1969 سے قبل کسی نے یہ نعرہ نہیں
لگایا تھا کہ ہم ’’نیا پاکستان بنائیں گے۔ سبھی کا یہی نعرہ ہوتا تھا کہ ہم
پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنائیں گے اور یہاں قائد اعظم کے خیالات
،تصورات کے مطابق نظام حکومت قائم کیا جائیگا……قائد اعظم کا پاکستان بناتے
بناتے ہم نے آدھا پاکستان ہی کھو دیا…… مگر کسی نے آج تک اس کی ذمہ داری
قبول کرنے کی جرآت اور ہمت نہیں دکھائی نہ فوج نے اور نہ ہی سیاستدانوں کی
جانب سے اپنی غلطیوں کا اعتراف زخمت گواراکی گئی ہے۔ ویسے دونوں فوج اور
سیاستدان پاکستان کے مامے بنتے ہیں۔ دونوں آدھا پاکستان کھودینے کا ایک
دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا تے ہیں۔
مہذب لوگ اور تہذیب یافتہ قومیں سانحات کو نہ صرف برداشت کرتی ہیں بلکہ
آئندہ ایسے حالات و واقعات کے رونما کا سدباب کرتی ہیں۔شائد پاکستان دنیا
کا واحد ملک ہے ،یہاں تو آدھا ملک ہم سے چھن گیا مگر کسی کے کانوں تک جوں
تک نہیں رینگی……وہیں طرز حکومت اور طرز حکمرانی ہمارا وطیرہ برقرار
ہے……انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج کے حصول کے لیے ہم کسی بھی حد تک جانے
سے دریغ نہیں کرتے۔
1970 کی سخت سردیوں میں ہونے والے انتخابات جو 7 اور 17 دسمبر کو بالغ رائے
دہی کی بنیاد پر ہوئے ہم ( اسٹبلشمنٹ )نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے
انکار کر دیا کیونکہ یہ نتائج اسکی مرضی کے مطابق نہ تھے۔ قیام پاکستان
خصوصا بانی پاکستان قائد اعظم کی رحلت کے بعد سے ہم نے اپنی مرضی کے حکمران
اور حکومتیں برسراقتدار لانے کے چکر میں1964 کے صدارتی انتخابات میں
پاکستان بنانے میں قائد اعظم کی شریک کار ،انکی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح
کو چکر دینے سے بھی دریغ نہ کیا۔جو دراصل محترمہ فاطمہ جناح کو نہیں
پاکستان کو چکر دیا۔ چکر دینے کا سلسلہ اور حوصلہ بڑھتا گیا تو پاکستان سے
محبت کرنے والے کم ہوتے گے اور متحدہ پاکستان کی عمر کم ہوتی رہی۔اور یہ
سلسلہ پاکستان میں کرائے جانے والے تمام انتخابات میں جاری و ساری رکھا
گیاہے اورابھی تک ہم اپنے اسی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں کہ ہم ہی عقل کل اور سب
سے زیادہ محب وطن ہیں اور کوئی نہیں……نہ بلوچی ،نہ سندھی اور نہ
پٹھان……!!!!
1971 میں اپنا آدھا وجود کھونے کے بعد لٹے پٹے اور بچے کچھے پاکستان کی
عنان اقتدار سنبھالتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی بار ’’ نیا پاکستان‘‘
بنانے کا نعرہ مستانہ بلند کیا۔ ان کی ’’ نئے پاکستان ‘‘ کی بات تو سمجھ
میں آتی تھی مگر بھٹو کی بات بھٹو کے ساتھ ہی ختم ہوگئی تھی اس کے بعد کسی
نے نئے پاکستان کی بات نہیں کہ بلکہ نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے اضافے کے
ساتھ پاکستان کی حفاظت کی بات کی گئی……کسی نے اسے اسلامی مملکت بنانے کا
نظیریہ اس قوم کو دیا تو کسی نے اسے قائد کا پاکستان بنانے کانعرہ دیا……
باتیں کرنے اور نعرے دینے کے سوا کچھ نہیں عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔
بھارت کی فلموں اور ٹی وی ڈراموں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی
عدالتوں اور دیگر دفاتر میں تمام سیاسی قیادت کی تصاویر دیواروں پر آویزاں
دکھائی دیتی ہیں مگر ہمارے ہاں عدالتوں سے لیکر ہر دفتر میں بس ایک ہی
تصویرآدھی عینک والی دیوار کے ساتھ لگی دکھائی دیتی ہے۔ یعنی ہم کسی سیاست
دان کو چاہے اس نے اس ملک اور قوم کے لیے کتنی بڑی ہی کیوں نہ قربانی دی ہو
