”آؤ چلیں، سوئے حرم“
(Professor Masood Akhter Hazarvi, luton)
”ذوالحج“کا بابرکت مہینہ شروع ہو
چکا ہے۔یہ سن ہجری کی تقویم کے لحاظ سے سال کا آخری مہینہ ہے۔لاکھوں کی
تعداد میں وہ خوش بخت بندگان خدا جن کی روحوں نے صدائے ابراہیمی (علیہ
السلام) پر لبیک کہنے کی سعادت حاصل کی تھی، حج بیت اللہ شریف کی ادائیگی
کیلئے حرم کعبہ میں حاضر ہو رہے ہیں۔ آج کے دور میں اگر ہم اپنے گردو پیش
پر نظر دوڑائیں تو بیشمار ایسے مقامات نظر آتے ہیں جو عبادت، سیر و تفریح
یا اجتماعات کیلئے مشہور و معروف ہیں۔ لیکن جو عظمت، فضیلت، آفاقیت اور
اہمیت ابراہیم خلیل اللہ کے دست مبارک سے پایہ تعمیر و تکمیل تک پہنچنے
والے اللہ کے اس گھر کو نصیب ہوئی اس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔
حضرت علامہ اقبالؒ نے بال جبریل میں حرم پاک کی اسی واشگاف حقیقت کو یوں
بیان کیا ہے کہ
عرب کے سوز میں سازِ عجم ہے
حرم کا راز، توحیدِ امم ہے
تہی وحدت ہے اندیشہِ غرب
کہ تہذیبِ فرنگی بے حرم ہے
اسلام کے نظام عبادات میں حج بیت اللہ شریف ایک ایسی جامع عبادت ہے جو
اخلاقی، روحانی، سیاسی اور سماجی فوائد اور برکات کا ایک حسین و جمیل مرقع
ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت ہاجرہ ؑ
کی اطاعت الہی، ایثار و قربانی اور بے لوث وفاداری کی ادائیں اللہ تعالیٰ
کو اس قدر پسند آگئیں کہ تا قیامِ قیامت امتِ مسلمہ کیلئے انہیں نباہنا اور
دہرائے چلے جانا لازم قرار دی دیا گیا۔ حقیقت میں اسی پیمانِ وفا کی
پاسداری اور تجدید عہد کا نام ”حج“ ہے۔ لغت عرب میں حج کا معنی قصد کرنا،
کسی کے گرد گومنا اور بار بار لوٹ کر آنا ہوتا ہے۔ حج ہر سال ادا ہوتا ہے
اور دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمانان عالم بری، بحری اورفضائی راستوں سے صف
بہ صف، قطار اندر قطار اور جوق در جوق کعبۃ اللہ کی طرف یوں کھچے چلے آتے
ہیں جیسے لوہے کے ٹکڑے مقناطیس کی طرف۔ہر سال حج کے اس با برکت اور باوقار
موقعے پر تین سے چار ملین کے لگ بھگ فرزندان اسلام کسی رنگ و نسل اور وطن
کی امتیاز کے بغیر ایک مخصوص وقت اور جگہ پر اکٹھے ہو تے ہیں۔ یقینا یہ ایک
منفرد اور شاندار مثال ہے۔ یہ سارے لوگ اللہ کی رضا اور خوشنودی کے حصول
اور اپنے پیارے نبیﷺ کی سنت مطہرہ پر عمل کرنے کیلئے یہاں جمع ہوتے ہیں۔
انہوں نے اپنے گھربار اور اعزہ و اقارب کو چھوڑا اورمشقتیں برداشت کیں۔ فقط
اس لئے کہ اپنے خالق اکبر کے حضور نذرانہ جان و تن اور قلب و روح پیش کر
سکیں۔ حجاج کرام والہانہ انداز میں طوافِ خانہ شریف کرتے ہیں۔ کچھ وہ
بندگان خاص بھی دکھائی دیتے ہیں کہ اسی سرشاری کی کیفیت میں جن کی آنکھوں
سے آنسوں ڈھلک رہے ہوتے ہیں۔ دل کی تڑپ عالم بیقراری میں مچل رہی ہوتی ہے۔
سوز ِقلب و روح اضطراب کی موجوں میں ڈھل جاتا ہے۔ اور اسی کیفیت میں جبین
نیاز ہی سجدہ ریز نہیں ہوتی بلکہ قلب و روح پر بھی عجز و نیاز کی کیفیات
طاری ہوتی ہیں۔گویا تمام خدادا صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر آداب بندگی کی
بجا آوری کا نام ”حج“ہے۔ اس میں رکوع و سجود اور قیام و قعود بھی ہے۔ وضوء
اور غسل بھی ہے اور انفاق فی سبیل اللہ کا عملی مظاہرہ بھی۔ سفر ہجرت کی
حسین مگر پر مشقت یادوں کا تذکرہ اور پیروی بھی۔ جہاد بالنفس، جہاد با لمال
اور جہاد باللسان بھی۔ حجاج کرام ایک ہی کفن نما لباس(احرام) میں ملبوس ہو
کر یہ صدائے پاک فضاؤں میں بلند کرتے ہیں۔ لبیک اللہم لبیک۔ لبیک لا شرک لک
لبیک۔ ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔کہ (میں حاضر ہوں۔ اے میرے
