عوامی فتح کی نوید
(Tariq Hussain Butt, UAE)
کبھی کبھی پردہِ غیب سے وہ کچھ
نمودار ہو جا تا ہے جو انسان کے حیطہِ ادراک سے ماورا ہوتا ہے۔انسان اپنے
ہدف کے حصول کی خا طر منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے لیکن اس کی ساری منصوبہ
بندی اس وقت دھری کی دھری رہ جاتی ہے جب سب کچھ اس کے منصوبوں کے بر عکس ہو
جاتا ہے ۔در اصل انسان کی نگاہ ایک حد تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے،اس سے
آگے دیکھنے کا اسے یارا نہیں ہوتا اور پھرمعاشرے کے دوسرے اہم عوامل جن پر
ایک انسان تکیہ کر رہا ہوتاہے وہ اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہوتے ہیں ۔بعض
حا لات میں تو انسان کو خود پر بھی قابو نہیں رہتا چہ جائیکہ وہ حالات کو
اپنی گرفت میں کرنے کا دعوی کرے۔حضرت علی شیرِ خدا کا قول ہے کہ میں نے خدا
کو اپنے ارادوں کے ٹو ٹنے سے پہچانا۔ الیکشن ۲۰۱۳ میں سات(۷)مئی کا دن
ہمیشہ ایک ایسے دن کی حیثیت سے یاد گارکھا جائے گا جس دن عمران خان لاہور
میں جلسے کے دوران سٹیج سے نیچے گر گئے تھے۔ان کا منصوبہ الیکشن کے آخر ی
دنوں میں جی ٹی روڈ سے اسلام آباد تک جانے کا تھا لیکن الٹی ہو گئیں سب
تدبیریں دل نے کچھ نہ کا م کیا کہ مصداق ان کی ساری منصوبہ بندی دھری کی
دھری ر ہ گئی کیونکہ وہ اس حادثے کے بعد چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہے
تھے۔یہ تو خدا کاخا ص کرم تھا کہ وہ بال بال بچ گئے وگرنہ منصوبہ بندی تو
انھیں بالکل اوپر پہنچانے کی تھی ۔ انھیں ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا
جہاں پر انھیں کئی ہفتوں تک بستر کے ساتھ لگ کر رہنا پرا۔اگر انھیں جلد طبی
امداد نہ ملتی تو ممکن تھا کہ انھیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑ تے ۔یہ
توبھلا ہو شوکت خانم ہسپتا ل کا کہ جہاں انھیں بہترین طبی سہولیات مہیا کی
گئیں اور یوں ان کی زندگی پر منڈلانے والے خطرات ٹل گئے ۔حیرانگی کی بات تو
یہ ہے کہ ان کی منصوبہ بندی تو اسلام آباد جانے کی تھی لیکن پھر انا فانا
یہ حادثہ ہو گیا جس سے ان کی ساری منصوبہ بندی خاک میں مل گئی ۔اس حادثے کے
بعد انتخا بات میں دھاندلی کی ساری راہیں کھل گئیں کیونکہ اب کوئی بڑا قائد
میدان میں موجود نہیں تھا جو روائتی جماعتوں کو انتخابات میں دھاندلی سے
باز رکھ سکتا۔وہی گھسے پٹے سیاستدان تھے جو اقتدار کے بھوکے تھے لہذا جی
بھر کر پنکچرز بھی لگے، آر اوز (ریٹرننگ افسران)نے اپنے رنگ بھی دکھائے،
ایک سیاسی جماعت نے جی بھر کر اپنے نشان کے سامنے ٹھپے بھی لگائے اور من
پسند ووٹوں سے ڈبے بھی خوب بھرے۔وہ سب کچھ کیاگیا جو جیت کے لئے ضروری تھا
کیونکہ میدان بالکل خالی تھا ۔مک مکاؤ کے تحت بندر بانٹ ہو چکی تھی۔ادھر تم
ادھر ہم نے اپنا کام دکھا دیا تھا۔زخمی عمران خان ہسپتال میں بے بسی کی
تصویر بنا یہ سب کچھ دیکھتا رہا لیکن وہ کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں
تھا کیونکہ اس کے مخالفین نے اسے زخمی کر کے چارپائی پر ڈال دیا تھا۔اس کے
