میرے والد محترم قبلہ سید غلام
حضور المعروف بابا شکرالله‘ کتاب دوستی میں اپنی مثال آپ تھے۔ ان کے ذخیرہء
کتب میں‘ جہاں مطبوعہ کتب تھیں‘ وہاں ان کے بڑوں کے ہاتھ سے لکھے‘ قلمی
نسخے بھی تھے۔ وہ یہ سب‘ جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ ان کے انتقال پرملال
کے بعد‘ یہ سب حالات زمانہ کا شکار ہو گیا۔ میرے ہاتھ بس دوایک ڈبے لگے۔ اب
عمر کے آخری ایام میں‘ مجھے اس سرمائے کو محفوظ کرنے کا خیال آیا۔ کیوں
آیا‘ یہ الگ سے کہانی ہے۔ اگر زندگی نے مہلت دی‘ تو یہ سب انٹرنیٹ پر رکھنے
کی سعی کروں گا ورنہ ردی چڑھ جائے گا یا ڈاکٹر مس کال جیسے شخص کے ہاتھ لگ
جائے گا‘ جو میرے ہی گھر والوں سے‘ رقم بٹور‘ کر اپنے نام سے چھاپ لے گا۔
اردو‘ پنجابی قلمی نسخےاور میرا لکھا اس کے تصرف میں آ سکے گا‘ لیکن سیکزوں
سال پرانے پرانے فارسی نسخوں کا کیا بنے گا۔ خیر جو ہو گا‘ بہتر ہی ہو گا۔
زندہ رہا تو ضرور کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کروں گا۔ مجھے میری جہالت نے
ہیشہ خوار کیا ہے۔ اہل قلم کو‘ جہالت کے سبب‘ میری بےپسی سے سبق لینا
چاہیے۔ انہیں حال میں موجود کو‘ اسی طرح کسی منفی یا ذات سے جڑی غرض کو
بالائے طاق رکھ کر‘ مستقبل کو منتقل کر دینا چاہیے۔ دیر بعد سہی میں نے
آغاز کر تو دیا ہے۔
اردو کے داستانی ادب میں‘ فورٹ ولیم کالج کی داستانیں‘ زیادہ تر ریکارڈ میں
آئی ہیں۔ بیرون میں رجب علی بیگ سرور کی داستان کو شمار میں رکھا گیا ہے۔
بابائے اردو نے ملا وجہی کی نثری داستان‘ سب رس کو داستانی ادب کا حصہ
بنایا ہے۔ یہ اردو میں ہے یا نہیں‘ قطعی الگ سے بحث ہے۔ سرکاری کارخانوں سے
ہٹ کر بھی کام ہوتا رہا ہے۔ محقق حضرات کی نظر‘ اس جانب بہت ہی کم گئی ہے۔
علامہ اقبال کو باطور شاعر سب جانتے ہیں‘ لیکن علامہ مشرقی بھی شاعر تھے‘
کوئی نہیں جانتا۔ یہ ہی صورت فارسی کے فردوسی کی ہے۔ غیر سرکاری شخص‘ خواہ
اس کی علمی وادبی حیثیت کچھ بھی رہی ہو‘ ریکارڈ میں نہیں آ سکا۔
کاغذ پر لکھا معمولی پرزہ بھی‘ اپنی حیثیت میں بےکار محض نہیں ہوتا۔ زبان
کی ورائٹی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بدن پر معلومات سجائے اور بچھائے
ہوتا ہے۔ ابا حضور کے کتابی ورثے سے‘ ایک اٹھائیس صفحات کا رسالہ دستیاب
ہوا ہے۔ اس کے پہلے دس صفحے پھٹے ہوئے ہیں۔ صفحہ گیارہ سے‘ تخلیق آدم کا
قصہ شروع ہوتا ہے اور یہ صفحہ ستائیس پر ختم ہوتا ہے۔ صفحہ٢٨ پر کتابوں کی
فہرست اور آخر میں ناشر کا اتا پتا درج ہے۔ اسی لیے میں اسے‘ قصہ آدم کا
نام دینے کی جسارت کر رہا ہوں۔ یہ دراصل فارسی سے اردو ترجمہ کیا ہوا ہے۔
اس کی اصل خوبی یہ ہے کہ یہ دو کالمی ہے۔ پہلے کالم میں‘ اصل متن درج ہے‘
جب کہ دوسرے کالم میں اردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ صفحہ ستائیس پر جہاں قصہ
تمام ہوتا ہے‘ وہاں ناشر نے اپنی طرف سے فقط چار سطور میں کچھ لکھا ہے اور
اس کے بعد اپنا پنجابی میں‘ آٹھ اشعار پر مشتمل حمدیہ کلام درج کیا ہے۔
ناشر کی چار سطور ملاحظہ فرمائیں:
حمد وشکر کے بعد واضح ہو کہ یہ کتاب بعد الجہان پورانی قلمی کوشش ہےاسکو
تلاش کی۔ اور اسکا ترجمہ کرا کے۔ آدھے کالم میں فارسی اور آدھے کالم میں
اردو بڑی کوشش کے ساتھ چھپائی۔ الله صاحب اس عاجز کی کوشش کو قبول فرمائے۔
اسکا کوشش کرنیوالا فقیر فضل حق ابن حاجی محمد علاؤالدین
صفحہ ٢٨ سے معلوم ہوتا ہے یہ تاجرکتب ہیں اور ان کا کتب خانہ پتو منڈی
نوآباد ضلع لاہور تحصیل چونیاں میں تھا۔ گویا
اس کتاب کا نام بعد الجہان تھا۔
قلمی نسخہ تھا جو پرانا تھا۔
دستیاب نہ تھا۔
فقیر فضل حق کے علم میں یہ کتاب تھی اور وہ اس سے دل چسپی رکھتے تھے اسی
لیے اس کا کھوج لگایا اور شائع کی۔
اس جگہ کا موجودہ نام پتوکی ہے۔ گزٹ ١٨٨٥ کے مطابق یہ بہت بڑی کاٹن کی منڈی
