فلسطین میں بربریت۔ خون ِشہیداں کی پکار
(Professor Masood Akhter Hazarvi, luton)
سرزمین فلسطین زیتون کے درختوں
سے آراستہ وہ بابرکت خطہ زمین ہے جو ہماری عظمت رفتہ اور جنت گم گشتہ کا
پتہ دیتا ہے۔اسے بیشمار انبیاء کا مدفن اور مسجد اقصیٰ کوہمارا قبلہ اول
ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہاں پر ہی ہمارے آقا و مولاﷺنے انبیاء و رسل کی
امامت کراکے”امام الانبیاء“ کا لقب پایا۔ بالفاظ قرآنی جس کے ارد گرد ر
برکتوں کی رم جھم ہر دم جاری رہتی ہے۔ اس زمین کے درو دیوار فاتح اول حضرت
فاروق اعظمؓ کی عظمت ِشان اور شوکتِ اسلام کے گواہ ہیں۔ یہی وہ گوشہ ارضی
ہے جس پر سلطان صلاح الدین ایوبی کی تکبیریں گونجیں اور مسجداقصیٰ کو آزادی
نصیب ہوئی۔آج سرزمین فلسطین لہو لہو ہے۔ غزہ پر اسرائیلی وحشت و بر بریت
جاری ہے۔ اقرباء شہید اور زخمی ہو رہے ہیں۔ گھروں کو مسمار کیا جا رہا
ہے۔مظلوم اور نہتے فلسطینی ناکردہ جرم کی سزا بھکت رہے ہیں۔ لیکن اقوام
متحدہ سمیت کسی ملک یا تنظیم کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی کہ ظالم کے
ہاتھوں کو روک سکیں۔ اس موقع پر بے حسی یقینا قابل مذمت ہے لیکن مظلوموں کو
قصور وار ٹھہرانا اوربھی قابل مذمت ہے۔
اس حقیقت کو ہر مذہب و ملت کے پیروکار مانتے ہیں کہ اپنی زمین کی حفاظت
کرنا انسانی حقوق کا بنیادی حصہ ہے۔ دنیا کی معلوم تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ
جن لوگوں نے اپنی آزادی کی تحریکوں میں سرفروشی کا مظاہرہ کیا وہ ہیرو مانے
گئے۔ لیکن یہ کتنا بڑا انسانی المیہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کی سرزمین پر
ناجائز قبضہ کیا۔ جب فلسطینی اپنی آزادی اور زمین کی واپسی کیلئے آواز بلند
کریں تو انہیں نہ صرف دہشت گرد کہا جا تا ہے بلکہ حقوق انسانی کا واویلا
کرتے نہ تھکنے والے با اثر ممالک انہیں ”دہشت گرد“ مانتے بھی ہیں۔ ہوا یہ
کہ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کئی ممالک کو اپنے تسلط سے آزادی دی۔
لیکن فلسطین کے حوالے سے نا انصافی کا وہ کھیل کھیلا گیا جو تاریخ انسانی
کے ماتھے پر بد نما داغ ہے۔ اِدھر فلسطین کی آزادی کا اعلان اور ساتھ ہی پس
پردہ صیہونی ریاست ”اسرائیل“ کا قیام عمل میں لاکر فلسطینیوں کو ایک نئی
آزمائش میں ڈال دیا گیا۔یہ آزادی کے نام پر وہ بد ترین مذاق تھا جس کی سزا
آج تک فلسطین کے نہتے مسلمان بھگت رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ کہ ہٹلر
کے اقدامات کے بعد یورپ یہودیت کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہ تھا۔ ناجائز
طور پر معرض وجود میں آنے کے بعد گزشتہ چھ دہاہیوں سے زیادہ عرصہ میں
امریکہ اور یورپ کے تعاون سے اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کے خلاف اس
بربریت کا مظاہرہ کیا کہ جس نے چنگیزی مظالم کو بھی شرما دیا۔ کوئی طاقت
غزہ کے حرماں نصیب باسیوں کا سہارا نہیں بن رہی اور آج تک یہ سلسہ جاری ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محض Mass Destruction weapons کے الزام پر عراق کی
اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی گئی۔ تو پھردنیا میں انسانی حقوق کے ٹھیکیدار
بتائیں کہ انہیں ہتھیاروں کے باضابطہ استعمال کی بناء پر اسرائیل کے خلاف
کیا کاروائی نہیں ہونی چاہیے؟ انسانی حقوق کی تنظیموں اور کمشنز کو غزہ میں
ہر طرف بکھری پڑی مسلمانوں کی لاشیں کیوں نظر نہیں آتیں؟ کہیں ان کی آنکھوں
پر اسلام دشمنی یا تعصب کی پٹی تو نہیں بندھی ہوئی۔
یقینا غزہ کی سرزمین پر معصوم بچوں کی بے گور و کفن لاشیں اور خاک و خون
میں لتھڑے اورجگہ جگہ بکھرے اعضاء پوری امت مسلمہ کیلئے تازیانہ عبرت اور
لمحہ فکریہ ہیں۔ عالمی طاقتوں نے جس طرح اسرائیل کی حمائت جاری رکھی ہوئی
ہے وہ امت مسلمہ اور بالخصوس عرب ممالک کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ اسر ائیلی
درندگی تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ غزہ پر اب زمینی کاروائی بھی ہو رہی ہے۔ آج
فلسطینی بہن بھائیوں کی امید بھری نظریں امت مسلمہ پہ لگی ہیں۔ ہماری
فلسطینی مائیں اور بہنیں ہماری رہ دیکھ رہی ہیں کہ وہ محمد بن قاسمؒ کہاں
جو ایک بہن کی پکار پر راجہ داہر سے مقابلے کیلئے پہنچ گیا تھا۔ آج مسجد
اقصیٰ پھر کسی سلطان صلاح الدین ایوبی ؒکی منتظر ہے جو اسے آزاد کرادے۔
لیکن مجال ہے کہ اس ظلم کے خاتمے کیلئے کوئی مؤثر آواز بلند کی جائے یا
کوئی عملی قدم اٹھایا جائے۔ اس وقت محسوس تو یوں ہوتا ہے کہ طاغوتی طاقتیں
کہیں دوستی اور کہیں دشمنی کے لبادہ میں بزعم خویش مسلمانوں کی نسل کشی کر
کے انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی ہیں۔ لیکن مسلمان حکمران عیاشیوں
میں مبتلا اور عوام فیفا ورلڈ کپ کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اور حسب سابق امت
مسلمہ خواب غفلت کا شکار ہو کر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ شاید
اسی لئے ہمارا خون سستا ہو چکا ہے، جب چاہے بہا دیا جائے۔ رمضان شریف کے اس
بابرکت مہینے میں بھی ہمارے فلسطینی بھائی اور بہنیں اپنے پیاروں کی لاشیں
اٹھا اٹھا کے تھک چکے ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد فلسطین کے
مسلمانوں نے فخر سے اسرائیل کو پیغام دیا تھا کہ اب ہمارے ہاتھوں میں
سنگریزے ہی نہ دیکھو پاکستان کے ایٹم بم کو بھی دیکھو۔ لیکن بصد افسوس کہ
پاکستان خود اپنوں کی نادانیوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے گھنبیر
مسائل کا شکارہو کر اپنی بقاء کی جنگ لڑرہا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ
مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو بحال فرمائے۔ مسلمانوں کو اتحاد اور اتفاق کی
توفیق نصیب ہو۔کشمیر اورفلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو ظلم و بربریت سے نجات
اور آزادی کی نعمت ملے اور ہمیں بحیثیت امت اجتماعی بے حسی کے اس عالم میں
احساس زیاں کو سمجھنے اور تلافی مافات کی توفیق نصیب ہو۔
اے خاصہ خاصان رسل، وقتِ دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
وہ دیں جو بڑی دھوم سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے |
|