخسانہ ہے کہ دنیا میں ترقی کے
باوجود مفلوک الحال لوگوں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ سرمایہ
دارانہ نظام نے معاشروں کو اپنااسیر بناکر مہنگی خوراک،بے سکون زندگی،ذہنی
عوارض،بے پناہ مسابقت اور ظالمانہ حرص نے انسانی معاشرے کو بدترین اخلاقی
افلاس میں مبتلا کیا ہے اور دنیا بھر کا سرمایہ مخصوص ہاتھوں میں مرتکز ہو
رہا ہے۔ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم نے ایک طرف غربت میں اضافہ کیا ہے اور
دوسری جانب ترقی پذیر ممالک کی قرضوں پر مبنی معیشت نے اسے مزید بڑھاوا دیا
ہے۔ عام طور پر ممالک کو اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے بیرونی سرمایہ کاری
یا قرضوں کی ضرورت پیش آتی ہے، جس کے لیے انھیںعالمی مالیاتی اداروں سے
بھاری بھرکم قرضے لینے پڑتے ہیں۔ ورلڈبینک، آئی ایم ایف اور ایشین بینک
ایسی شرائط پر قرضے دیتے ہیں، جن کی وجہ سے بنیادی ضروریات کی اشیاءپر ٹیکس
لگائے جاتے ہیں اور وہ مہنگی سے مہنگی ہوکر غریبوں کی پہنچ سے دور ہوتی چلی
جاتی ہیں۔ عالمی بینک سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے اہم کھاتے دار چوں
کہ یورپ اور امریکا سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذاپالیسیوں کی تشکیل اور قرضوں
کی فراہمی سمیت دیگر معاہدوں کی شرائط میں یہ ادارے ایشیائی ممالک کے مخصوص
کلچر، ضروریات، مقامی مسائل کا درست ادراک اور احساس نہیں کر پاتے، بلکہ اس
کے برعکس ان اداروںکی ”امداد“ سخت شرائط اور سرمایہ کشید پالیسیوں کی وجہ
سے ”امداد“ حاصل کرنے والے ملکوں کے لیے مہنگائی، بے روزگاری اور معاشرتی
اقدار کی پامالی کا عذاب بن جاتی ہے۔ ایسے میں چین کی طرف سے ایشیائی بینک
کے قیام کو ایشیائی ممالک کے لیے امید کی کرن تصور کیا جارہا ہے۔ امید ہے
کہ اے آئی آئی بی (AIIB) بینک موجودہ عالمی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری
ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔
چین کی سربراہی میں قائم ہونے والے اس نئے مالیاتی ادارے سے بجا طور پر
توقع کی جارہی ہے کہ وہ اس کے ذریعے ”جنگجو امریکا“ کی طرح دوسرے ملکوں کے
اندرونی معاملات اور پالیسی سازی میں مداخلت کی روش نہیں اپنائے گا، نہ محض
اپنے منافع کو مقصود بنائے گا، بلکہ قرض لینے والے ملکوں کو ان کے پیروں پر
کھڑا کرنے کے قابل بنانے کے لیے مؤثر حکمت عملی اختیار کرے گا۔ چین دوسرے
ملکوں کی ترقیاتی سرگرمیوں میں عرصے سے بے لوث تعاون کرتا چلا آرہا ہے۔
عوامی جمہوریہ چین ایشیائی افریقی ممالک میں بندرگاہوں، تیزرفتار ریل
گاڑیوں کی پٹریوں اورشاہراہوں کی تعمیر کے لیے انتہائی آسان شرائط پر نہ
صرف مالی امداد دیتا رہا ہے، بلکہ اپنے فنی ماہرین کی خدمات بھی فراہم کرتا
رہا ہے اور متعدد ممالک میں چین اپنی بے لوث خدمات کی وجہ سے قابل قدر
گردانا جاتا ہے۔ لہٰذا اس کی سربراہی میں قائم ہونے والے ترقیاتی بینک کو