حمائتی انتہائی مایوس تھے کیونکہ مئی ۲۰۱۳ کے انتخا بات میں وہ اپنی فتح
کا خواب دیکھ رہے تھے۔ان کی مایوسی قابلِ دید تھی کیونکہ ان کی دنیا ان کے
سامنے لٹ رہی تھی۔ وہ فتح کا سوچ رہے تھے لیکن قدرت کی اپنی منصوبہ بندی
تھی ۔کسے خبر تھی کہ چند مہینوں کے بعد اسی مایوسی سے ایک نیا عمران خان
جنم لے گا جو پورے نظام کو بدل کر نیا پاکستان بنانے کے لئے میدانِ عمل میں
کود پڑے گا ۔انسان بس ایک حد تک دیکھ سکتا ہے او ر واقعات کی کڑیوں سے ہی
تصویر بنانے پر قادر ہوتا ہے۔اسے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ کل کیا ہونے والا ہے
اور یہ کل اس پر کس انداز میں اثر انگیز ہو گا۔غیب کا علم صرف اﷲ تعالی کو
ھاصل ہے ۔انسان صرف ٹیوے اور اٹکلے ہی لگا سکتا ہے اور کل کے چلمن میں
سوائے حیرت کے کچھ نہیں دیکھ سکتا ۔اس کی یہ حیرت کبھی کبھی نئی ایجادات کا
پیش خیمہ بھی بن جاتی ہے بالکل ویسے ہی جیسے نیوٹن کے سر پر سیب گرنے سے اس
نے کششِ ثقل کا قانون دریافت کر لیا تھا جس سے انسانی ترقی کا ایسا دور
شروع ہوا جس نے انسان کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی ۔ اس حا دثے سے نئے عمران
خان کا جنم ہواجو اب تبدیلی کا استعا رہ بن چکا ہے۔
یہ میری ذاتی رائے ہے کہ اگر ۲۰۱۳ کے انتخا بات کے نتیجے میں عمران خان کو
اقتدار مل جاتا تو شائد وہ حکومتی امور چلانے میں ناکام ہو جاتااور عوام کے
دلوں میں پلنے والی تبدیلی اپنی موت ہی مر جاتی ۔عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ
کے ساتھ نبھا کرنے کا تجربہ نہیں تھا،وہ انتظامی میدان میں بھی بالکل کورا
تھا اور اس کے پاس ٹیم بھی کوئی اعلی پائے کی نہیں تھی جس کا لازمی نتیجہ
اس کی ناکامی کی صورت میں نکلنا تھا۔ریاست چلانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں
ہوتا اورعمران خان ا س وقت تک اسے بچوں کا کھیل ہی سمجھ رہا تھا۔چند لا
ابالی نوجوان اپنی دانست میں اقتدار تک پہنچے کے ایسے خواب سجائے ہوئے تھے
جو وقت کی بے رحم حقیقتوں کے ساتھ تال میل نہیں کھا رہے تھے ۔شائد یہی وجہ
ہے کہ عمران خان کو پہلے اسمبلی میں لایا گیا، ایک صوبہ اس کے ھوالے کیا
گیا، اسے دباؤ سہنے کا عادی بنا یا گیا اور اسے مصا ئب و مشکللات سے گزے کے
فن سے آشنا کیا گیا تا کہ اس میں تحمل اور برداشت کا عنصرنما یاں ہو۔مجھے
اس سلسلے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا پہلا دور ِ حکومت( دسمبر ۱۹۸۸ تا
اگست ۱۹۹۰ )یاد آرہا ہے جس میں بی بی کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے اس کی
حکومت انیس (۱۹) ماہ کے بعد ہی رخصت کر دی گئی تھی۔مسئلہ یہ نہیں تھا کہ
محترمہ بے نظیر بھٹو ذہین نہیں تھیں یا انھیں حقا ئق کا ادراک نہیں تھا
بلکہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ ملک چلانے کیلئے جس تجربے کی ضرورت ہوتی ہ وہ اس
سے نابلد تھیں۔پاکستان کی خو نخوار اسٹیبلشمنٹ کے سامنے محترمہ بے نظیر
بھٹو کا چراغ جلنا ممکن نہیں تھا۔وہ دل کی سچائی کی قائل تھیں لیکن سیاست
