تمام شہداء برابر نہیں ہیں بلکہ
بعض شہادتیں بعض دوسری شہادتوں سے افضل و برتر ہیں ۔ شہدائے کربلا اس لئے
دوسرے شہدا پر افضلیت نہیں رکھتے کہ وہ بھوکے پیاسے شہید ہوئے ۔ ایسے بہت
سے شہدا ہیں جو آخر وقت تک تشنہ لب رہے ۔ بلکہ شہدائے کربلا کی فضیلت اس
حساس موقع پر شہید ہونا ہے ۔ ان حالات میں اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا اور یہ
شہادتیں نہ دی جاتیں تو دین کی بساط الٹ کر رہ جاتی ۔
جو کام جتنا حساس ہو اتنا سخت بھی ہوتا ہے ۔ اسی لئے اس بات کا یقین کرنے
میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ حسین ابن علی علیہما السلام پانچ مہینے یا اس
سے کچھ زیادہ مکہ اور مدینہ کے درمیان سرگرداں رہے تا کہ سب لوگ جان لیں (
کہ کیا ہونے والا ہے اور وہ کیا کرنے والے ہیں) اور سب جان بھی گئے کوفی ،
عراقی ، حجازی سب کو معلوم ہوگیا تھا ۔ اور امام صرف چالیس پچاس لوگوں کے
ساتھ کربلا میں وارد ہوئے ۔ کیونکہ سب اسی دن امام کے ساتھ نہیں آئے تھے
بلکہ بہت سے بعد میں آئے تھے اور کچھ تو شب عاشور یا صبح عاشور امام سے
ملحق ہوئے تھے ۔ ان چالیس آدمیوں کا امام کے ساتھ رہنا یقینا بہت سخت تھا
اس لئے کہ دشمن کے اتنے بڑے سیلاب کے سامنے ڈٹے رہنا معمولی بات نہ تھی
بلکہ اس کےلئے مضبوط ارادوں والا دل ہونا چاہئے۔
یہ وقت پیغمبر کے زمانے کی طرح نہیں تھا کہ پیغمبر خودہاتھ میں پرچم لے کر
نکلتے تھے اور سب لوگ ہنستے اور مسکراتے ہوئے ۔ پیغمبر کی ہمراہی میں نکلتے
تھے اور میدان جنگ میں پہنچ جاتے تھے ۔ آج تمام اصحاب پیغمبر (ص ) گرکوں
میں بیٹہ گئے تھے عبداللہ بن عباس ، عبد اللہ بن جعفر اور دوسرے افراد منہ
چھپا کر بیٹہ گئے تھے جب کہ یہ لوگ پیغمبر کے قرابتداروں میں سے تھے ۔
صرف ایک چویٹا ساگروہ جو شجاعت ، بہادری ،اوردلیری کی بلندیوں پر فائز تھا
، دین کی حفاظت کیلئے کفر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور اسے حقارت کی
نظر سے دیکھنے والوں سے مقابلے کیلئے تیار ہوا کہ اپنا سب کچھ نچھاور کر کے
پیغمبر کے نواسے پر اپنی جان قربان کرے ۔
شہدائے کربلا کی اہمیت کی وجہ یہ ہے ۔ چونکہ اس وقت یہ فیصلہ بہت سخت اور
دشوار تھا ۔ اسی لئے ابن زبیر ، ابن عمر ، ابن جعفر اور ابن عباس جیسے
افراد اس قافلہ میں شامل نہ ہوسکے اور یہ سب ایک صف میں تھے ان میں کوئی
فرق نہیں تھا ۔ کوئی یہ تصور نہ کرے کہ عبد اللہ ابن جعفر اور عبد اللہ ابن
عباس دوسروں سے الگ تھے ۔ جی نہیں ایسا نہیں ہے ! نا فرمانی نافرمانی ہے
چاہے وہ کوئی بھی کرے ۔ ان سب نے نافرمانی کی تھی کسی میں بھی جرأت نہیں
تھی کہ حسین ابن علی علیہما السلام کا ساتھ دے سوائے ان چند افراد کے ۔
ہم پوری تاریخ میں شہدائے کربلا جیسے عظیم شہدا تلاش نہیں کر سکتے ۔ آج بھی
ویسے ہی دن ہیں آج ہمارے شہدا بھی بہت عزیز اور با عظمت ہیں لیکن جیسا کہ
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا تھا :
( لا یوم کیومک یا ابا عبد اللہ ) کوئی دن کربلا کے دن کی طرح نہیں ہوسکتا
۔
تاریخ میں آج تک ایسا دن نہیں آیا ۔ اسلام سے پہلے ، صدر اسلام میں اور اس
کے بعد سے آج تک ہمیں ایسا کوئی دن نہیں ملتا جو کربلا کی طرح ہو ۔ یہی وجہ
ہے امام حسین علیہ السلام کو سید الشہداء اور بقیہ شہدائے کربلا کو شہدائے
تاریخ کا سردار کہا جاتا ہے جو سب سے عظیم اور سب سے برتر ہیں ۔
چراغ ہدایت او ر نجات کی کشتی
پیغمبر اکرم ؐ کی یہ حدیث مبارکہ یقینا سب نے سنی ہوگی
( ان الحسین مصباح الھدیٰ و سفینۃ النجاہ )
بے شک حسین ( علیہ السلام ) ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہے ۔ یہ صرف
کسی ایک خاص زمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر زمانے میں ایسا ہی ہے ۔ البتہ
بعض زمانوں میں خاص طور پر اس کا جلوہ نظر آتا ہے ۔ جب واقعہ عاشورا پیش
آیا یہ انہیں زمانوں میں سے تھا ۔ علی و فاطمہ کے لخت جگر کا چراغ ہدایت
اور کشتی نجات ہونا ان لوگوں کی سمجھ میں آگیا جو ان کی معرفت حاصل چکے تھے
۔ امام حسین واقعہ عاشورا سے دس سال پہلے امام بن چکے تھے آپ اس وقت بھی
چراغ ہدایت اور کشتی نجات تھے لیکن یہ بات لوگوں کے لئے اتنی واضح اور روشن
نہیں تھی واقعہ عاشورا میں واضح طور پر جلوہ گر ہوئی ۔
غیر جانبدار لوگ
پیغمبر اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا : جب بھی معاشرے کاحکمران ایسا حاکم بن
جائےجو حلال خدا کوحرام اور حرام خدا کو حلال کر رہا ہو ، خدا کے عہد و
پیمان کو پامال کر کے لوگوں پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہو اور کینہ و دشمنی کی
بنیاد پر لوگوں سے بدسلوکی کر رہا ہو ، توجو انسان اس صورتحال کو دیکھ رہا
ہو، اپنی زبان و عمل سے اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کرے ( کان حقا علی اللہ
ان یدخلہ مدخلہ ) خدا کو حق ہے کہ اس شخص کو بھی وہیں رکھے جہاں اس ظالم کا
ٹکاےنہ ہے اور اسے بھی اس کے ساتھ عذاب میں مبتلا کرے ۔ آج بہت سے اسلامی
ممالک میں ظالم و جابر حاکموں کی حکومت ہے جو حلال خدا کو حرام اور حرام
الٰہی کو حلال کرنے میں لگے ہیں ۔ خدا کے عہد کو توڑ کر امریکہ سے عہد و
پیمان کرتے ہیں ۔ ایسے ممالک میں وہ لوگ جو خاموش تماشائی بنے ہیں اور اس
علم کے مقابلے اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھتے یہ لوگ در حقیقت کس زمرے میں
ہیں ؟ یہ سب قوت و طاقت جو خدا کی ملکیت ہے ان افراد کےہاتھ سے نکل کر
غیروں کے ہاتھ میں جارہی ہے ۔ جہاں پر اتنا فساد ہو ظلم و زیادتی اور نا
انصافی ہو وہاں خاموش اور لاپرواہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان نے اپنی
معنوی قوت کو روک لیا ہے اور اسے خدا کی راہ میں خرچ نہیں کر رہا ہے ۔ یہ
پیغمبر اکرم ( ص ) کا بیان ہے کسی اور کا نہیں ۔ حسین ابن علی کا قیام بھی
اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس ظلم و زیادتی اور فساد کے مقابلے اپنی قوت و
طاقت کا استعمال کیا اور انسانیت و تاریخ کو اس بات کا سبق سکھایا کہ اگر
تمہارے سماج میں اس طرح کی صورتحال پیش آئے تو تمہیں کیا کرنا چاہیے !