تھی اور معروف تھی‘ نوآباد نہ تھی۔ گویا کتاب کی طباعت نوآباد کے حوالہ سے‘
١٨٨٥ سے پہلے کی ٹھہرتی ہے۔ اس حساب سے‘ اصل فارسی تخلیق سو پچاس سال اس سے
پیچھے جاتی ہے۔ فارسی اسلوب تکلم حیرت انگیز طور پر سادہ اور عام فہم ہے۔
مثلا یہ جملے باطور نمونہ ملاظہ ہوں:
مار سیاہ دہن کشادہ ابلیس جست زدہ در دہن او جا کرد۔ بمجرد رفتن لعاب در
دہن ابلیس کرد۔ کہ ازاں زہر پیدا شد چوں طاؤس گفت خوب کردی۔ ازیں سخن پائے
او سیاہ شدند۔
مترجم کے متعلق آخر میں معلومات موجود ہیں:
محمد حسن۔
ساکن نشیب لبیہ۔ ضلع مظفر گڑہ۔
حال مدرس
مترجم نے‘ کلی طور پر لفظی اور بامحاورہ ترجمہ نہیں کیا ہے‘ تاہم ترجمہ بے
لذت اور بے ذائقہ بھی نہیں ہے۔ مترجم نے‘ اردو فارسی اشعار‘ حکایات اور
موقع کے مطابق احکامات کا اضافہ کیا ہے۔ ترجمے میں ایک دو جگہ پر‘ عجلت کا
گمان گزرتا ہے۔ وقفے کے علاوہ‘ کسی علامت کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ علامتیں
ان کے ہاں مستمل نہیں ہوں گی یا اصل کی ییروی میں‘ صرف سکتے سے کام لیا گیا
ہے۔
اس قصے کے بعض مندرجات سے کوئی متفق ہو یا ناہو‘ اس میں داستانی لوازمات
بہرطور موجود ہیں۔ تمام کردار‘ اپنے ہونے اور اپنے کیے کا احساس دلاتے ہیں۔
کہانی میں دل چسپی کا عنصر موجود ہے۔ رائٹر موقع ملتے ہی‘ موقع کے مطابق
اخلاقی پیغام بھی چھوڑتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ باقاعدہ ایک پلاٹ
پر استوار ہےاور اس میں ایک باربط کہانی موجود ہے۔ اسے اردو کے داستانی ادب
میں‘ ایک اہم اضافہ قرار دینا غلط نہ ہو گا۔
اس قصے کے مطالعہ سے‘ قابل غور اور الگ سے معلومات بھی میسرآتی ہیں۔ معروف
یہ ہی چلا آتا ہے‘ کہ دانہءگندم پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے کھایا‘ جب کہ
اس قصہ سے معلوم ہوتا ہے‘ کہ دانہءگندم پہلے اماں حوا نے کھایا۔ اسی طرح یہ
بھی پتا چلتا ہے‘ کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پانچ سو جفت یعنی ہزار
اولادیں تھیں۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے‘ کہ بت پرستی کا آغاز قابیل سے ہوا۔
مزید چند ایک مثالیں ملاحظہ ہوں۔
جب فرشتوں نے سر اٹھایا۔ تو شیطان کے گلے میں ستر٧٠ من لعنت کا طوق پڑ گیا۔
جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کیا۔
پہلا کلمہ الله واحد لاشریک ہے آدم صفی الله کا ہے۔ دوسرا کلمہ الله تعالے
واحد اسکا کوئی شریک نہیں محمد بندہ الله کا ہے پیغمبر ہے جن کا۔
آدم اور حوا کو آسمان پر باغ عدن بہشت میں لاؤ۔
اسوقت بہشت سے باہر جانا بغیر گندم کہانے کے محال تھا۔ حوا نے کہا لیا۔ مگر
ادھا دانہ نہ کہایا تھا۔
آدم نے بھی دانہ باقیماندہ نصف کہا لیا بوجہ۔۔۔۔ تو اسکو پاخانہ کی حاجت پڑ
گئی۔
آخر بعد ستر برس کے حوا اور آدم کی ملاقات ہوئی۔
کابیل کو چونکہ محبت تہی لاش کو پھینکنا ناگوار سمجہکر اپنی پشت پر اٹھا
لیا۔ چنانچہ چھ ماہ کا عرصہ گذر گیا۔
جبرائل بحکم رب جلیل انکو بہشت میں لیگیا۔ تین ہزار برس عدن میں آدم علیہ
السلام رہے
کہتے ہیں کہ حضرت آدم فرزند پانچسو جفت تھے۔
عورتیں دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں۔
اور کہا کہ ہر صبح نہا کر طعام کھانا اور اس بت کو سجدہ کرتے رہنا۔
لفظوں کی املا مختلف تھی۔ مثلا
خود میں ان کا سر طیار کروں گا۔
نوں غنہ کا حشوی استعمال موجود نہ تھا۔ مثلا
دونو کوے قابیل کے روبرو لڑتے ہوئے
ما باپ بیٹا ایکدوسرے کو دور کر دے گا۔
نون غنہ کی جگہ‘ لون کا استعمال بھی کیا جاتا تھا۔ مثلا
میں اس زمانہ عیش و عشرت کر لون۔
لفظوں کو ملا کر استعمال کرنا عمومی اور مستعمل رویہ تھا۔ مثلا
نیچے سے تمکو دکھائی دیگا
سوچکر کہنے لگا۔
اس گھر رحمت نہیں اتریگی۔
گندم کہانیکی وجہ سے
اپنا ہی ہر ایک بوجھ اوٹھائیگا۔
