چین پاکستان " اسٹریٹجک پارٹنرشپ"

کچھ عرصے قبل پاکستان میں چین کے سفیر لیو جیان نے پروفیسر خورشید احمد کے ادارے پاکستان انسٹیوٹ آف پالسی اسٹیڈیز اسلام آباد میں ایک سیمینار میں اس بات کا مستقبل میں چین پاکستان اسٹریٹیجک پارٹنر سپ مضبوط ہوگی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایٹمی توانائی کا پر امن استعمال ہر قوم کا حق ہے اس معاملے میں دوہرے معیارات ناپسندیدہ ہیں ان سے اجتناب کیا جاناچاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ چین مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کا خواہاں ہے جوپاکستان اور بھارت کے باہم مذاکرات سے ہی ہو گا۔ یہ دوہرے معیارات امریکہ کے ہیں ۔ جو پاکستان پر ایٹمی توانائی کے منصوبوں پر تو پابندی لگاتا ہے۔ لیکن بھارت کو سستی توانائی کے ان منصوبوں کی اجازت دیتا ہے۔پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہی توانائی کا بحران ہے۔ چین نے پاکستان کے اس سنگین مسئلہ پر توجہ دی ہے۔ اور اب وہ اس کے حل کے لئے سنجیدگی سے عملی اقدام کرنا چاہتا ہے۔وزیر اعظم نواز شریف بھی اس وقت یہی چاہتے ہیں کہ چین اور پاکستان دونوں مل کر اس مسلئے کا حل نکالیں۔ پاکستان میں دھرنے نہ ہوتے تو اگست میں چینی وزیر اعظم پاکستان آچکے ہوتے اور اب تک یہ معاہدے ہو بھی چکے ہوتے۔ بعض حلقے یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ چین کی اس پیش رفت کو روکنے میں امریکہ کا ہاتھ ہے، جس نے دھرنے والوں کو مالی امداد فراہم کرکے اس کو روکنے کی کوشش کی۔ ایک اندازے کے مطابق چین پاکستان میں 2017 تک پاکستانی معیشت کے مختلف شعبوں اور خاص طور پر توانائی کے شعبے میں 50 بلین ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سرمایہ کاری کا مقصد پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکال کر معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی چین کا دورہ کرکے آئے تھے تو انھوں نے بھی یہ خوشخبری سنائی تھی کہ چین نے آئندہ پانچ سال تک پاکستان میں ہر سال ساڑھے چار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہ سرمایہ کاری زیادہ تر ملک بھر میں توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں کی جاے گی۔اس حوالے سے یہ طے بھی ہوا کہ لاہور میں ایک ارب سات کروڑ ڈالر سے لائیٹ ریل کا منصوبہ مکمل کیا جائیگا۔ ہ بھی کہا گیا کہ لاہور میں لائٹ ریل منصوبہ چین کے وزیر اعظم کی خصوصی دلچسپی کے باعث منظور ہوا، گو یہ منصوبہ کراچی کی ضرورت تھا۔لیکن چین کو کراچی میں پیپلز پارٹی اور متحدہ سے وہ تعاون حاصل نہ ہوا۔ جو ان منصوبوں کے لئے ضروری تھا۔ اس لیئے اب یہ اہم منصوبہ بھی کراچی سے اٹھا کر لاہور چلا گیا ہے۔ پاک چین دوستی ایک لازوال رشتہ ہے، دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور اتحاد و یکجہتی کی بے مثال لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ خطہ کی اہمیت اور امریکی کیمپ کے بڑھتے ہوئے اثرات کی وجہ سے بھی چین کی توجہ پاکستان پر ہے۔ دھرنے کی وجہ سے جب چینی وزیر اعظم کا دورہ ملتوی ہوا تو عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ نواز حکومت چین سے چونتیس ارب ڈالر قرضے کا معاہدہ کر رہی ہے۔ لیکن اب یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ چین پاکستان کے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں سنجیدہ ہے۔ چین کی جانب سے پاکستان میں آئندہ 8 برس کے دوران توانائی، پانی، کوئلے،سڑکوں و دیگر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں 40ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کا امکان ہے ۔ اس سلسلے میں پاکستان نے وسیع چینی سرمایہ کاری کیلئے راہ ہموار کرنے پر کام شروع کر رکھا ہے۔ موجودہ دور حکومت میں چین کی پاکستان میں غیر معمولی سرمایہ کاری دیکھنے میں آ رہی ہے جو دراصل چین کی نئی عالمی حکمت عملی ہے۔ چین جس کی موجودہ جی ڈی پی 4 ٹریلین ڈالر ہے، کے پاس اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ زرمبادلہ کے ذخائر ہیں لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی اجرتوں کی وجہ سے چین کی پیداواری لاگت میں نہایت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث چین کو خدشہ ہے کہ اس طرح وہ آنے والے وقت میں عالمی مارکیٹ میں اپنی مقابلے کی سکت کھودے گا جس سے نمٹنے کیلئے چین نے نئی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ چین میں فی کس سالانہ آمدنی 6600 ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ پاکستان میں یہ صرف 1300 ڈالر ہے۔ پاکستان میں اس وقت ورکر کی فی گھنٹہ اجرت 51 سینٹ، پاکستان میں بجلی 17 سینٹ ہے۔ گزشتہ سال مئی میں چینی وزیراعظم لی چیانگ نے اسلام آباد میں حکومت کے ساتھ متعدد ترقیاتی، اقتصادی و تجارتی دوطرفہ معاہدوں پر دستخط کئے جبکہ جون میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے چین کی سرکاری صنعتی کارپوریشن Norinco سے پاکستان میں ایک شمسی پاور پلانٹ کی تنصیب، کان کنی کے شعبے کے فروغ اور آئرن کے ذخائر کی تسخیر جیسے اہم شعبوں میں تعاون کی درخواست کی تھی۔ حالیہ دورہ چین کے موقع پر وزیراعظم پاکستان نے شنگھائی میں منعقدہ پاک چین توانائی فورم میں چین کی50سے زائد توانائی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں سے ملاقات کی۔