جہالت اور گمراہی کے خلاف جنگ
امام حسین علیہ السلام کی زیارت اربعین میں ایک جملہ ہے جو اس زیارت کے
دوسرے بہت سے جملوں کی طرح پر معنی اور غور طلب ہے اور وہ جملہ یہ ہے ( و
بذل مھجتھ فیک ) یہ ایک زیارت ہے لیکن اس کے ابتدائی جملے دعائیہ کلمات ہیں
جس میں انسان خداوند متعال سے مخاطب ہو کر کہتا ہے یعنی اے پروردگار ! حسین
ابن علی نے اپنی جان اور اپنا خون تیری راہ میں قربان کیا ( لیستنقذعبادک
من الجھالۃ ) تاکہ تیرے بندوں کو جہالت کی دلدل سے باہر نکالے ( و حیرۃ
الضلالۃ ) اور گمراہی میں سر گرداں ہونے سے بچائے ۔
یہ سکہ کا ایک رخ ہے جسے حسین ابن علی ( علیہ السلام ) کہا جاتا ہے سکے کے
دوسرے رخ کا تعارف اس جملے کے ذریعے کروایا جا رہا ہے ( و قد تزاورعلیھ من
غرتھ الدنیا و باع حظھ بالارذل الادنیٰ ) یہ وہ لوگ تھے جنہیں زندگی کے
فریب نے خود میں مشغول کر دیا تھا ۔ مادی دنیا ، اس کی زرق و برق اور
خواہشات نفسانی نے انہیں خود سے غافل بنا دیاتھا ( و باع حظھ بالارذل
الادنیٰ ) انہوں نے سعادت و خوشبختی جیسے عظیم سرمایہ کو ، جو خدا خلقت کے
ساتھ ہر انسان کو عطا کرتا ہے ، بہت نا چیز اور حقیر داموں میں بیچ دیا تھا
، یہی پیغام حسینی ہے ۔ اگر چہ امام حسین علیہ السلام کا ظاہری مقابلہ یزید
سے تھا لیکن حقیقت میں امام علیہ السلام کا مقابلہ جہالت ، ذلت ، گمراہی
اور انسان کی زبوں حالی سے تھا ۔ امام حسین علیہ السلام ان چیزوں سے مقابلہ
کر رہے تھے ۔
دین کے لئے فدا کاری
عاشورا کا سب سے پہلا سبق دین اور خدا کی راہ میں فدا ہوجانا ہے ۔ عاشورا
کا یہ سب سے واضح درس ہے ۔ ان سخت و حالات میں امام عالی مقام نے تمام
مسلمانوں بلکہ تمام عالم بشریت ، تمام آزاد منش افراد چاہے وہ مسلمان ہوں
یا غیر مسلم ، کو یہ درس دیا کہ اگر انسان کا شرف ، اس کی آزادی اور
استقلال ، انسانی اقدار اور مسلمانوں کا دین خطرے میں پڑ جائے تو ان سخت
شرائط میں بھی دین کا دفاع ایک اسلامی اور انسانی فریضہ ہے۔ یہ نہ کہا جائے
کہ حالات سخت ہیں یہ بہانہ نہ بنایا جائے کہ بہت مشکل ہے ۔ ہو سکتا ہے اور
دین کا دفاع ہمیشہ اور ہر حال میں کیا جا سکتا ہے ۔حسین ابن علی ( ع ) نے
محکم ارادے ، جذبۂ فدا کاری اور شہادت طلبی کے ذریعہ ان سخت حالات میں دین
کا دفاع کاے جب وہ بالکل اکیلے تھے ۔ بنی ہاشم اور قریش کے بزرگوں اور
اصحاب کی اولاد نے بھی امام کا ساتھ نہ دیا ۔ مکہ میں عبد اللہ ابن زبیر ،
مدینہ میں عبد اللہ ابن جعفر اور عبد اللہ ابن عمر یعنی وہ افراد جن کے باپ
صدر اسلام کی قد آور اور نامی شخصیتیں تھیں اور لوگوں کی چشم مید ان پر لگی
ہوئی تھی ۔ یہ وہ لوگ جن سے لوگوں کی امیدیں وابستہ تھیں لیکن یہ سب لوگ
یزیدی ظلم کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونے پر تیار نہ ہوئے اور پیغمبر کی نصرت
پر آمادہ نہ ہوئے ۔
کیا حسین ابن علی ان کی نصرت کی امید لگائے بیٹھے تھے ؟ کیا ان کے مدد نہ
کرنے سے امام اپنے عمل سے دستبردار ہوجاتے ؟ نہیں امام نے ایسا کچھ بھی
نہیں کیا ۔ جب بیچ راستے ہی میں امام کو خبر ملی کہ اب کوفے والے ان کا
ساتھ نہیں دیں گے اور وہ اکیلے رہ گئے ہیں تو وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ جب کربلا
کے اس بیابان میں ان کے تمام ساتھی شہید ہوگئے اورصرف چند خواتین یا بچے
باقی بچے تو اس وقت بھی دفاع اور جہاد کو جاری رکھا اگر آخری وقت تک بھی
امام راضی ہوجاتے اور سر تسلیم خم کر دیتے تو یزیدی آپ کی ہر بات فوراً مان
لیتے ۔ لیکن امام نے اپنی جان دیدی اپنے خاندان کا اسیر ہونا گوارا کر لیا
لیکن گوارا نہ کیا کہ خدا کے دین پر آنچ آئے ۔ یہ کربلا کے واقعہ ان لوگوں
کیلئے ایک عظیم درس جو دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ۔ |