ایکدفعہ بہشت میں جانے دو
قابیل نے دیکہکر ویسا کیا۔
بعض لفظوں کا استعمال اور تفہیم‘ آج سے الگ تر ہے۔ مٹلا
آدم کا برحال رہا۔
قبر کے کھودنے کی تجویز کابیل کو معلوم نہ تہی۔
شیطان پروردگار جل عزاسمد کے مخالف اصلاح کرنے لگا۔
فرشتوں نے خدائے عزوجل کے حکم سے آدم کے قد کو بنایا
زمین پر ڈالدے تا کہ میرے قد کا معائنہ کریں۔
انہوں نے مٹی بودار دم کی
تجہے موت کیچاشنی دونگا۔
اسواسطے کہ میں نہائت رضامند ہوں آدم سے۔
دونوں کلمہ کا حفظ کیا کرو
میوہ وغیرہ کا ناشتہ کرو
شیطان نےسانپ کے ہاں کہا تھا
بہشت کے باہر آدم کی جستجو کریں۔
دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں
قدیم اور جدید اردو میں‘ مونث اور مذکر کا استعمال مختلف ہے‘ یہ استعمال
اپنی اصل میں درست ہے‘ لیکن آج رائج نہیں۔ مثلا
تجہکو خوف نہیں آئی تو ملعون ہوا ہے۔
بہشت کے دربان کے پاس امانت جا رکھا۔
جب حوروں نے آواز سنا
محاوروں کا استعمال اور معنوی بعد بھی موجود ہے۔
سب کو ہاتھ افسوس ملنا پڑے گا۔
اسنے کوے کو وہیں گاڈ دیا۔
ایک سنگ راست کرکے انکو دیدیا
حیض کی بیماری عارض ہو گئی۔
ہر صبح نہا کر طعام کھانا
آدم کو بہی جستجو کیا تو نہ پایا۔
اپنی جگہ کرتے ہی سانپ کے منہ میں لعاب ڈالدی۔
تم زمین پر جا ٹھہرنا
یہ عمل درآمد کرکے آسمان جانا کیا۔
بولنا بھی صلیب کو پہونچاتا ہے
گردن موڑنا موجب غضب ہے۔
خواب نہیں کرتا تھا
پاخانہ کی حاجت پڑ گئی۔
تسبیحیں کہتے تھے۔
حور سے پرہیز کر گیا ہے
پرہیز کر گیا کو تعلق کی استواری کے لیے لیا گیا۔
سابقوں اور لاحقوں کا استعمال آج سے قطعی مختلف ہے۔ مثلا
جبرائیل نے غصہ ناک ہو کر
بیفرمانی کے بہشت سے بہت اہانت کے ساتھ نکالنے والے ہیں۔
کابیل۔ تو بیفرمان ہو گیا ہے
ضمائر میں واؤ کی بڑھوتی کر دی جاتی تھی۔ مثلا
متکبر اونکو پست سمجھے۔
اونہوں نے کہا
اوس نے کہا مجہکو اتنی طاقت ہے۔
اون کی ناف پر اپنے منہ سے لعاب نکالکر لگا لی
مصادر میں بھی‘ واؤ کی بڑھوتی موجود تھی اور یہ عمومی اور مستعمل چلن تھا۔
مثلا
جسوقت نیند میں ہووے
خطا پاوے جو وہ ناری ہے
آدم بہشت میں جاویگا۔
پرانی اردو میں‘ بھاری آوازوں سے زیادہ‘ ہلکی آوازوں کا استعمال کیا جاتا
تھا۔ اس کتاب سے‘ اس ذیل میں‘ چند ایک مثالیںملاحظہ ہوں:
تم مسلمان کبہی نہیں ہو گے بھ
تہوڑے دنوں کے بعد تھ
ایک روز حوا رضی الله عنہا بیٹہے تھے ٹھ
مجہے اس بت سے بدبو آتی ہے۔ جھ
جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کیا۔ جھ
اونہوں نے پوچہا تمہارا کیا نام ہے۔ چھ
ورنہ پچہتانا پڑیگا۔ چھ
یہ نہائت اندہیر کوٹھا ہے۔ دھ
لا حول پڑہتا رہے ڑھ
پھر بہشت کو دیکہوں گا۔ کھ
جب اندر گہس گیا گھ
بھاری آوازیں بھی استعمال میں تھیں۔ مثلا
افسوس میں کوے سے بھی کمتر ہوں۔ بھ
پھر جب ناک کو روح پہونچی پھ
پہلے نار ہی سے تھا تھ
فرشتوں نے سر اٹھایا ٹھ
اونکو پست سمجھے۔ جھ
پوچھنے لگے وہ کہاں ہے۔ چھ
مثلا ہاتھ دھونا۔ منہ دھونا۔ دھ
دربان کے پاس امانت جا رکھا۔ کھ
سو جس گھر کتا ہو گا گھ
فصل در بیان مہتر آدم علیہ السلام اور ہابیل اور کابیل کے بیانمیں
فرماتا ہے پروردگار۔ اے آدم خبر دی اونکو شیطان کے نام سے جب آدم نے نام
بتلائے تو حکم سجدہ کا ہوا۔ جب چوتھی قرن کی آمد ہوئی تو خداوند تعالی نے
حکم دیا جبرائیل میکائیل اسرافیل عزرائیل عزازیل کو کہ تم زمین پر جا
ٹھہرنا۔ فرشتوں نے حسب فرماں رب الجلیل زمین پر آتے ہی حکم سنا ایک مرد
دریا کے نیچے سے تمکو دکھائی دیگا وہ نورمحمد علیہ السلام ہو گا۔ اور گل
آدم ہو گی اوسکو لیکر آدم کا اعصا راست کرنا۔ اگر تمکو کچھ راست کرنیکی
تجویرید ہو۔ تو ستارہ جو آدم کے قد موافق ہیں انکے برابر بنانا۔ اور خود
میں ان کا سر طیار کروں گا۔ فرشتوں نےیہ عمل درآمد کرکے آسمان جانا کیا۔
