تھرپارکر: زندگی سسکتی رہی....سندھ حکومت سوتی رہی
(عابد محمود عزام, karachi)
تھرپارکر میں غذائی قلت و حکومتی نااہلی کے باعث معصوم بچے مسلسل موت کی
وادی میں اتر رہے ہیں۔ گزشتہ روز تحصیل مٹھی اور چھاچھرو میں مزید دو بچے
غذائی قلت کی نذر ہوگئے، جس کے بعد گزشتہ 39 روز میں قحط کی وجہ سے دم
توڑجانے والے بچوں کی تعداد 47 ہوگئی ہے، جبکہ تھرپارکر کے مختلف ہسپتالوں
میں سو سے زاید بچے اب بھی زیرعلاج ہیں۔ ذرائع کے مطابق تھرپارکر میں غذائی
قلت و قحط کی وجہ سے حالات دن بدن ابتر ہورہے ہیں،لوگ نقل مکانی کرنے پر
مجبور ہیں اور غذائی قلت کی وجہ سے بہت سے لوگ خودکشیاں کرنے لگے ہیں ۔
رواں سال تھرپارکر میں قحط کی وجہ سے 41 افراد خودکشی کر چکے ہیں، جس سے
واضح ہوتا ہے کہ تھر میں رواں سال خودکشیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جس
کی وجہ صرف اور صرف قحط سالی ہے۔ غیر سرکاری ادارے ایسوسی ایشن فار واٹر
اینڈ اپلائیڈ ایجوکیشن اینڈ رینو ایبل انرجی یعنی اویئر کے ڈائریکٹر کے
مطابق رواں سال صورتحال کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ
2012 میں 24 افراد نے خودکشی کی تھی اور رواں سال کے دس ماہ میں 41 افراد
اپنی جان لے چکے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے: ” تھرپارکر میں قحط سالی
کے نتیجے میں معاشی دباو ¿ نے لوگوں پر ذہنی دباو ¿ بڑھا دیا ہے، جس کی وجہ
سے ڈپریشن کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
قحط سالی کی وجہ سے لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں، خوراک کی کمی بہت زیادہ ہے،
اس سے ذہنی نشو و نما بھی متاثر ہوتی ہے۔ متاثرین جب بیراجی علاقوں میں
جاتے ہیں تو وہاں لوگوں کے پاس مالی فراوانی اور اپنی قحط زدہ حالت دیکھتے
ہیں تو اس سے ان میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے۔ انھی احساسات میں کچھ لوگ
یہ سوچتے ہیں کہ اس زندگی سے بہتر ہے کہ اس کو ختم کر دیا جائے۔ تھر میں
خوراک کی کمی کے باعث خواتین میں خون کی کمی عام ہے، جس کے نتیجے میں بچے
کمزور پیدا ہوتے ہیں اور بچوں کی اموات بھی ہورہی ہیں۔ سماجی کارکن اور
حصار فاو ¿نڈیشن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے مطابق تھرپارکر میں خودکشیوں کے
پیچھے بہت سے عوامل ہیں، لیکن غربت اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔
مبصرین کے مطابق تھرپارکر میں ہونے والی اموات کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے،
کیونکہ تھرپارکر میں لوگوں کے مسائل حل کرنا اور ان کی پریشانیوں کا تدارک
کرنا حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے۔ چند ماہ قبل تھر میں بچوں کی اموات پر
سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان بھی یہ
کہہ چکے ہیں کہ سندھ میں جو کچھ ہورہاہے، اسے دیکھ کر سر شرم سے جھک جانے
چاہییں، تھر کی صورتحال کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔ اس کے باوجود یوں محسوس
ہوتا ہے کہ حکومت سندھ نااہلی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ سابق صدرآصف زردادی کی
ہدایت پر تیار کی گئی رپورٹ میں صوبائی وزیر اینٹی کرپشن نے تھر میں قحط
سالی اور اس کے نتیجے میں3 سو بچوں سمیت سیکڑوں انسانی جانوں کی ہلاکت کا
ذمے دار سندھ حکومت، اعلیٰ عہدوں پر فائز سیاسی شخصیات اور ان کے چہیتے
افسران کو قرار دیا ہے۔ وزیربرائے جیل خانہ جات اور انسداد بدعنوانی منظور
حسین وسان کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ضلعی انتظامیہ، محکمہ صحت،
محکمہ خزانہ، محکمہ خوراک، محکمہ لائیو اسٹاک، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ
اتھارٹی اور ریلیف کمشنر کے خلاف کارروائی کی جائے۔ رپورٹ کے مطابق تھر میں
مجموعی طور پر 470 اموات ہوئیں، جن میں 7 سے کم عمر کے 300 بچے شامل ہیں۔
تھر میں 110 ڈسپنسریاں اور ایک ایمرجنسی سینٹر ہے، جو فعال نہیں ہے۔ گزشتہ
دو سال سے تھرپارکر میں ڈاکٹروں بالخصوص پیڈیاٹریشن اور گائناکولوجسٹس کی
کمی ہے، جاپان سے درآمد کردہ پانچ جدید موبائل میڈیکل ڈسپنسریاں محکمہ صحت
کے حوالے کی گئی تھیں، ان میں سے ایک ڈی سی او تھرپارکر 2008 سے بطور اے سی
کار استعمال کر رہے ہیں، ایک شرجیل انعام میمن کے فارم ہاﺅس پر زیر استعمال
ہے، دوموبائل ڈسپنسریاں چھور کینٹ کے حوالے کی گئی ہیں، جبکہ ایک موبائل
ڈسپنسری مٹھی ہسپتال میں ناکارہ کھڑی ہے۔ مالی سال 2013 اور 2014 میں