دل کے ساتھ ساتھ دماغ کا کھیل بھی ہوتاہے جس میں کبھی کبھی دل کو ایک طرف
بھی رکھنا پڑتا ہے ۔محلاتی سازشیں او ر موقعہ پرستوں کے چیرہ دستیاں صرف
اسی وقت سمجھی جا سکتی ہیں جب انتظامی امور سے نپٹنے کا ہنر آتا ہو۔پہلے
دورِ حکومت کی نسبت دوسرا دورِ حکومت (جولائی ۱۹۹۴ تا نومبر ۱۹۹۶ زیادہ
بہتر تھا کیونکہ استیبلشمنٹکا چند سالہ تجربہ اب محترمہ بے نظیر بھٹو کے
ساتھ تھا۔ان کی شخصیت میں جو پختگی جلا جلا وطنی کے دور میں پیدا ہوئی اس
نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک علیحدہ سوچ اور فکر سے متصف کیا اور یوں وہ
ایک نئی بے نظیر بن کر سامنے آئیں ۔اب ان کا ہدف عوام اور ان کے مسائل سے
نبرد آزما ہونا تھا۔اب ان کی نظر میں سب کو ساتھ لے کر چلنا تھا اور شائد
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں محمد نواز شریف کے
ساتھ میثا قِ جمہوریت کا معاہدہ کیا ۔انھوں نے قومی مصالحتی سیاست کا ایک
نیا باب رقم کیا۔ایک ٹوتھ کمیشن کا قیام ضروری سمجھا گیا تا کہ ماضی کے
واقعات سے سبق تو سیکھا جائے اور سب کو معاف کر کے ایک نیا باب رقم کیا
جائے۔افسوس ان کی شہادت کے بعد ان کی مفاہمتی سیاست کا سارا مفہوم ہی بدل
ڈالا گیا اور مفاہمت کو کرپشن چھپانے اور عوام کو لوٹنے کا اوزار بنا لیا
گیا اور اسے ذا تی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔پاکستان کے سیاسی نظام کی
تباہی کی ذمہ دار یہی مفاہمتی سیاست ہے جس میں جوابدہی کا عنصر غائب ہو چکا
ہے اور حکمران کرپشن کرنے کیلئے بالکل آزاد ہیں۔اس طرح کی کرپٹ روش سے قوم
مفاہمتی سیاست کے ھقیقی مقاصد سے بہت دور چلی گئی۔کسی ملک کی اس سے زیادہ
بد قسمتی اور نہیں ہو سکتی کہ حکومت اور اپوزیشن مک مکا کر لیں اورقومی
خزانہ بے دریغ لوٹ ماڑ کی بھینٹ چڑ ھ جائے۔مفاہمتی سیاست کا مفہوم یہ تھا
کہ جو جماعت شفاف اور منصفانہ انتخابات جیت کر آئے اسے اپنی مدت پوری کرنے
کی اجازت ہونی چائیے۔ احتجاج،لانگ مارچ اور دھرنوں سے اسے روکا نہیں جانا
چائیے تا کہ جمہوری سفر آگے کی جانب گامزن ہو سکے۔اس سوچ پر اس وقت کاری
ضرب لگی جب چند بڑی جماعتوں نے اپنے اپنے علاقوں میں دھاندلی کے ذریعے اپنی
کامیابی کو یقینی بنا لیااور پھر ایک دوسرے کو تحفظ دینے کا آغاز ہو گیا تا
کہ پاکستان میں ان کا قتدار سدا قائم رہے۔پاکستان اس وقت کرپشن لوٹ مار اور
نا انصافی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔ آزمائش کی انہی گھڑیوں میں عمران خان
ایک نئے نعرے کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔انھوں نے نئے پاکستان کا نعرہ لگایا ہے
جسے عوام کی مکمل تائید حاصل ہو چکی ہے۔اب وہ ایک ایسے راہنما کی صور ت
اختیار کر چکے ہیں جن سے عوام نے اپنی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔اب ان میں
پختگی بھی ہے ،دور اندیشی بھی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کا تجربہ بھی ہے لہذا ان
کی آواز عوامی فتح کی نوید بن چکی ہے ۔،۔ ۔،۔ ،۔، |
|