بعد اسکے عزازیل کے دلمیں آیا۔ کہ کل کو یہ گل آدم بہشت میں جاویگا۔ ہم کیا
کرینگے۔ اس حالت اسکے غم پیدا ہوا۔ چاہا کہ کسی اٹکل سے اسکو لائق بہشت کے
نہونے دیں۔ سوچنے کی بات ہے۔ تکبر یہ ہے کہ جسکا مرتبہ خدا عزجل نے علو کو
پہونچایا ہو۔ متکبر اونکو پست سمجھے۔ فی الحقیقت وہ حق کے مخالف کرنیکی وجہ
سے متکبر خدایتعالی کا مقابل بن گیا ہے۔ ۔۔۔۔چاہیے کہ حکم خدا کے سرکشی سے
باز رہیں۔ ورنہ تکبر یہی ہے بعینہ اس غدر سے خطا پاوے جو وہ ناری ہے ۔۔۔۔۔
وہ طوق عزازیل اسکے گلے ہو۔ خبیث اور ملعون کہینگے۔ ص- ١١
یہی سوچ کر کہ بہشت کے لائق نہو۔ گھوڑوں کی طرف گیا۔ انکے ہاں کہنے لگا کہ
تم خوشی کر رہے ہو۔ اور تمہارے واسطےآدم پیدا ہو چکا ہے۔ کل تمہاری پیٹھ پر
سواری کریگا۔ تمکو تکیف پہونچا دے گا۔ اونہوں نے جواب دیا کہ ہمارے مالک کی
خوشنودی اسی میں ہے تو ہم نہایت رضامندی سے انکا محکوم ہونا پسند کرینگے۔
شیطان نے سوچا میرا داؤ یہ تو نہ لگا۔ کوئی اور تجویز کرنی چاہیے۔ سوچکر
کہنے لگا۔ عجب ہے کہ تم اورآدم ایک خالق کی پیدائش ہیں۔ وہ آدم تم پر سواری
کر۔ لایعقل گھوڑوں نے داؤ کھا لیا۔ پوچھنے لگے وہ کہاں ہے۔ ابلیس ملعون نے
کہا کہ جو ناف زمین کا ہے وہاں ہے۔ جھٹ دوڑ کر پاش پاش کر دیا۔ پھر بارہ
سال کے عرصےکے بعد سب فرشتوں کو حکم ہوا۔ کہ دوسری دفعہ آدم کا بت بناؤ۔
شیطان پروردگار جل عز اسمد کے مخالف اصلاح کرنے لگا۔ اور کہا اے میرے رب
اگر حکم ہو تو نور یا نار یا ہوا یا پانی سےآدم کا بت بنائیں۔ اسواسطے کہ
زمین مین بےزبان جانور ہیں۔ انکو توڑ ڈالتے ہیں۔ خطاب عزوجل ہوا۔ الا یہ
میں خوب جانتا ہوں تمکو خبر بہی نہیں۔ آدم کا قد پہلی طرح بناؤ۔ دیکہو یہ
اصلاح مخالف رب تعالے ابلیس کر رہا ہے۔ یہی مرحبا ہو ہے۔ ص۔ ١٢
مخالف حکم رب الجلیل اپنی رائے اور اصلاح کو دخل دینا موجب ہلاکت ہے۔ اس سے
پرہیز کرنا۔ شیخ سعدی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں۔ بیت
اگر شاہ روز را گوند شب است ایں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ببائید گفت اینک مہ پرویں
مخالف صلاح کو کہاں۔ بولنا بھی صلیب کو پہونچاتا ہے۔ فرشتوں نے خدائے عزوجل
کے حکم سے آدم کے قد کو بنایا۔ لکن بنا کر واپس آسمان پر اپنے اپنے مکان پر
چلے گئے۔ ابلیس اکیلا آدم کے پاس رہا۔ جب آدم اکیلا ہوا تو اون کی ناف پر
اپنے منہ سے لعاب نکالکر لگا لی پھر آسمان پر چلا گیا۔ پھر دس برس کے بعد
الله تعالی کا حکم ہواکہ اے جبرائیل میکائیل سب جا کر علیتیں جو مقام چوتھے
آسمان پر ہے وہاں سے روح آدم علیہ السلام کا لیکر انکے بدن میں ڈالو۔
جب فرشتے پروردگار کے حکم سے روح پاک کو پردہ میں لیکر بت کے قریب لائے۔ تو
روح القدس کو جسوقت ڈالنے لگے اس نے کہا کہ مجہے اس بت سے بدبو آتی ہے۔ خدا
کی جناب میں آدم نے عرض کی اے بار خدایا مجہے بدبو آتی ہے۔ اس سے مجہے پناہ
میں رکھ۔ خدا مہربان نے حکم دیا کہ اے جبرائیل جو جگہ بدبودر ہے اونکو دور
کر دے۔ جب انہوں نے مٹی بودار دم کی تو اس مٹی لعاب شیطان سے کتا پیدا ہوا۔
وہ کتا آواز کرتا بت کے قریب بیٹھ گیا۔ وہ فرشتے روح مقدس کو ساتھ لیکر
آسمان پر چلے گئے۔ حتے کہ ستر برس کے عرصہ تک قد آدم بمعہ سگ وہاں رہا۔
یعنی فرشتوں کو آنے نہیں دیتا تھا۔ ص-١٣
اور وہ کتا کسی فرشتہ اور حیوان کو ساتھ گزرنے نہ دیتا تھا۔ خواب نہیں کرتا
تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کتا ابلیس کی لعاب سے دارمٹی سے ہے۔ شیطان مردودورحمت
سے محروم ہے بلکہ جس جگہ شیطان ہو رحمت نہیں ہو گی۔ سو جس گھر کتا ہو گا
بغیر ضرورت حفاظت یا شکار خواص کے اس گھر رحمت نہیں اتریگی۔ اتفاقا اراوت
ازلی اسکو نیند آ گئی۔ فرشتوں کو حکم ہوا شتابی روح قدس آدم کے بدن میں
ڈالو۔ جب جرائیل حسب فرمان رب تعالے بمعہ مقربان پردہ سے روح مقدس کو لیکر
