پاکستان تحریک اِنصاف کے
دھرنے جب سے شروع ہوئے ہیں۔خان صاحب کی طرف سے مختلف تقاریر میں موجودہ
حکومت اور اُن کے رہنماؤں پر اِلزامات لگتے رہے ہیں۔ مخالفین کی طرف سے اُن
کے جلسے میں موسیقی اور بے حیائی کو پروان چڑھانے میں پی ٹی آئی کی پارٹی
پراور اُن کے قائد پراُنگلیاں اُٹھاٰئے جاتے ہیں ۔ یہاں پر عمران خان کے
مخالفین کے سامنے میرا ایک سوال عرض ہے۔اگر میں جلسوں اور دھرنوں میں
موسیقی کو پروان چڑھانے میں عمران خان اور اُن کی پارٹی کو موردِ اِلزام
ٹھراؤ۔ قوم کے بیٹیوں کی اپنی ماؤں سے چُھپ چُھپ کر جلسوں اور دھرنوں میں
شِرکت کو بھی عمران خان کا گُناہ سمجھوں۔اُن کے پرستاروں کے رُخسار پر
پارٹی کے جھنڈے بھی عمران خان کی اُنگلیوں سے بنائے ہوئے سمجھو ۔ اورمیں یہ
بھی یقین کرو۔ کہ اُن کی کلائیوں میں پی ٹی آئی کی چوڑیاں بھی خان صاحب نے
پہنائے ہونگے۔اِن سب کا گُناہ خان صاحب کے گلے میں طوق رسید کرلوں۔لیکن اِس
حکومت میں ہوتے ہوئے کسی بھی سیاسی مُلا یا اُنگلی اُٹھانے والے نے کبھی
اِس پر پارلیمنٹ میں حرفِ شکایت زبان پر لائی ہے۔ کہ نمبر۱: قومی اِسمبلی
میں جتنی بھی خواتین اراکینِ اسمبلی تشریف لاتی ہیں۔ اُن کیلئے پردہ لازمی
ہوگا۔ نمبر۲: تمام سرکاری اور نجی ٹیلی ویژن چینلز کے نیوز کاسٹرز،
رِپورٹرز اور مختلف پروگراموں کے میزبان خواتین پر پردہ لازم ہوگا۔ کیونکہ
آج اِس قوم کا بچہ بچہ میڈیا چینلز کی دیکھا دیکھی کرتا ہے۔ یہاں پر مجھے
ایک سکول ٹیچر کی بات یاد آ جاتی ہے۔گذشتہ دِنوں میری اُن سے ملاقات ہوئی۔
فرمایا میں نے اپنے سکول میں ایک کلاس کے طالب علموں سے پوچھا۔ کہ بیٹا! آپ
میں سے کون بتائے گا۔ کہ ہمارے نبیﷺ کی کتنی بیویاں تھیں؟ سارے خاموش رہے
صرف ایک لڑکے نے ہاتھ اُٹھایا۔ جب میں نے پہلے سوال کے برخلاف دوسرا سوال
پوچھا۔ کہ اداکار اور اداکارہ میں کیا فرق ہے؟ سب نے ایک ہاتھ تو کیا دونوں
ہاتھ اُٹھائے۔ اور مثالوں کے ساتھ جواب دینا چاہا ۔ میں حیران ہو گیااور
سوچنے لگا۔ کہ واقعی غیروں نے ہماری نئی نسل پر اِتنی محنت کیں۔ کہ ہمارے
سامنے اپنا مذہب بھی پرایا لگتا ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ ہمیں جہاں عُریانی
اور بے پردگی کی بات کرنی ہے۔ وہاں پردے کا اِصطلاح بھی لانا ہوگا۔ جہاں
ہمیں نئی نسل کی دین سے دوری کی بات کرنی ہے۔ وہاں ھمیں دین سے دوری کی
تشریح بھی کرنی ہوگی۔ بڑے بڑے سیاسی رہنما اور ملا حضرات جو کہ عمران خان
کو اِس بات پر تنقید کا نِشانہ بنا رہے ہیں ۔ اُن سے میں یہ بھی عرض کرتا
چلوں۔ کہ اگر سرکاری ٹی وی پر ایک مفتی صاحب ایسی اینکر گرل کے ساتھ بحث
میں حصہ لیتا ہے۔ جسکے جسم کے اعضاء باہر سے دکھائی دے رہے ہوں۔ وہاں آپ
صرف عمران خان کے جلسے پر تنقید کیوں کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے تمام اراکین کو
چاہیئے۔ کہ اِسمبلی سے ایک بِل پاس کرے ۔ کہ اِسلامی جمہوریہ پاکستان میں