چینی سرمایہ کاروں نے کاشغر سے گوادر تک 2000 کلومیٹر موٹر وے جسے اکنامک کوریڈور کا نام دیا گیا ہے، تعمیر کرنے کا عندیہ دیا ہے جو پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ چینی سرمایہ کاروں کا موقف ہے کہ وہ پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کی بیوروکریسی اور سیکورٹی خدشات ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاکستان میں اس وقت چین کی ایک کمپنی 969 میگاواٹ کے نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ پر کام کررہی ہے جو 2015ء تک پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ اس کے علاوہ چینی کمپنی تھری گارجز کیرٹ، کوہالہ اور تونسہ میں بجلی کے3 منصوبوں پر کام کررہی ہے جس سے 2000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی جبکہ دیامیر بھاشا اور بونجھی پن بجلی کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔ چین نے اپنے قدرتی وسائل خصوصاً دریاؤں کے پانی کو آبپاشی اور توانائی کے حصول کے لئے انتہائی مہارت سے استعمال کیا ہے۔ چین کے سب سے بڑے دریا یانگ سی پر Dam Gorges Three بنا کر دریا کا رخ موڑ دیا گیا ہے جس سے مون سون میں پانی ذخیرہ کر کے نہ صرف لاکھوں ایکڑ رقبے پر فصلوں کو سیلاب سے بچالیا جاتا ہے بلکہ ڈیم کی وجہ سے چین دنیا میں سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والا ملک بن گیا ہے۔پاکستان نے چین کو گوادر کی اہم بندگاہ بھی دی ہے۔ جس پربھارت نے پاکستان کی جانب سے اسٹرٹیجک لحاظ سے انتہائی اہم گوادر بندر گاہ چین کو دینے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ توقع ہے کہ جب گوادر بندرگاہ کا کام مکمل ہوجاے گا تو یہ پاکستان سے مغربی چین تک توانائی اور تجارت کی اہم ترین راہداری بن جائے گی۔پاکستان چین کی تیکنیکی مہارت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ چین کے ایک بہت بڑے گروپ ’’روئی‘د: چین پاکستان ریلویز کے انفرااسٹرکچر کی ڈیولپمنٹ اور کراچی سے پشاور تک نیا ٹریک بچھانے پلوں، لیول کراسنگ کی مرمت سمیت متعدد منصوبوں پر ساڑھے3 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے۔ ریلوے ٹریک کو تبدیل کرکے نیا ٹریک بچھانے کے حوالے سے ایک فزیبلٹی رپورٹ آئندہ سال2015 فروری میں چین اور پاکستان کی حکومت کو فراہم کی جائے گی۔ توقع ہے کہ نیا ٹریک بچھائے جانے کے بعد ریلوے ٹرین کی رفتار85 سے105کلومیٹر فی گھنٹہ سے بڑھ کر 120 کلو میٹر فی گھنٹہ تک پہنچ جائیگی۔وزیر اعظم کا دورہ چین شروع……دھرنوں کی وجہ سے چینی صدر تو پاکستان نہ آسکے لیکن چینی حکومت نے کام کو جاری رکھنے کیلئے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو دورہ چین کی دعوت دے دی تھی جس پر میاں نواز شریف چین کا دورہ کر رہے ہیں۔ جوہر لحاظ سے تاریخی ہونے جا رہا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس دورہ کے دوران ہونے والے معاہدے پاکستان کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے۔ اسی لئے چین کے دورہ سے پہلے کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس بارے میں تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری ان بین الا قوامی قوتوں کو قابل قبول نہیں جو پاکستان کے دوست حلیف ہونے کی دعویدار تو ہیں لیکن پاکستان کو اندھیروں میں رکھنے کی بھی خواہاں ہیں۔سابق صدر جنرل (ر)پرویزمشرف کے دور میں جب امریکی صدر نے پہلے بھارت اور پھر پاکستان کا دورہ کیا تب بھارت کی توانائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے امریکہ نے بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی دینے کا معاہدہ کیا لیکن پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاری کی تلاش میں میاں نواز شریف کا فوکس چین اور ترکی رہے ہیں۔ ترکی نے میاں نواز شریف کے ساتھ کئی شعبوں میں تعاون شروع کیا لیکن چینی قیادت نے تو پاکستان پر اپنے دروازے کھو ل دیئے۔ چین پاکستان کے شعبہ انرجی میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔اس میں تھر کے کوئلہ سے بجلی، سولر سے بجلی جیسے منصوبہ شامل ہیں۔ چینی کمپنی نے ہی امپورٹڈ کوئلہ سے بجلی بنانے کے منصوبوں کی بجائے مقامی کوئلہ سے بجلی بنانے کی شرط رکھی تاکہ پاکستان کا امپورٹ بل کم رہے۔ گوادر سے چینی سرحد تک انفرا سٹرکچر بنایا جائے گا۔چین کی گرم سمندروں تک رسائی بھی عالمی برادری کو قبول نہیں لیکن اب دنیا چین کو روک نہیں سکتی۔ پاکستان میں بڑھتا ہوا چینی اثرو رسوخ پاکستان کو امریکہ سے دور کر رہا ہے۔ جس میں پاکستان کی ترقی اور بھلائی ہے۔ شائد اسی طرح ہم ملک میں صنعتی انقلاب لا سکیں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419035 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More