آئے تو روح مقدس نزدیک بت کے پہونچکر کہا کہ یہ نہائت اندہیر کوٹھا ہے۔ یا
رب تعالے مجہےاپنے فضل سے ایکدفعہ اسی جگہ سے مجہے نکالنا۔ تا کہ میں اس
زمانہ عیش و عشرت کر لون۔ الله تعالے نے حکم دیا کہ تجہے ضرور ایکدفعہ اس
بدن سے نکالوں گا۔ اور وہ نکالنا تمہاری موت ہو گا۔ پروردگار فرماتا ہے سب
چیز کو مرنا ہے مگر الله کو نہیں ہے۔ تجہے موت کیچاشنی دونگا۔ اورآدم کا سر
خدایتعالے نے سنگ مرمر سے راست کیا تھا۔ اسی وجہ سے آدمی کا سر سخت ہوتا
ہے۔ اورجب روح مقدس میں ڈالی گئی۔ تو سر کے راستہ ڈالی گئی۔ ص۔ ١٤
اور ارشاد فرماتا ہے الله تعالے میں نے روح مقدس کو ڈالکر بدن میں آدم کے
کہ اسکوسجدہ کرو۔ جب آدم نے آنکھ کہولی تو روح نے آنکھ کے ذریعہ سے جہان کو
دیکھ کر خوشی حاصل کی۔ پھر جب ناک کو روح پہونچی تو آدم علیہ السلام کو
چھینک آئی۔ تو کہا سب تعریف الله تعالے کی ذات کو ہے جو رب العلمین ہے جب
روح منہ میں آئی تو ہر قسم کی چاشنی گیر ہوئی۔ آدم علیہ السلام نے ویسی ہی
خدائے خالق کی حمد کہی۔ پھر خداے یتعالے نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ
السلام کو سجدہ کرو۔ اسواسطے کہ میں نہائت رضامند ہوں آدم سے۔ بمجرد حکم
حاکم تعالے کےسب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس مردود نے کہا۔ کل میں نے
اپنے ہاتھ سے بنایا ہےیہ مجہے درجہ میں بھی ہے۔ اسی وجہ حقیر جانا۔ اور
احکم الحاکمین کے حکم سے عدول کیا۔ مامون مقہور ہوا۔ حاکم حقیقی کے حکم سے
گردن موڑنا موجب غضب ہے۔ جب غلام حبشی درجہ میں بڑھ جائے تو اسکا حکم عین
پروردگار کا ہوتا ہے۔
اس سے سرکش نہونا ورنہ پچہتانا پڑیگا۔ کسی نے سچ کہا ہے۔ بیت
حکمران ہو کوئی بچاپنا ہو یا بیگانہ ہو
دی خدا نے جسے عزت اسکی عزت چاہئے
ص- ١٥
عزتدار کی ذلت کرنا اپنی ذلت کا موجب ہے۔ جب فرشتوں نے سر اٹھایا۔ تو شیطان
کے گلے میں ستر٧٠ من لعنت کا طوق پڑ گیا۔ معلوم ہوا کہ الله تعالے کے حکم
سے سرکش ہوا ہے۔ جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کیا۔ ابلیس نے عرض کیا آپ کا حکم
ایک سجدہ کا تھا۔ یہ دوسرا سجدہ کیوں کر رہے ہیں۔ حکم ہوا میرے خوف سے سجدہ
میں پڑے ہیں۔ تجہکو خوف نہیں آئی تو ملعون ہوا ہے۔ میرے حکم کو پس پشت کر
دیا ہے۔ میں نے تجہے مردود کیا ہے۔ تیری عبادت دنیا میں تجہے دوں گا اور
آخرت میں تو عذاب الیم کا مستحق ہو گا۔ پھر عزازئیل کہ نام انکا پہلے نار
ہی سے تھا۔ آدم علیہ السلام سے بھاگ گیا۔ تہوڑے دنوں کے بعد جبرائیل نے آدم
علیہ السلام کو یہ کلمے سکھائے وہ یہ ہیں۔ پہلا کلمہ الله واحد لاشریک ہے
آدم صفی الله کا ہے۔ دوسرا کلمہ الله تعالے واحد اسکا کوئی شریک نہیں محمد
بندہ الله کا ہے پیغمبر ہے جن کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سمجہایا کہ ان دونوں کلمہ کا حفظ کیا کرو جب آدم علیہ السلام زمین پر
سو گئے تو انکے بائیں کروٹ سے حوا رضی الله عنہا پیدا ہوئی۔ پھر جلدی خدا
کا حکم ہوا کہ اے جبرائیل آدم اور حوا کو آسمان پر باغ عدن بہشت میں لاؤ۔
جبرائل بحکم رب جلیل انکو بہشت میں لیگیا۔ تین ہزار برس عدن میں آدم علیہ
السلام رہے جبکہ رب تعالے ارشاد فرماتا ہے یاد کرو اے محمد کیا ہمنے اے آدم
بمہ اپنی جورو بہشت میں رہ ص ١٦
میوہ وغیرہ کا ناشتہ کرو اور اس درخت کے قریب ہرگز نہ جانا۔ نہیں تو ظالم
ہو جاؤ گے۔ جب گذرنے کو مدت پہونچی تو ایکدن عزازئیل ایک گوسفند لیکر بہشت
کے دربان کے پاس امانت جا رکھا۔ اور کہا حسب ضرورت تمسے لے لوں گا۔ دربان
نے کہا بہت اچھا۔ لکھتے ہیں۔ کہ آدم اور حوا نے دربان سے پوچھا یہ دنبہ
کہاں سے آیا ہے۔ انہوں نے کہا عزازئیل کی امانت ہے۔ آدم علیہ السلام نے جھٹ
ذبح کرکے کھا لیا۔ ابلیس چند ایام کے بعد آیا۔ ابلیس نے فرشتوں سے امانت