بھی اسی رویے کو اختیار کرتے ہوئے ایشیاءکی ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے۔
آنے والے وقتوں میں ہر قسم کے قدرتی وسائل ، افرادی قوت اور صلاحیتوں سے
مالا مال ایشیائی ممالک کو عالمی سطح پر انسانیت کی فلاح و بہتری کے لیے
ماضی سے کہیں زیادہ بھرپور کردار ادا کرنا ہے۔ عالمی حالات کا تقاضا ہے کہ
ایشیاءدنیا میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھے اور نیا بینک
علاقائی سطح پر سرمایہ کاری کو فروغ دے کر ایسا مسابقتی کردار ادا کرے، جس
سے معاشی طور پر کمزور ریاستوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا موقع ملے۔
مضبوط معیشت کے حامل چین کی سربراہی میں قائم ہونے والے بینک آف ایشیاءکی
کامیابی کے امکانات روشن نظر آرہے ہیں،بلکہ اس کے بعد چین کی طرف سے مزید
مثبت پیش رفت بھی سامنے آسکتی ہے، جبکہ عالمی معاشی نظام میں چین کی غیر
معمولی پیش رفت کے بعدعالمی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری خطرے میں دکھائی
دے رہی ہے۔ اسی لیے اجارہ دار مالیاتی ادارے اور ان کا سرپرست امریکا
ایشیاءبینک کے قیام سے قبل ہی اسے ناکام بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور شنید
ہے کہ وہ پچھلے ایک سال سے خاموشی کے ساتھ رائے عامہ کو اس کے خلاف ہموار
کر نے میں لگے ہوئے ہیں اور یقیناً امریکا اپنے مقصد کے حصول کے لیے تمام
آپشن استعمال کرے گا۔ اس ٹرائیکا کی عالمی اجارہ داری کے خاتمے کے لیے اس
سے قبل بھی کئی کوششیں کی گئیں، مگر بھاری پتھر سمجھ کر خاموشی اختیار کی
جاتی رہی، بلکہ مسلم ممالک نے تو ایک مسلم بینک کے قیام کے لیے کافی حد تک
کامیابی بھی حاصل کر لی تھی ، لیکن امریکا اور معاشی چودھریوں نے دنیا پر
قائم اپنی اجارہ داری کے خاتمے کے خوف سے مختلف الزامات لگا کر مسلم ممالک
کے بنائے گئے بینک کو بند کروادیا تھا اور اب بھی امریکا نے ایشیائی بینک
کے قیام کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے اس اقدام کو ورلڈ بینک جیسے عالمی
اداروں کا غیر ضروری حریف تیار کرنے کی ایک کوشش قرار دیاہے۔جبکہ حقیقت یہ
ہے کہ امریکی پریشانی کا اصل سبب ایک بڑے مالیاتی ادارے کے قیام کی وجہ سے
امریکا کے عالمی اثر و رسوخ میں کمی کا اندیشہ ہے۔ تاہم امریکا اور اس کے
اتحادیوں کو نئے ایشیائی بینک کے قیام کو مثبت طور پر دیکھنا چاہیے، کیونکہ
اس کے نتیجے میں ایشیائی ملکوں کا بنیادی سماجی اور معاشی ڈھانچہ ترقی کرے
گا، وہ اپنی مشکلات پر آپ قابو پانے کے قابل ہوسکیں گے۔ موجودہ عالمی
مالیاتی اداروں پر دباﺅ کم ہوگا ور اس سب کے مثبت اثرات لامحالہ پوری دنیا
کی خوش حالی پر مرتب ہوں گے۔ اب جبکہ ڈالر کی اجارہ داری معرض خطر میں
پڑگئی ہے اور ایک متبادل مالیاتی نظام قائم ہوا چاہتا ہے تو دونوں میں
مسابقت اور مقابلہ ناگزیر ہوجائے گا۔ یہ صورت حال ایشیائی ممالک کے لیے
بہتر ہوگی، وہ دونوں اداروں کی امدادی شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے لیے
بہتر پیشکش کو پسند کریںگے۔ |
|