کو یہ حق نہیں دیتے …… عزت کے قابل نہیں سمجھتے…… ہم نے سیاستدانوں اور
سیاست کو ایک گالی بنا دیا ہوا ہے۔ باقی اس ملک کو لوٹنے والے کسی بھی طبقے
سے اور گروہ سے تعلق رکھتے ہوں بس سیاستدان نہ ہونا شرط ہے وہ سب قابل عزت
،قابل بھروسہ اور قابل احترام ہیں۔بھارت میں تو نریندر مودی نے گانندھی
اورپنڈت جواہر لال نہرو کے نظریات اور افکار سے منہ موڑ کر بھی بھارت کی
وزارت عظمی حاصل کرلی ہے مگر پاکستان میں قائد اعظم کے نظریات سے روگردانی(
زبانی کلامی) ممکن نہیں لیکن عملی طور پر قائد اعظم بننے کی قطعا ضرورت
نہیں …… وہ ہماری آنکھوں کا تارا اور سرکا تاج ہوتا ہے۔
عمران خان قائد اعظم کے نظریات کو ایک طرف رکھتے ہوئے نیا پاکستان بنانے
نکلے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ یہ نیا پاکستان بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا
نہیں؟ کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو تو نیا پاکستان بنانے کے جرم میں پھانسی کے
پھندے پر جھول گئے ……مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ عمران لبرل سوچ و
نظریات رکھتے ہیں یا طالبانی سوچ کے امین ہیں؟ کیونکہ عمران خاں کی اتحادی
جماعت اسلامی طالبان کی سب سے بڑی حامی جماعت ہے۔ اور عمران خاں کے جلسوں
اور جلوسوں میں ماڈرن ازم کی بھرمار ہونے کے باوجود طالبان کی جانب سے
انہیں کسی قسم کی وارننگ ،دہمکی دیکھنے ، سننے اور پرھنے کو نہیں ملی ،اور
نہ ہی ماڈرن لڑکیوں کو ان کے جلسے جلوسوں میں شرکت سے روکا گیا ہے۔
سوال ابھرتا ہے کہ کیا دو سوچیں عمران خان کو کامیاب سے ہمکنار کر پائیں
گی؟ طالبان ( جو اندھیروں کے امین ہیں) ماڈرن ازم کے جانی دشمن اور ماڈرن
ازم (جو روشنی ہے) طالبانی اندھیروں کا (ویری) ہے کیسے ایک نیام میں سما
سکتے ہیں……عمران خاں کو ان دونوں میں سے کسی ایک انتخاب کرنا ہوگا۔ورنہ ایک
دوسرے کی ضد پر مبنی نظریات اور سوچوں کی یہ سنگت عوام کو نیا پاکستان دینے
میں ناکامیکے سوا کچھ نہ دیگی۔ میری بھی دوسرے پاکستانیوں کی طرح یہی خواہش
ہے کہ نیا پاکستان وجود میں آئے اور ہمارے پوتے اور نواسے ہی سہی خوشحالی
اور امن و سکون کی زندگی بسر کر لیں۔
عمران کاں کو عوام کو اس سے بھی آگاہ کرنا ہوگا کہ وہ نیا پاکستان کس کو
فالو کرتے ہوئے بنائیں گے؟ قائد اعظم کو ، کمال اتارک کو ، اپنے کزن طاہر
القادری کویا پھر ملا عمر کو نیا پاکستان کا مقدر بنائیں گے۔ عمران خاں کو
اپنے ’’ مربیوں ‘‘ پر بھی نگاہ رکھنی ہوگی کہیں ایسا نہ ہو مشکلات سے آزادی
پانے کے بعد انہیں اپنے راستے کا پتھر سمجھتے ہوئے اٹھا کر کسی گہری کھائی
میں نہ پھینک دیں۔ جیسا کہ بھٹو ، محمد خان جونیجو ،نواز شریف اور میر
ظفراﷲ جمالی کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ یہ بھی خود کو بڑا تیس مار خاں سمجھتے
ہیں جیسے کہ آجکل آپ خود کو سپر مین قرار دے رہے ہیں۔فی الحال تو مجھے
عمران خاں کسی بڑے منصب پر فائز ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ عمران خان ،طاہر
القادری، شیخ رشید احمد اور چودہری برادران کی تمام تر جدوجہد تو ملک میں
ایمرجنسی پلس نہیں بلکہ اصلی تے وڈا مارشل لا لگوانے کی ہے۔ جس میں عمران
خاں کا کردار ثانوی قسم کا بھی نہیں ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ مربیوں کا خیال
اور وہ بھی پختہ خیال یہ ہے کہ عمران خاں محمد خان جونیجو ،میر ظفراﷲ جمالی
یا پھر شوکت عزیز بننے کو تیار نہیں ہوگا۔ عمران کا ’’ نیا پاکستان‘‘ ان کے
مربی بنائیں گے؟ |