طلب کی۔انہوں نے کہا۔ کہ آدم علیہ السلام نے نوشجاں فرمایا ہے۔ ابلیس خوش
ہو کر آواز کرنے لگا۔ اے بیٹے واسوس کہاں گیے ہو۔ جواب دیا کہ میں آدم اور
حوا کے سینے میں گھر بنائے بیٹھا ہوں۔ شیطان نے کہا رحمت ہو تمکو۔ کہ پہلا
نفس آدم کا تو بنا ہے۔ جیسا کہ رب تعالے ارشاد فرماتا ہے یعنے وہ انسان کے
سینے میں وسوسہ ڈالنے والا آدمی اور جن سے ہے۔ جب تین ہزار برس تمام ہوئے۔
تو شیطان بہشت کے دروازے پر ایکدن پہونچا۔
ص۔ ١٧
اسوقت کالا سانپ اور ایک مور دربانی کر رہے تہے۔ انکے ہاں جا کر کہنے لگا
مجہے ایکدفعہ بہشت میں جانے دو میں تجہکو تین ہزار فریب انعام کروں گا۔
اونہوں نے پوچہا تمہارا کیا نام ہے۔ جواب دیا۔ کہ میرا نام عزازیل ہے۔
اونہوں نے کہا کہ تجہکو اندر جانے کا حکم نہیں۔ اسواسطے کہ تو ملعون ہوا
ہے۔ لائق بہشت تو نہیں ہے۔ اوس نے کہا مجہکو اتنی طاقت ہے۔ اگر تم مجہکو
اپنی آنکھ جگہ دیویں تو غائب ہو جاؤں گا پھر بہشت کو دیکہوں گا۔ اسوقت مار
و کوا دربان تھے۔ اور مور اندر تھا۔ سانپ نے کہا اگر تم جلدی باہر آؤ گے۔
تو تمکو لے جاتا ہوں۔ سانپ نے وعدہ کیا جلدی باہر آؤنگا۔ سانپ نے منہ
کھولا۔ جھٹ شیطان اسکے منہ میں گھس گیا۔ اپنی جگہ کرتے ہی سانپ کے منہ میں
لعاب ڈالدی۔ کہ اس سے یہی زہر پیدا ہوا ہے۔ اوسوقت مور نے کہا۔ تمنے بہت
اچہا کیا۔ اس بات کے کہنے سے اس کے پاؤں سیاہ ہو گئے۔ لیکن شیطان نےسانپ کے
ہاں کہا تھا کہ اندر میں جو کچہ میں کروں تم چپ چاپ رہنا چنانچہ سانپ نے
ایسا ہی کیا۔ جب اندر گہس گیا تو شیطان رونے پیٹنے لگا۔ ص۔ ١٨
جب حوروں نے آواز سنا تو حیران ہو کر خازن بہشت کو کہنے لگیں کہ تمکو کیا
ہوا کہ ابلیس کو تم نے اندر آنے دیا۔ اور تمہارے منہ سے آواز کر رہا ہے۔ کہ
اے حوا سنو آدم اور حوا گندم سے محروم ہیں۔ اوہ اچھا طعام ہے۔ اور دوسرا یہ
کہ آدم ایک حور پر عاشق ہو گیا ہے۔ اور حور سے پرہیز کر گیا ہے۔ وہ اس حور
کے ساتھ مزے اڑا رہا ہے۔ جب حوا نے یہ بات سنی تو بہت پریشان ہوئی۔ آدم کو
بہی جستجو کیا تو نہ پایا۔ اسوقت حوا کو اس لعین کے مکروفریب کا خیال بھول
گیا تھا۔ جھٹ حوا کو خیال آیا کہ بہشت کے باہر آدم کی جستجو کریں۔ اسوقت
بہشت سے باہر جانا بغیر گندم کہانے کے محال تھا۔ حوا نے کہا لیا۔ مگر ادھا
دانہ نہ کہایا تھا۔ اس حیض کی بیماری عارض ہو گئی۔
کہتے ہیں عورتیں دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں۔ اسوقت سے حیا اور شرم
شروع ہو گیا ہے۔ بعد اسکے جبرائیل امین کو حکم سرکار اعظم سے ہوا کہ حوا کو
بمعہ سانپ اور کبودک اور مور باہر نکالیں اور زمین پر ڈالدے تا کہ میرے قد
کا معائنہ کریں۔ جبرئیل علیہ السلام حسب الحکم کاروائی شروع کرکے نکالدیا۔
جب آدم کو خبر گذری کہ حوا کو گندم کہانیکی وجہ سے الله تعالے نے بہشت سے
نکالکر زمین پر ڈالدیا۔ جھٹ آدم نے بھی دانہ باقیماندہ نصف کہا لیا
بوجہ۔۔۔۔ تو اسکو پاخانہ کی حاجت پڑ گئی۔ اسوقت حکم ہوا کہ اے جبرائیل جا
کر بہشت سے آدم کو برہنہ کرکے نکالدے۔ بوجہ اسکے کہ میرا نافرمان ہوا ہے
اور یہاں ناپاکی کرتا ہے اور بہشت پاک جگہ ہے۔ ص۔ ١٩
جب جبرائیل الله کے حکم سے بہشت میں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آدم علیہ
السلام گندم سے اپنا پیٹ بھرے کھڑا ہے۔ جبرائیل نے غصہ ناک ہو کر تمام کپڑے
مثلا جامہ دستار ٹوپی وغیرہ چھین لئے۔ جب سر سے کلاہ اتاری تو آدم علیہ
السلام نے اپنے ہاتھوں کو سر پر کر لیا۔ اس وجہ سے سر کا مسح فرض ہے یعنے
چہارفرض اسوقت کے بہی ہیں۔ مثلا ہاتھ دھونا۔ منہ دھونا۔ سر کا مسح کرنا۔
پاؤں کا دھونا۔ پھر کپڑے اوتار کر آدم جو ہمارے باپ ہیں پیغبر خدا۔ مقبول
خدا کہ بوجہ مذکور کے پکڑ زمین پر ڈالدیا۔ کل شی مرجع اے اصلہ خاکی آدم خاک
کیطرف گیا ہے۔ وہ کوہ قاف میں رہے۔ ستر برس تک حوا علیہ السلام سے جدا رہے۔