اللہ پاک میں حاضر ہوں۔ اے وہ ذات پاک جس کا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔
بے شک ساری تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ تمام نعمتیں تیری ہیں (تو ہی ان کو عطا
کرنے والا ہے)۔ تمام بادشاہی تیری ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں)۔ جب حجاج
اور زائرین پہاڑوں، صحراؤں، دریاؤں، سمندروں اور ہواؤں میں لبیک لبیک کہتے
کعبۃ اللہ کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں تو چشم تصور میں یوں محسوس ہوتا ہے
کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری کیلئے بیقرار اور بیتاب ہے۔خصوصا با ر
بار تلبیہ کی ادائیگی ایک نیا سماں باندھ دیتی ہے اور ہر طرف نیا ہی کیف و
سرور دکھائی دیتا ہے۔حج میں عقیدہ توحید و رسالت کا اقرار باللسان اور
تصدیق با لقلب بھی ہے۔ یہ عقائد دین اسلام کی بنیاد ہیں اور حج بیت اللہ
شریف کا سفران بنیادی عقائد کا برملا عملی اظہار ہے۔ حجاج کرام زیارت و
طواف خانہ کعبہ شریف، منی، عرفات اور مزدلفہ میں مناسک حج کی ادا ئیگی اور
توحید باری تعالیٰ کے پرچار کے ساتھ ساتھ مدینہ پاک میں نبی محتشم، سرکار
دو جہاں ﷺ کی بارگاہ اقدس میں میں بھی ذوق و شوق کے ساتھ حاضری کا شرف حاصل
کرتے ہیں۔ اگر ایک اور پہلو سے غور کیا جائے تو یوں معلوم ہو تا ہے کہ روضہ
رسولﷺ کی یہ حاضری مسلمانوں کے بنیادی عقیدہ ”ختم نبوت“پر مہر تصدیق بھی ہے۔
اگرچہ متعدد انبیاؑء و رسل ؑ کے مدفن زمین کے مختلف حصوں میں موجود ہیں
لیکن ان کی زیارت کی تاکید نہیں کی گئی۔ البتہ مدینہ پاک کی حاضری حجاج
کرام پر واجب کی گئی ہے۔ اس حاضری کی دیگر برکات کثیرہ کے ساتھ ساتھ سرکار
دوعالم کا یہ وعدہ بھی ہے کہ جس نے میری قبر انور کی زیارت کی اس پر میری
شفاعت واجب ہے۔ جو لوگ حج و عمرہ کریں مگر دانستہ طور پر مدینہ طیبہ حاضر
ہو کر روضہ رسولﷺ کی زیارت نہ کرے تو آپ نے فرمایا کہ”جس نے حج و عمرہ کیا
مگر میری بارگاہ میں حاضر نہیں ہوا، اس نے مجھ سے جفا کی“۔
حج ہماری اخلاقی و روحانی بالیدگی اور اصلاح احوال کا بہترین ذریعہ ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مناسک حج کی ادائیگی اور روضہ رسولﷺ کی حاضری
کے دوران جو کیفیات ہمیں نصیب ہوتی ہیں اور جو اسباق اُن سعادتمند گھڑیوں
میں ہمارے قلوب وا ذہان پر لکھ دیے جاتے ہیں، ان کو ہم بہت جلدکیوں بھول
جاتے ہیں؟ شیطان پرپتھر برسانے کے بعد جلد ہی کیوں اس سے دوستی کی پینگیں
بڑھا لیتے ہیں؟ خانہ خدا اور روضہ رسولﷺ پر جو وعدے ہم کر کے آتے ہیں انہیں
کسی ڈائری میں لکھ کیوں نہیں لیتے کہ یاد رہیں اورہم ان کی پاسداری کرتے
رہیں تاکہ کل بروز محشر شرمندگی نہ ہو۔ آب زمزم، کھجوروں اور تحائف کے ساتھ
ساتھ ہم حج کی سعادت کے بعد زندگی بھر روحانی نور، خوف خدا، اطاعت رسول،
بندگی کے قرینے، اسلامی مساوات، عدل و انصاف، احترام انسانیت اور پابندی
وقت کے لازوال اور حسین تحفے کیوں نہیں بانٹتے؟ مسلمان ممالک کے سربراہان
اور سیاسی و مذہبی راہنماؤں کو مسلم امہ کی موجودہ زبوں حالی اور مظلوموں
کا جگہ جگہ بکھرا ہوا خون کیوں نظر نہیں آتا؟حج بیت اللہ شریف کی مقصدیت کو
مد نظر رکھتے ہوئے وہ امت مسلمہ کی یکجہتی اور اتحاد کے لیے کوشاں کیوں
نہیں ہوتے؟ کہیں کردار و عمل اور فلسفہ حیات ا سی کے مصداق تو نہیں؟ کہ
حج ادا کرنے ہماری قوم کا کوئی راہنما گیا
سنگ باری کیلئے، شیطان پر جانا ہوا
ایک ہی مارا تھا پتھر کہ آئی یہ صدا
تم تو اپنے آدمی تھے، تم کو آخر کیا ہو؟ا
|
|