حضرت امام زین العابدین (‏ع) کا اخلاق

واقعہ کربلا کے بعد۴۳سال امام العابدین علیہ السّلام نے اناہ ئی ناگوار حالات میں بڑے صبروضبط اور استقلال سے گزارے۔ اس تمام مدت میں آپ دنیا کے شور وشر سے علٰیحدہ صرف دومشغلوں میں رات دن بسر کرتے تھے . ایک عبادت خدا دوسرے اپنے باپ پر گریہ، ییو آپ کی دو مجلسیں تھیں جو زندگی بھر جاری رہیں . آپ جتنا اپنے والد بزرگوار کے مصائب کو یاد کرکے روئے ہیں دنیا میں اتنا کسی نے گریہ نیںر کیا، ہر وقت پر آپ کوامام حسین علیہ السّلام کی مصیبتیں یاد آتی تھیں . جب کھانا سامنے آتا تھا تب روتے تھے . جب پانی سامنے آتا تھا تب روتے تھے،امام حسین علیہ السّلام کی بھوک وپیاس یاد آجاتی تھی تو اکثر اس شدت سے گریہ وزاری فرماتے تھے اور اتنی دیر تک رونے میں مصروف رہتے تھے کہ گھر کے دوسرے لوگ گھبرا جاتے تھے اور انیںم آپ کی زندگی کے لئے خطرہ محسوس ہونے لگتا تھا .ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ آخر کب تک رویئے گا تو آپ نے فرمایا کہ یعقوب نبی کے بارہ بیٹے تھے . ا یک فرزند غائب ہوگیا تو وہ اس قدر روئے کہ آنکھیں جاتی رہیں . میرے سامنے تو اٹھارہ عزیزواقارب جن کے مثل ونظیر دنیا میں موجود نیںک ، قتل ہوگئے ہیں . میں کیسے نہ روؤں .

یوں تو یہ رونا بالکل فطری تاثرات کی تحریک سے تھا مگر اس کے ضمن میں اس پر امن طریقہ سے حسین علیہ السّلام کی مظلومیت اور شا دت کاتذکرہ زندہ رہا اور امام زین العابدین علیہ السّلام کے غیر معمولی گریہ کے چرچے کے ساتھ شامدت حسین علیہ السّلام کے واقعات کاتذکرہ فطری طور سے لوگوں کی زبانوں پر آتا رہا جو دوسری صورت میں اس وقت حکومت وقت کے مصالح کے خلاف ہونے کی بنا پر ممنوع قرار پاجاتا.

دوسری مرتبہ گرفتاری
اتنی پر امن زندگی کے باوجود حکومت شام کو اپنے مقاصد میں حضرت علیہ السّلام کی ذات سے نقصان پچنے پ کااندیشہ ہوا ابن مروان نے اپنی حکومت کے زمانے میں آپ کو گرفتار کراکے مدینہ سے شام کی طرف بلوایا . اور دوتین دن آپ دمشق میں قید رہے مگر خدا کی قدرت تھی اور آپ کی روحانیت کااعجاز جس سے عبدالملک خود پشیمان ہوا اور اس نے مجبوراً حضرت زین العابدین علیہ السلام کو مدینہ واپس بھیج دیا .

اخلاق وکمالات کا پیکر
پیغمبر خدا کی مبارک نسل کی یہ خصوصیت تھی کہ بارہا افراد لگاتار ایک ہی طرح کے انسانی کمالات اور برترین اخلاق واوصاف کے حامل ہوتے رہے جن میں سے ہر ایک اپنے وقت میں نوعِ انسانی کے لئے بتری ین نمونہ تھا، چنانچہ اس سلسلہ کی چوتھی کڑی سيّد سجاد علیہ السّلام تھے جو اخلاق واوصاف میں اپنے بزرگوں کی یاد گار تھے. اگر ایک طرف صبر وبرداشت کا جو ہر وہ تھا جو کربلا کے آئینہ میں نظر آیا تو دوسری طرف حلم اور عفو کی صفت آپ کی انتا ئی درجہ پر تھی. آپ نے ان موقعوں پر اپنے خلاف سخت کلامی کرنے والوں سے جس طرح گفتگو فرمائی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کا حلم اس طرح نہ تھا جیسے کوئی کمزور نفس والا انسان ڈر کر اپنے کو مجبور سمجھ کر تحمل سے کام لے بلکہ آپ عفو اور درگزر کی فضیلت پر زور دیتے ہوئے اپنے عمل سے اس کی مثال پیش کرتے تھے . ایک شخص نے بڑی سخت کلامی کی اور بتر سے غلط الفاظ آپ کے لیئے استعمال کیے .

حضرت علیہ السّلام نے فرمایا، جو کچھ تم نے کا اگر وہ صحیح ہے تو خدا مجھے معاف کرے اور اگر غلط ہے تو خدا تمیں معاف کر دے . اس بلند اخلاقی کے مظاہرے کاایسا اثر ہوا کہ مخالف نے سر جھکا دیا اور کار حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ میں نے کاّ وہ غلط ہی تھا۔ ایسے ہی دوسرے موقع پرایک شخص نے آپ کی شان میں بتھ ہی نازیبا ا لفاظ استعمال کیئے . حضرت نے اس طرح بے توجیو فرمائی کہ جیسے سنا ہی نیںت ، اس نے پکار کے کاے کہ میں آپ کو کہہ رہا ہوں . یہ اشارہ تھا اس حکم قران کی طرف کہ ’’خذالعفو و امر بالمعروف واعرض عن الجاہلین‘‘ یعنی عفو کو اختیار کرو اچھے کاموں کی ہدایت کرو اور جاہلوں سے بے توجیر اختیار کرو .

ہشام ابن اسماعیل ایک ایسا شخص تھا جس سے حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کی نسبت کچھ ناگوار باتیں سرزد ہوئیں تھیں، یہ خبر بنی امیہ کےنیک بادشاہ عمر بن عبدالعزیز تک پنچیا . اسنے حضرت کو لکھا کہ میں اس شخص کو سزا دوں گا .آپ نے فرمایا کہ میں نیں چاہتا کہ میری وجہ سے اس کو کوئی نقصان پہنچے .

آپکی سخاوت اور خدمت خلق کایہ عالم تھا کہ راتوں کو غلہ اور روٹیاں اپنی پشت پر رکھ کر غریبوں کے گھروں تک پہنچاتے تھے بتر سے لوگوں کو خبر بھی نہ ہوتی کہ وہ کارں سےرزق پاتے ہیں اور کون ان تک پنچاک تا ہے جب حضرت کی وفات ہوئی اس وقت انیںخ پتہ چلا کہ یہ امام زین العابدین علیہ السّلام تھے . عمل کی ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ آپ کا علمی کمال بھی ایسا تھا جو دشمنوں کو بھی سرجھکانے پر مجبور کردیتا تھا اور انہیں بھی اقرار کرنا پڑتا تھا کہ آپ کے زمانے میں فقہ اور علم دین کا کوئی عالم آپ سے بڑھ کر نیںج . ان تمام ذاتی بلندیوں کے ساتھ آپ دنیا کو یہ سبق بھی دیتے تھے کہ بلند خاندان سے ہونے پر ناز نہیں کرنا چاہیے .
ذیشان حیدر
About the Author: ذیشان حیدر Read More Articles by ذیشان حیدر: 9 Articles with 13568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.