آج کے دور میں جوانی کا موضوع
اور اس کی قدر وقیمت تمام ملتوں اور اقوام کی زبان پر ہے اور ہر جگہ نسل
جوان کا چرچا ہے ۔اس لئے محقیقن،مفکرین اور مصنفین نے ان کے بارے میں گونا
گون علمی بحثیں کی ہیں۔
ان میں سے بعض افراد نے تند روی سے کام لے کرجوا نوں کو اپنے شائستہ مقام
ومنزلت سے بلند تر کر دیا ہے اور کچھ لو گوں نے تفریط سے دو چار ہوکر
ناپختگی اور علمی وعملی ناتجربہ کاری کے سبب جوانوں کو ان کے اصلی مقام سے
گرا دیا ہے ۔ایک تیسرا گروہ بھی ہے جس نے اس سلسلہ میں درمیانی راستہ
اختیار کیا ہے۔
دین کے پیشواؤں نے جوانی کو خدا وند متعال کی ایک گرانقدر نعمت اور انسانی
زندگی کی سعا دت کا عظیم سر مایہ جانا ہے اور اس مو ضوع کے بارے میں مختلف
عبارتوں میں مسلمانوں کویاد دہانی کرائی ہے۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فر ما یا:
''میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ نوجوانوں اور جوانوں کے ساتھ نیکی کرو،کیونکہ
ان کا دل نرم اور فضیلت کوقبول کرنے والا ہو تا ہے۔خدا وند متعال نے مجھے
رسالت پر مبعوث کیا کہ لوگوں کو رحمت الہٰی کی بشارت دوں اور انھیں خدا کے
عذاب سے ڈرا ؤں۔جوا نوں نے میری بات کو قبول کر کے میری بیعت کی لیکن
بوڑھوں نے میری دعوت کو قبول نہ کرتے ہوئے میری مخالف کی ۔
علی علیہ السلام نے فر مایا:
''دو چیزیں ایسی ہیں جن کی قدر وقیمت کوئی نہیں جانتا،مگر وہ شخص جس نے ان
کو کھودیا ہو اسے معلوم ہے ان کی قدرو قیمت کیا ہے:ان میں سے ایک جوانی ہے
اور دوسری تند رستی۔
جب محمد ابن عبداللہ ابن حسن نے قیام کیا اورلوگوں سے اپنے لئے بیعت لے لی
توامام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں آکر ان سے بیعت لینے کی درخواست
کی لیکن امام نے قبول نہ کرتے ہوئے انھیں چند نصیحتیں کیں،ان میں سے ایک
نوجوانوں کے بارے میں نصیحت بھی تھی ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
''تمھیں جوانوں کو اپنے ساتھ رکھنا چاہئے اور بوڑھوں سے دوری اختیار کرنی
چاہئے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی یہ نصیحت بذات خود جوانوں کی قدر وقیمت اور
اہمیت واضح کرتی ہے اور خدا وند متعال کی اس بڑی نعمت کی طرف متوجہ کرتی
ہے۔اسی لئے رسول خدا ؐ ابو ذر سے فرماتے ہیں:
''پانچ چیزوں کو کھو دینے سے پہلے ان کی قدر کرو،اوران میں سے ایک جوانی
بھی ہے کہ بڑھا پے سے پہلے اس کی قدر کرو…
قیامت کے دن ہر انسان سے جوانی کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:
''قیامت کے دن کوئی بندہ مندرجہ ذیل سوالات کا جواب دئے بغیرایک قدم بھی
آگے نہیں بڑھ سکے گا:
١۔اس نے اپنی عمر کس کام میں صرف کی ؟
٢۔اس نے اپنی جوانی کس طرح اورکہاں گزاری ؟
پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ
اسلام نے جوانی کی طاقتوں کو کس قدر اہمیت دی اور توجہ دی ہے،کیونکہ اس
گرانقدر سرمایہ کو ضائع کرنے کے سلسلہ میں قیامت کے دن خاص طور پر سوال کیا
جائے گا۔
جی ہاں،اخلاقی اقدار اور انسانی صفات کے مالک جوانوں کی قدر ومنزلت، پھولوں
کی ایک شاخ کی مانند ہے جو عطر وخوشبو سے لبریز ہے،تازگی کے علاوہ ،اس کی
فطری خوبصورتی اور حسن و جمال بھی معطر ہے۔لیکن اگر جوانی الہٰی اقدارکی
مالک نہ ہو،تو اس کی مثال کانٹوں کی سی ہے جن سے ہرگزکوئی محبت نہیں کرتا۔
رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
''با ایمان شخص کے لئے ضروری ہے کہ اپنی طاقت سے اپنے لئے استفادہ کرے اور
دنیا سے اپنی آخرت کے لئے، جوانی سے بڑھاپے سے پہلے اور زندگی سے موت سے
پہلے استفادہ کرے۔
رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا:
''فرشتہ الہٰی،ہر شب بیس سالہ نوجوانوں سے مخاطب ہوکر فریاد کر تا ہے کہ
سعی وکوشش کرواور کمال وسعادت تک پہنچنے کے لئے کو شش کرو۔
اس لئے،جوانی کا دور،انفرادی مسئولیت ،بیداری،ہوش میں آنے اور عمل وکوشش کا
دور ہے اور جو لوگ اس الہٰی طاقت سے استفادہ نہیں کریں گے،انھیں سر زنش کی
جائے گی۔
خدا وند متعال فرماتا ہے :
(ولم نعمّرکم مایتذکّر فیہ من تذکّر)(سورہ فاطر آیت 37)
''…تو کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس میں عبرت حاصل کرنے والے
عبرت حاصل کرتے؟''
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
''یہ آیت ان غافل نو جوانوں کی سرزنش و ملامت کے لئے ہے جو اٹھارہ سال کے
ہو گئے ہیں اور ابھی تک انہوں نے اپنی جوانی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ |