عوامی مشکلات کو مد نظر رکھا
جائے
مسلم لیگ ن کو مئی دو ہزار تیرہ میں ملنے والے مینڈیت کے بعد عوام یہ سمجھ
رہے تھے کہ شاید اب کی بار ان کی گردن پر سے مہنگائی کی وہ چھری اٹھا لی
جائے گی جس کو سابق حکومت نے ان کے گردنوں پر زبر دستی رکھا ہوا تھا اس وقت
عوام یہ سمجھتے تھے کے شاید حکومت آئی ایم ایف کے کہنے پر مہنگائی میں روز
بروز اضافہ کر کے عوام کے صبر کا امتحان لے رہی ہے اور آئی ایم ایف اپنا
پیسہ پورا کرنے کے لئے حکومت وقت کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ مہنگائی کو
بڑھائے اور لوگوں سے وہ رقم جو کہ اس نے حکومت کو قرض دی ہوئی ہے سود سمیت
واپس لے کر عالمی دنیا کے ان درندہ صفت اداروں کو دی جائے مگر جب سے اس
حکومت نے اقتدار کی کشتی کا سفر شروع کیا ہے مشکلات کم نہیں ہوئیں بلکہ اگر
جائزہ لیا جائے تو بڑھ گئی ہیں مہنگائی کا تناسب پہلے سے زیادہ ہے جبکہ
دیگر دوسرے عوامل کے بارے میں بھی مختلف ٹی وی چینلز گاہے بگاہے آگاہی
فراہم کرتے ہی رہتے ہیں ۔انسان کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے روٹی اور عوام کو
روٹی کی فراہمی کے لئے آٹے کا سستا ہونا بہت ہی ضروری ہے اگر آٹا مہنگا ہو
گا تو عام آدمی کے لئے روٹی کا حصول مشکل ہو جائے گا اس حوالے سے اگر دیکھا
جائے تو حکومت نے ایک جانب تو گندم کی امدادی قیمت میں بارہ سو روپے فی 40
کلوگرام سے اضافہ کرکے اس کو 13 سو روپے کردیا ہے، اور دوسری جانب اجناس کی
درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں بیس فیصد کا اضافہ بھی کردیا ہے حالانکہ
حکومت کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ یہ فیصلہ دیہی علاقوں میں کاشتکاروں کی مدد
کرے گا۔ تاہم دوسری جانب اگر اس کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ
اقدام بہت سے خطرات بھی ساتھ لائے گا جس سے کاشتکار اور صارفین دونوں ہی
ایسی صورتحال سے دوچار ہوسکتے ہیں کہ ان کے پاس نہ کھونے کے لیے کچھ ہوگا
اور نہ ہی پانے کو ۔اگر اس فیصلے کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ ایک سیاسی
فیصلہ ہی نظر آتا ہے جبکہ شہری صارفین کے لیے بھی غیرمنصفانہ ہے ۔بلا شبہ
اس فیصلے کے نفاذ سے دیہی علاقوں کے چھوٹے کاشتکاروں کی آمدنی میں اضافہ
ہوگا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ملک میں خوراک کے تحفظ کو
یقینی بنایا جائے کیونکہ اس کی امدادی قیمت میں اضافے کے بعد شہری صارفین
اسکے مہنگا ہونے سے متاثر ہوں گے ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ امدادی قیمت میں
اضافے کے ساتھ مہنگی کھاد، کیڑے مار ادویات اور آڑھتیوں کے منافع میں اضافے
کی وجہ سے کاشتکاروں کی پیداواری لاگت بھی بڑھ جاتی ہے چنانچہ آخر میں
کاشتکار کو مطلوبہ منافع نہیں ملتالیکن امدادی قیمت میں اضافہ یقینی طور پر
صارفین کو متاثر کرتا ہے، جنہیں آٹا خریدنے کے لیے کہیں زیادہ ادائیگی کرنی
پڑتی ہے اس فیصلے کا اعلان کرکے حکومت نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ آخری صارف
کے لیے گندم کی قیمت کو کس طرح کنٹرول کرے گی۔اب جبکہ بلدیاتی انتخابات سر
پر ہیں اور حکومت سپریم کورٹ کے بے پنا پریشر کی وجہ سے ان کا انعقاد
کروانے پر مجبور ہو رہی ہے ایسے میں ان بلدیاتی انتخابات کے پیش نظر مسلم
لیگ ن کاشتکاروں کو بہتر منافع کی پیشکش کرکے ناصرف پنجاب بلکہ خصوصاً
جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت
کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔اس وجہ سیصاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ
اپنے تمام عملی مقاصد کے ساتھ ملک میں صرف مہنگائی میں اضافہ کرے گا۔میں
کسی بھی طور پر کاشتکاروں کے فائدے پر قد غن لگانے کی بات نہیں کرتا بلکہ
پوری طرح سے کاشتکاروں کے لیے بہتر قیمت کے حق میں ہوں، لیکن اس کے ساتھ
ساتھ صارفین کے ساتھ بھی ایک منصفانہ برتاؤ کیا جانا ضروری ہے کیونکہ وزیر
اعلیٰ پنجاب خوب جانتے ہیں کہ آٹے کی اہمت کیا ہے شاید اسی اہمیت کو سامنے
رکھتے ہوئے انھوں نے سابق ادوار میں بے پناہ دباؤ کے باوجود غریب عوام کو
سستے آٹے کی فراہمی کو ناصرف ممکن بنائے رکھا بلکہ اس کے لئے ہر دباؤ اور
کوشش کو ناکام بنایا جو انھیں اس کام سے روکنے میں سامنے آئی اگرچہ ملک میں
جاری مہنگائی سے گندم ،بیج کھادیں اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا
اضافہ ہو چکا ہے اور بہتر امدادی قیمت کاشتکاروں کو ان کی سالانہ آمدنی کے
اضافے میں مدد کرے گی لیکن اس کو صارفین کے لیے گندم کی انتہائی گراں
قیمتوں کے تناظر میں بھی دیکھا جائے تو بہتر ہو گا۔اگر حکومت چاہتی ہے کہ
غریب عوام اور آٹے کے صارفین اس امدای قیمت میں اضافے سے متاثر نہ ہوں تو
حکومت کو چاہیے کہ وہ یوٹیلیٹی اسٹورز کی اصلاح کرے جہاں عوام مقررہ قیمت
پر آٹا خرید سکیں۔ دوسری صورت میں اربوں روپے کی یہ امداد جسے حکومت عوام
کو فراہم کرنا چاہتی ہے ماضی کی طرح درمیان میں ہی کہیں ضائع ہوجائے گی
کیونکہ اکثر یہ دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ جب بھی حکومت اس طرح کا کوئی
فیصلہ کرتی ہے تو وہ اس کے سیاسی فوائد کو تو مد نظر رکھتی ہے مگر اس کے
عوامی اثرات کا بغور جائزہ لینا گوارا نہیں کرتی اکثر اوقات ایسے فوائد
عوام کے فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ |