زنجیر ٹوٹنے کو ہے
(Zulfiqar Ali Bukhari, Rawalpindi)
جتنے منہ ،اُتنی باتیں سب ہی
طاہر القادری کے دھرنے کے اختتام پر انکو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں
اور ستم ظریقی یہ بھی ہے کہ انکو نہ صرف سیاسی بلکہ مذہبی حوالے سے بھی
انکی ذات پر انگلیاں اُٹھائی جا رہی ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے
اکثر لوگوں کے اپنے دامن بھی داغدار ہیں مگر سیاست میں یہ سب چلتا رہتا ہے
اور اسی وجہ سے ہمارے مفاد پرست عناصر لیڈران ملک کا بیڑہ غرق کرنے پر تلے
ہوئے ہیں۔آپ اگر گذشتہ قیام پاکستان سے اب تک سالوں کا بغور جائزہ لیں تو
پتا چلے گا کہ یہاں جس نے بھی حق پر مبنی بات کی ہے تو اس کو بھرپور کڑی
تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔یہاں اگر کھلے ذہن سے دیکھا جائے تو پہلی
مرتبہ عوام نے گھروں سے نکل کر دھرنوں میں شرکت کی ہے چاہے یہ دھرنے
پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے منعقد ہوئے ہیں یا پھر پاکستان تحریک انصاف
کی جانب سے دیئے گئے ہیں۔اپنے حق کے حصول کے لئے نکلی عوام کو اگرچہ اپنے
مقاصد میں عمران خان اور طاہرالقادری کی قیادت میں دھرنوں سے خاطر خواہ اگر
کامیابی نہیں ملی ہے تو انکو یکسر ناکامی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا ہے۔
پہلے کھلے عام یوں سیاست پر باتیں نہیں کی جاتی تھیں اور اس میں نوجوانوں
کی شرکت بھی اس قدر بھرپور نہیں ہوا کر تی تھی جو کہ آج کل پاکستان تحریک
انصاف میں نوجوانوں کے جوش و خروش کو دیکھ ملک کے تمام طبقوں کے نوجوانوں
میں پیدا ہو رہا ہے اور وہ دھرنوں میں چاہے محدود وقت کے لئے ہی سہی شرکت
کے اپنی سوچ کے زوایے کو بدلنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔دھرنوں کے بارے میں
باتیں کرنے والے محض اپنے انجام کے ڈر سے یوں بیانات جار ی کر رہے ہیں ورنہ
وہ بھی جانتے ہیں اگر تبدیلی کی لہر چل پڑی تو پھر انکی سیاست ہمیشہ کے لئے
دفن ہو جائے گی اور اسی وجہ سے کرپٹ عناصر کے حامی ان پر شاہ سے زیادہ شاہ
کے وفادار بننے کی کوشش میں تنقیدکررہے ہیں ورنہ وہ بھی جانتے ہیں کہ کرپٹ
عناصر اب حمام میں ننگے ہو چکے ہیں۔
پاکستان عوامی تحریک اورپاکستان تحریک انصاف عوام کی بھلائی کے جہدوجہد کر
رہے ہیں اور اس سلسلے میں انکو کرپٹ عناصر سے واسطہ پڑا ہوا ہے جو کہ محض
اپنے مفاد کی خاطر ان کے حقو ق کو غصب کر رہا ہے۔اور ایسے عناصر سے لڑائی
صبر آزما کام ہے کہ حق کی بات کرنے والے یہ بات جانتے ہیں کہ بہت کچھ غلط
ہو رہا ہے مگر وہ اپنے ساتھ عوام کی ہمدردیاں تو رکھتے ہیں مگر عوام
ماسوائے چند محروم طبقوں کے سوا باہر سڑکوں پر آنے یا دھرنوں میں شرکت سے
گریزاں ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ حقیقی تبدیلی کے لئے بہت وقت چاہیے اور سب سے
زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کی سوچ بدلی جائے کیونکہ یہاں
دھرنوں،جلسوں اور انقلاب کی باتوں سے خوش ہونے والی عوام عملی طور پر