آدم کے رونے سے فلفل بیدا ہوئی۔ اور حوا کے رونے سے مروارید بنگئے۔ وہ
جبرائیل جو پہلے تعظیم و تکریم کرنے والا تھا۔ وہی بوجہ ایک بیفرمانی کے
بہشت سے بہت اہانت کے ساتھ نکالنے والے ہیں۔ مولوی روم صاحب فرماتے ہیں۔
یک گناہ چوں کرد گفتندش تمام
مذہنی مذہنی بیروں خرام
تو طمع میداری چندیں گناہ
داخل جنت شوی اے روسیاہ
ص۔ ٢٠
آخر بعد ستر برس کے حوا اور آدم کی ملاقات ہوئی۔ کسی نے کہا ہے۔ بیت
ہر دم دعا ہا میکنم بر خاک مے عالم جبیں
جمع کن باد و ستم یا جامع المتفرقیں
پھر حکم جبرائیل کو ہوا کہ ایک جوڑا اور کچہ گندم بہشت سے لیکر آدم کو
دیدے۔ جبرائیل نے آدم کو جوڑا اور کچہ گندم حوا کو دیدی اور کچہ آدم کو دی۔
خدا کے حکم سے ہل جوت کر بیج ڈالا۔ آدم کے بیج سے گندم اور حوا کے بیج سے
جو پیدا ہوئے۔ حکایت
ایک روز حوا رضی الله عنہا بیٹہے تھے متفکر ہو کر۔ بہشت کی نعمتیں یاد کر
رہے تھے۔ تسبیحیں کہتے تھے۔ کہ رب جلیل رحمن۔ غفورالرحیم منان تیرا ہر وقت
احسان بہشت میں عجیب نعمتیں تو دیتا تہا۔ شربت پلاتا تھا۔ شیر شہد سے عجیب
تھے۔ اب آپنے کبھی نہیں عنایت فرمائی میرا بخت سیاہ ہے تیری نافرمانی سے
ناگاہ خندق میں گر گئی ہوں۔ کوئی پوچھتا نہیں۔ بیت
یاد میں نعمت کے رہے ہر دم
کھاتے تھے بہشت ذوق سے پیہم
حاشیہ: ہندوانہ اور خربوزہ وہاں کے ہیں
ص۔ ٢١
فریاد سن کر الله تعالے فرمایا۔ کہ اے جبریل دو خربوزہ لیکر ایک حوا کو
دوسرا کو دیدے جبریل ویسا ہی کیا۔ حوا حاملہ تھیں۔ اسوجہ سے حوا کا خربوزہ
ہندوانہ بن گیا۔ اور آدم کا برحال رہا۔ ایکدن جبریل کو حکم ہوا کہ حوا کے
ہاں دو بچے صبح اور دو بچے شام ہونگے اور دو بچے پہلے پیدا ہوں انکو شتابی
جدا کرنا اور انکا نام ہابیل اور کابیل رکہنا۔ اور جو لڑکیاں شام کو پیدا
ہوں پہلی ہابیل کو اور دوسری کابیل کو بیاہ دینا۔ اتفاقا دوسری لڑکی ایک
آنیکھ سے دیکھ نہ سکتی تہی۔ کابیل نے منظور نہ کیا۔ اور ہابیل کی عورت کو
لیا۔ جب آدم علیہ السلام تہوڑی دیر کے بعد آئے تو کہا۔ اے کابیل۔ تو
بیفرمان ہو گیا ہے اور غضبناک ہو کر کابیل کو کہا۔ تو نے برا کیا۔ اور تو
کافر بن گیا ہے۔ مجھ سے تم دونو دور ہو جاؤ۔ اور کہیں اور زراعتکاری کرو
اور اپنا بسیرا کرو۔
ندا آید درانگہ دور شو دور
قیامت کے روز جسطرح حضرت آدم علیہ السلام اپنے مقرب بیٹے کو نافرمانی کی
وجہ سے دور کر رہا ہے۔ اسی طرح ما باپ بیٹا ایکدوسرے کو دور کر دے گا۔ اور
اپنا ہی ہر ایک بوجھ اوٹھائیگا۔ ص۔ ٢٢
الائیہ۔ بغیر عمل توحید کے رسول بھی شفاعت نہ کرینگے۔ سب کو ہاتھ افسوس
ملنا پڑے گا۔ شیخ عطار فرماتے ہیں۔ بیت۔ ہست سلطانی مسلم مرا درا نیست کس
را زہر چوں وچرا
عذر معذرت کچہ کام نہ آئیگی۔ چنانچہ آدم و حوا بغیر پرسش نکالے گئے۔
بیفرمان کا بغیر پرسش دوزخ جانا پڑیگا۔ اعان الله وابوانا و استاذنا و
سائرالمسلمین امیں۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں۔ ستم بر ضعیفان مسکین مکن۔۔۔۔۔کہ
ظالم دوزخ رود بےسخن۔ اور کسی نے کہا ہے۔ وہ سنت نبی جسکو پیاری نہیں۔۔نبی
بھی اس سے بیزار ہو جاتا ہے۔ جب آدم علیہ السلام سے کابیل کسی اور جگہ رہنے
لگے تو ایکدن عزازیل نے آ کر کہا کہ تو اپنے بھائی ہابیل کو مار ڈال کیونکہ
یہ تجھ سے بڑا ہے۔ پھر تو تمام زمین کی بادشاہی کریگا۔ کابیل نے کہا مجہے
قتل کرنا معلوم نہیں ہے۔ عزازیل نے کہا جسوقت نیند میں ہووے تب ایک بٹہ
لیکر اسکے سر خوب لگا۔ اس نے حسب کہنے عزازیل کے کا کیا۔ اور ہابیل مر گیا
انا لله و انا الیہ راجعون۔ کابیل کو چونکہ محبت تہی لاش کو پھینکنا ناگوار
سمجہکر اپنی پشت پر اٹھا لیا۔ چنانچہ چھ ماہ کا عرصہ گذر گیا۔ قبر کے
کھودنے کی تجویز کابیل کو معلوم نہ تہی۔ ایکدن دو فرشتے کوے کی صورت پر