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس مٹھی کو پانچ کروڑ روپے سے زاید کا بجٹ دیا گیا تھا، لیکن
اس فنڈ کا ناجائز استعمال کیا گیا، فرنیچر اور دیگر سامان خرید کر بجٹ ضایع
کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق خشک سالی 2012 سے جاری ہے، اگر ہیلتھ یونٹس،
موبائل میڈیکل ڈسپنسریاں اور دیگر صحت مراکز کا بہتر استعمال کیا جاتا تو
اموات کو روکا جا سکتا تھا۔ تھرمیں مویشیوں کی تعداد 65 لاکھ ہے، ان میں سے
صرف 7 لاکھ کی ویکسی نیشن کی گئی۔ 58 لاکھ مویشیوں کی ویکسی نیشن نہیں کی
گئی۔ سابق سیکرٹری لائیو اسٹاک نے کراچی سے مویشیوں کے لیے 20 کروڑ روپے کا
چارہ خریدا۔ ویکسی نیشن، دواﺅں اور پیٹرول کی مد میں دو اسسٹنٹ ڈائریکٹرز
نے 5 کروڑ روپے سے زاید کے بجٹ کا ناجائز استعمال کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے
ویٹرنری کالج قائم کرنے اور ہلاک ہونے والے مویشیوں کا معاوضہ دینے کا وعدہ
کیا تھا، پورا نہیں ہوا۔ 10 ہزار سے زیادہ مویشی ہلاک ہونے کی رپورٹس ہیں۔
متاثرین کے لیے منرل واٹر کی 21 ہزار بوتلیں فراہم کی گئیں، لیکن ان میں سے
صرف 9 ہزار تقسیم کی گئیں، جبکہ باقی بوتلیں ایکسپائر ہونے کے بعد تقسیم کی
گئیں۔ گندم کی تقسیم میں بے قاعدگیوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ تھرپارکر
کی ضلعی انتظامیہ، ریلیف کمشنر، محکمہ خزانہ اور پی ڈی ایم اے متاثرین کو
بروقت خوراک فراہم نہ کرنے کے ذمہ دار ہیں، جو بھوک اور خوراک کی قلت کے
باعث ہلاک ہو گئے۔ متاثرین میں ابھی تک 50 کلو گرام کے 3 لاکھ 80 تھیلے
تقسیم کیے گئے، لیکن جن لوگوں میں گندم تقسیم ہو چکی تھی، ان میں دوبارہ
گندم تقسیم کی گئی اور کچھ کو نظر انداز کیا گیا۔ جبکہ دوسری جانب ذرائع کے
مطابق محکمہ خوراک نے تھر پارکر میں غذائی قلت کے خاتمے کے لیے3 لاکھ 14
ہزار گندم کی بوریاں فراہم کیں، لیکن قلت پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ ذرائع
کے مطابق گندم کی اتنی تعداد میں فراہمی کے بعد بھی تھر پارکر میں قحط پر
کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے اور آئے دن بچوں کی اموات ہو رہی ہےں، اس پر محکمہ
خوراک کے افسران میں تشویش پائی جا رہی ہے کہ جو گندم فراہم کی گئی ہے وہ
کیا اصل حقداروں کو ملی بھی ہے یا نہیں؟ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو
زرداری نے تھر کی صورتحال کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے صدر سید
قائم علی شاہ اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل منظور حسین وسان کو تھر کی صورتحال پر
بدانتظامی پر شو کاز نوٹس جاری کیے ہیں۔
دوسری جانب گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے تھر میں قحط کی وجہ سے ہونے
والی اموات کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی کمیٹی کا اعلان کیا ہے۔ ترجمان وزیر
اعظم ہاؤس کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے 3 رکنی ٹیم کو تھر پہنچنے کا حکم
دیا ہے۔ کمیٹی تھر اور اس کے گردونواح میں جا کر قحط سے جاں بحق ہونے والوں
کی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کرے گی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں
غذائی قلت کی وجہ سے مسلسل بچوں کی ہلاکتیں اور خودکشی کے واقعات کا پیش
آنا حکومت سندھ کی نااہلی کا واضح ثبوت ہے۔ تھرپارکر میں خشک سالی کوئی نیا
رجحان نہیں ہے، اس علاقے میں ہر دو تین برس کے بعد یہ صورتِ حال جنم لیتی
رہتی ہے، ایسے شدید موسمیاتی حالات سے نمٹنے کی منصوبہ بندی حکومت کی ذمہ
داری ہوتی ہے، لیکن یہاں تو معلوم ہوتا ہے کہ تھرپارکر میں لوگوں کی جانیں
بچانا حکومت سندھ کی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے۔ پچھلے پانچ برس تک پی پی پی
سندھ پر حکمراں رہی اور گزشتہ برس منعقدہ عام انتخابات کے بعد بھی اس کی
حکومت بدستور برقرار ہے، لیکن تھرپارکر کے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
اس بنا پر یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ تھرپارکر میں غذائی قلت کی وجہ سے ہونے
والی اموات کی ذمہ دار سندھ میں برسراقتدار جماعت ہے۔ لہٰذا حکومت سندھ کو
چاہیے کہ تھرپارکر میں مستقل منصوبے بنا کر وہاں کے لوگوں کو اموات اور
دیگر مشکلات سے بچائے، بصورت دیگر تھرپارکر میں بڑا انسانی المیہ جنم لے
سکتا ہے، جس کی ذمہ داری حکومت سندھ پر ہوگی۔ |
|