کسی بھی عورت کو بے پردگی کی اجازت نہیں ہوگی۔ کوئی بھی عورت گھر سے بے
پردہ نکلی۔ تو اُس کو یہ یہ سزا دی جائیگی۔ مزید یہ کہ کسی بھی ٹی وی چینل
کو عورت کی بے پردگی کی تشہیر کی اِجازت نہیں ہوگی۔ لیکن ضرورت اِس امر کی
ہے۔ کہ کیا ’پردہ بِل‘ کو پارلیمنٹ میں یہ سیاسی ملا لائیں گے؟ یا صرف خان
صاحب پر اِعتراض کرنے کیلئے یہ لوگ اِس نُقطے کو مزید اُچھالیں گے۔
دوسری بات یہ کہ جب اِنسانوں اور پھر قوم کے اِجتماعی جذبات کو صحیح سِمت
میں لانا مقصود ہوں ۔ تو اِس غرض سے جلسے یا دھرنے کے شروع یا درمیان میں
اگر مِلی نغمہ سُنایا جائے۔ یا قومی ترانہ سُنائی جائے۔ میں موسیقی کے حق
میں نہیں ۔ لیکن اِس کو عُریانی یا فحاشی کا رنگ دینا کسی سیاسی پارٹی کے
بڑے رہنما کو زیب نہیں دیتا۔ یہاں پر میں ایک بات پوچھنا چاہوں گا۔ کہ
۱۹۶۵ْ اور ۱۹۷۱ء کی پاک و بھارت جنگوں میں جو فوجیوں کو پیش قدمی اور حوصلہ
بڑھانے کی غرض سے مُلکی نامور گلوکاروں کے مِلی نغمات کو سُنایا کرتا تھا۔
اب اُن فوجیوں کا دھرتی کی حفاظت کیلئے لڑنا ۔اور گولیوں ، توپوں کی گھن
گرج میں سِسکیاں لے لے کر شہادت کو بھوسہ دینا۔ اور اپنے بال بچوں کو کئی
ماہ سے ایک چِٹی کے ذریعے اپنی آمد کا دلاسہ دینا۔ اِن ساری قُربانیوں کو
ایک طرف مگرکیا میدانِ جنگ میں مِلی نغمات سُنانے کو اُس وقت کے عُلماءِ
کرام نے بُرا بھلا کہاتھا؟ روایات تو یہ ہیں۔ کہ جب کسی بھی مہذب معاشر ے
میں اگر قوم کی اِتنی کثیر تعدادمیں مائیں اور بہنیں کوئی جائز مطالبہ ایک
اِحتجاج یا دھرنے کا حصہ بن کرکرتی ہے۔ تو پِھر اُن کے مطالبے کی حساسیت پر
بھی غور کرنا پڑتا ہے۔اِس اِحتجاج میں معاشرے کا ایک مظلوم طبقہ مِلکر
سڑکوں پر بیٹھا ہے۔ دوسری حقیقت یہ کہ اِس قوم کا زیادہ تعداد نوجوان نسل
پر مشتمل ہے۔ اور خان ساحب نے اِس طبقے کو اپنے حقوق اور ہونے والے ایلیٹ
کلاس کے زیادتیوں کو یاد دِلایا۔ تو اِن جلسوں اور دھرنوں میں نوجوانوں کی
بڑی تعداد میں شِرکت بھی جذباتیات اور ہائے ہو سے خالی نہیں ہوگا۔
حکمران لوگوں کی بے اِنتہا کرپشن اگر کوئی اُس کے رعایا تک پہنچانا چاہتا
ہے۔ تو اُن کے صفوں میں تلاطم برپا ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے۔
کہ خان صاحب کی تنقید اور دھرنوں کی وجہ سے موجودہ حکومت پر کارکردگی
دکھانے کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔ اب اقربا پروری کو تو یہ یک دم نہیں چھوڑ سکتے۔
ہاں اگر کرپشن کرتا بھی ہے تو ڈر بھی لگتا ہے۔ کسی بھی سیاسی رہنما کیلئے
یہ مناسب نہیں کہ ایک ، دو وزارتوں کیلئے غیر پارلیمانی اور غیر اخلاقی
زبان اِستعمال کرے ۔ ہاں میرا وہی مطالبہ بھی برقرار رہے گا کہ ’پردہ بِل‘
اگر پاس ہو جائے تو شاید اِن دھرنوں میں نوجوان لڑکیوں کی شِرکت کی شکایت
بھی نہ رہے گی۔اور عُریانی و فحاشی کے اِلزامات بھی نہیں لگے گی۔اور ہمارا
نیا نسل بھی محفوظ رہے گا۔ |