گھڑا کھودا اور اسنے کوے کو وہیں گاڈ دیا۔ پھر کابیل نے بھی ان کو دیکہکر
اپنے بھائی کو دبایا۔
جیسا کہ الله تعالے اپنی کلام پاک میں فرماتا ہے۔ بھیجا الله نے کوے کو
زمین کھود کر اپنے بھائی کوے کی لاش کو دفن کرتا تھا دیکہکر کابیل نے کہا
افسوس میں کوے سے بھی کمتر ہوں۔ اگر کوے جیسا ہوتا تو اپنے بھائی کی لاش کو
دفن کرتا۔ یہ کہہکر شرمسار ہوا۔ دونو کوے قابیل کےروبرو لڑتے ہوئے ص۔ ٢٣
ایک کوے نے دوسرے کوے کو مار ڈالا پھر اپنے چونچ اور پنجوں سے گڑہا کھود کر
کوے ک دبا۔ قابیل نے دکھکر غم کھایا۔ اور کہا کہ میں کوے جیسا ہوتا تو اپنے
ہاتھ گڑہا کھودتا۔ اوراپنے بھائی کو دباتا۔ پھر قابیل نے دیکہکر ویسا کیا۔
یہ طریقہ گور۔۔۔ قبر بنانے کا۔۔۔ یہاں سے شروع ہوا ہے۔ اور ہایل کی سب قوم
مسلمان ہیں۔ ایک دن آدم نےقابیل سے پوچھا ہابیل کہاں ہے کہا مجہے معلوم
نہیں۔ بہت دن سے مجہسے رخصت ہو گیا ہے۔ آدم علیہ السلام حیران ہوا۔ خد ا کی
جناب سے ندا آئی کہ تیرے بیٹے قابیل نے قتل کر ڈالا ہے۔ تا کہ تجہے معلوم
ہو۔ کہ میرے ایسے بیٹے ہیں۔ تو نہیںجانتا شیطان انسان کا دشمن ہے۔ جب آدم
نے جواب سنا تو قابیل پر غصہ ہوا۔ اور کہا کہ تو نہایت پرلے درجہ کا کافر
ہے۔ تم مسلمان کبہی نہیں ہو گے۔ جیسا کہ قابیل حران ہوا۔ اسوقت سے شیطان
انسان کا دشمن چلا آتا ہے اور مرتے وقت انسان کےساتھ بیجا حرکتیں کرتا رہتا
ہے۔ مومن کو چاہئے کہ اس کے فریب سے بچے لا حول پڑہتا رہے۔ ص۔٢٤
تھوڑے دنوں کے بعد ابلیس نے قابیل کے پاس آ کر کہا کہ میں جبرائیل ہوں خدا
یتعالے نے تمہاری طرف بھیجا ہے۔ اور کہا ہے کہ اور طریقہ آدم کا باقی ہے۔
وہ اب تجہکو سیکہاتا ہوں۔ قابیل نے خوش ہو کر کہا۔ بہت اچھا۔ تو عزازیل نے
خوش ہو کر تسلی اپنی کر لی کہ ابھی اسکو کافر کر لوں گا پھر عزازیل نے کہا
تجھکو خدا کے نام سکھاتا ہوں۔ انکو ہر وقت ضبط رکھنا پھر شیطان نے مذکورہ
نام مردوں اور عورتوں کے بتلائے اور کہا کہ ایک اور بھی امانت ہے۔ وہ یہ ہے
ایک سنگ راست کرکے انکو دیدیا۔ اور کہا کہ ہر صبح نہا کر طعام کھانا اور اس
بت کو سجدہ کرتے رہنا۔ اوراپنا منھ مشرق کو کرنا۔ اور تمہارے ماں باپ آدم
حوا نہیں۔ بلکہ پاربتی اورمہادیو ہیں۔ اوراسی راہ پر چلنا۔ اورتمکو
جلائینگے۔ یہ قوم کافروں کی اسی جگہ سے شروع ہوئی ہے۔ یہ نہیں جانتے کہ
شیطان نے اپنے پھندے میں اسکو ڈالدیا ہے اور دوزخ کا ساکن بنا دیا ہے۔ خدا
نے فرمایا ہے سب چیزوں کو اپنی عبادت کے واسطے پیدا کیا۔ اسکے خلاف چل رہے۔
کہتے ہیں کہ حضرت آدم فرزند پانچسو جفت تھے۔ ص۔ ٢٥
نقل ۔۔۔۔ ایک روز حضرت آدم کے فرزند جمع ہو کر آپس میں صلاح کرنے لگے کہ
باپ کو مار ڈالئے اور بادشاہ اور پیغمبر ہمارے واسطے نازل ہو جائیگا۔ اسی
مشورہ میں تھے کہ الله تعالے آدم کو خبر دی کہ تمہیں فرزند مارنا چاہتے
ہیں۔ اگر تم چاہو۔ تو اونکو مار ڈالو اورپھر انکار آپکا کبھی نہو۔ آدم نے
کہا یا خدایا کوئی اور تدبر کرو۔ تو الله تعالے نے جبریل کو حکم کیا کہ
بہشت میں بانگ دو۔ جبریل حسب الحکم رب الجلیل بانگ دیدی تو اونکو آواز سنتے
ہی انکی زبانیں بدل گئیں۔ جیسا کہ عربی فارسی وغیرہ جو آپسمیں مشہور ہیں۔
ایکدوسریکا سخن نہیں سمجہتے تہے۔ اس وجہ سےمشورہ باطل ہو گیا۔ یہ زبانیں اس
زمانہ سے شروع ہیں۔ اوسوقت سے زبانیں مختلف پھر مارنے کی مشورہ بدل گئی۔
وازیں وجہ مسلمان اور ہندو ہونا ہو گیا۔ جب آدمی بادشاہی کرنے لگے تو انہوں
نے شہر کا نام ملتاں رکھا۔ آدم علیہ السلام کیوقت سے اسکا نام ملتان شہر
ہے۔ اوراسوقت سے یہ شہرآباد ہے۔ اس شہر میں بڑے بڑے بزرگوں کی خانقا ہیں
ایک بہاؤلحق صاحب ایک شمس تبریز صاحب کی ایک موسے پاک شہید کی علاوہ اور
بہت ہیں۔ ص۔٢٦ اور یہ کافر کی اولاد ہیں۔ اور مسلمان بمعہ جمیع پیغبران شیث
سے محمد علیہ السلام تک ہابیل کی اولاد ہیں۔ ص۔٢٧ |