بھرپور قدم اُٹھانے سے قاصر ہے ؟ کیونکہ ہماری عوام جب وقت آتا ہے تو ووٹ
ایسے عناصر کو ہی دیتی ہے جو کہ آزمائے ہوئے ہیں یا پھر اپنی خاندانی
روایات یا مفاد پرست کی وجہ سے مخصوص ناموں یا جماعت کو دیتی ہے اور اچھے
لوگ اپنی یا تو ضمانت ضبط کر والیتے ہیں یا پھر آئندہ الیکشن لڑنے سے ہی
توبہ کر لیتے ہیں ۔جس سے ہمارے ملک اور عوام کے حالات میں اتنے سال گذر
جانے کے باوجود بھی کوئی خاطر خواہ تبدیلی واقع نہیں ہو ئی ہے۔اب جا کر کچھ
باشعور عوام نے پاکستان تحریک انصاف کو تبدیلی کے لئے منتخب کیا ہوا ہے ۔
اگر حالات کو دیکھا جائے تو عوام پہلے سے زیادہ بدحالی کی جانب جا رہی ہے
جہاں عوام کو دو وقت کی روٹی کے لئے دشواری کا سامنا ہے،وہاں گیس ،بجلی کی
عدم دسیتابی اور طبی سہولتوں کا فقدان اور تعلیم کے شعبہ میں لاپرائی نے
عوام میں غم وغصے کی لہر پیدا کی ہوئی ہے ،اگر عوام اپنے حقوق کے لئے آواز
بلند کرنا چاہے تو اس کو پہلے گھر کے چولہے کی فکر ہے کہ اگر وہ سڑکوں پر
نکل پڑی تو ان کے گھروں میں فاقے ہو سکتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ کھل کر
اپنی آواز بلند نہیں کر پا رہے ہیں۔جہاں تحریک انصاف پاکستان اپنے دھرنے پر
اپنے مقاصد کے حصول تک ڈٹی ہوئی ہے ،وہاں جمہوری حکومت کی دعویٰ دارحکمران
جماعت ٹس سے مس نہیں ہوئی ہے ،حالانکہ اب حالات انکے خلاف وقت کے ساتھ ساتھ
جا رہے ہیں ،بہت سے عناصر جماعت کے اندر بھی اس حقیقت کوجان چکے ہیں کہ کسی
بھی لمحے حکومت گر سکتی ہے اور حکومت کو قائم رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش ہو
رہی ہیں مگر یہاں افسوس ناک عمل یہ ہے کہ میڑو بس جیسی سہولت کے لئے تو
عوام کے اربوں روپے ڈبوئے جا رہے ہیں مگر عوام کو لوڈشیڈنگ جیسے مرض سے
چھٹکار ے کیلئے کوئی بندوبست نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی گیس کی سردیوں میں
کمی کا کوئی بندوبست نظر آرہا ہے ۔یہاں تو سیلاب آتا ہے تو ہر حکومت پچھلی
حکومت پرالزام دھر کو خود پاک صاف ہو جاتی ہے حالانکہ اب وقت ہے کہ مستقبل
کے لئے کوئی مضبوظ حکمت عملی اختیار کی جائے کہ سیلاب کے نقصان سے بچا جا
سکے مگر یہاں عوام کی بھلائی کون سوچے گا؟ یہاں سیلاب سے نقصان پر اربوں
روپے تو بانٹے جا سکتے ہیں مگر اس سے بچاؤ کے لئے لاکھوں روپے خرچ کرنا
حکومت وقت کے لئے گناہ کبیر ہے،کیونکہ میٹرو بس کے لئے پیسہ جو خرچ کرنا
تھا حالانکہ اس سے ملک بھر کی سالوں سے ٹوٹی سڑکیں بآسانی مرمت کروائی جا
سکتی تھیں۔مگر جناب یہاں جب عوا م کے لئے سوچنا محال ہے جب تک ایسا نہیں
ہوگا ہماری عوام یوں ہی پس پس کر مرتی رہے گی ،مگر عوام کو بھی اب اُٹھنا
ہوگا کہ اب بہت ہو چکا ہے ،حکومت وقت کو بھی سنبھالنا ہوگا وگرنہ انکو پھر
اقتدار میں عوام آنے کا موقع نہیں دے گی۔کیونکہ دھرنوں کی وجہ سے ذہنی سوچ
میں تبدیلی کا انقلاب آنا شروع ہو چکا ہے ،عوام کو بہت حد تک مفاد پرست
سیاستدانوں کی سچائی آشکار ہو چکی ہے اب کرپٹ عناصر سے ملک کو چھٹکارہ ملنے
کی امید ہو چلی ہے؟کیونکہ اب غلامی سوچ کی زنجیر ٹوٹنے کو ہے؟ |
|