اصلی اور نوجوان قیادت

بہت سے دوست پوچھتے ہیں کہ میں سیاسی کالم کیوں نہیں لکھتا۔ اب انہیں کیا بتاؤں کہ میرے نزدیک سیاسی تو ایک رابطہ ہے جو فرد اور معاشرے کے درمیان پل کا کام کرتا ہے۔سیاست تو خدمتِ خلق کا ایک جذبہ ہے جس سے لوگ فیضیاب ہوتے ہیں۔ سیاست تو ایک مہک ہے کہ جس کی خوشبو سارے علاقے کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ہے مگر مجھے کوئی فرد اور معاشرے میں کبھی کوئی رابطہ دکھائی نہیں دیا، کبھی کوئی جذبہ محسوس نہیں ہوا، کبھی کوئی مہک مجھ تک نہیں پہنچی۔ میں وہ سیاست تلاش کر رہا ہوں کہ جس پر کوئی رائے زنی کر سکوں۔ اشرافیہ کے گندے کھیل کو جسے وہ سیاست اور جمہوریت کا نام دیتے ہیں اور اپنے کارندوں کے ذریعے جس کی تشہیر کرتے ہیں۔ میں کیسے سیاست اور جمہوریت مان کر واہ واہ کے ڈونگرے بجاؤں۔ ہاں کبھی کبھی ان نام نہاد سیاستدانوں کی باتیں سن کر رگِ ظرافت پھڑک اٹھتی ہے۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق فرماتے ہیں کہ مٹھی بھر کرپٹ اشرافیہ نے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ وہ ملک پر قابض ہیں اور انہوں نے ملکی سیاست پر قبضہ جما کر عوام کو غلام بنا رکھا ہے۔ پتہ نہیں اس بات کا احساس جماعت اسلامی کو اتنی دیر بعد کیوں ہوا ہے۔ اشرافیہ تو ہمیشہ ہی کرپٹ ہوتا ہے۔ اشرافیہ کی قدریں بھی عوام کی قدروں سے بہت مختلف ہیں۔ جماعت اسلامی عملاً عوام کی پارٹی ہونے کے باوجود اشرافیہ کے ہم رکاب کیوں رہی۔ یہ بات عام آدمی کے فہم سے بالاتر ہے۔ جناب سراج الحق اس پر پوری طرح غور کریں۔ بات اگر انہیں سمجھ آ گئی تو جماعت اسلام کے ووٹ بنک میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے شاید عوام کا بھی بھلا ہو جائے۔

سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا ارشاد ہے کہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس بلاول کی شکل میں اصل نوجوان قیادت ہے۔ مجھے کچھ ان کی بات سمجھ نہیں آئی۔ ان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اور اُن کے آبا و اجداد لوگوں پر حکمرانی کے لیے کسی اپنے سے بڑے حاکم کی غلامی کرتے رہے ہیں۔ اور یہ غلامی ان کے خون میں رچی ہوئی ہے۔ وہ اقتدار کے پجاری ہیں۔ جب تک کوئی دوسرا گرو پ جو انہیں اپنا لے، انہیں اقتدار میں آتا نظر نہیں آتا وہ بلاول کے در پر ماتھا ٹیکے رہیں گے۔ بلاول کے بارے میں انہوں نے دو باتیں کی ہیں۔ ایک نوجوان قیادت اور دوسرا اصل قیادت۔ نوجوانی اور قیادت بڑی مختلف چیزیں ہیں۔ بلاول کی نوجوانی کے بارے میں کسی کو کوئی شک نہیں۔ جوانی کے بغیر تو اس قدر اچھل کود ممکن ہی نہیں ہوتی۔ زرداری صاحب یا کوئی میری عمر کا بندہ اگر اچھل کود کرے۔ تیزی سے دائیں سے بائیں اور آگے سے پیچھے ہونے کی کوشش کرے تو یہ بات رسک فری نہیں ہو سکتی۔ دائیں تیزی سے مڑنے کے بعد بائیں مڑنے کی کوشش نہ صرف ناکام ہو جاتی ہے بلکہ مہنگی بھی پڑتی ہے ۔ ایسے خطرات جوانی ہی کو زیب دیتے ہیں۔ اچھل کود کے حوالے سے بلاول کی نوجوانی بلاشک و شبہ بہت مستند ہے مگر یہ عمر کی نوجوانی ہے۔ قیادت کے حوالے سے تو اُسے سیاست میں آئے ابھی چار دن ہوئے ہیں۔ اس لئے سیاسی قیادت کے حوالے سے ابھی ان کی قیادت نابالغ ہے۔ ابھی جوان ہونے میں کچھ دن لگیں گے۔

ایک کہاوت ہے کہ چالیس سال کی عمر میں جوانی کے بڑھاپے کی ابتدا ہوتی ہے اور پچاس سال کی عمر میں بڑھاپا جوان ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہر چیز اپنے معیار کے حوالے سے جوان اور بوڑھی ہوتی ہے۔ بلاول کی قیادت کو نوجوان قیادت میں ڈھلنے کے لئے اک عمر درکار ہے۔ مگر اس کے لئے سازگار ماحول بہت ضروری ہے جس طرح بوڑھ کے درخت کے سائے میں کوئی دوسرا پودہ پنپ نہیں سکتا کہ اس کی گھنی چھاؤں کے سبب دھوپ اور ہوا پوری طرح حاصل ہی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح زرداری صاحب اور اُن کی مفاہتی سیاست کے زیر سایہ بلاول کا بالغ ہونا سیاسی طور پر بہت محال نظر آتا ہے۔ بلاول کو سیاست میں اپنا مقام بنانے کے لئے زرداری صاحب کی بیساکھیوں کو چھوڑنا ہو گا۔ رہی بات اصل قیادت کی تو اس کے بارے میں بہت سے قصے لوگوں میں ابھی تک زیر بحث ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری میں زرداری اصلی ہے یا بھٹو اس کا فیصلہ بھی تاریخ کرے گی۔ مگر وہ دستاویز کہ جس کے سبب قیادت کا حق دار بلاول کو ٹھہرایا گیا ہے وہ بھی ابھی تک زیر بحث ہے کہ اصلی بھی تھی کہ نہیں۔

جناب جاوید ہاشمی کی سیاست بھی خوب ہے۔ پہلے باغی تھے۔ پھر داغی ہو گئے۔ آج نیا بیان آیا ہے۔ کہتے ہیں عمران خان نظام کی درستگی چاہتے ہیں، وقت آ گیا ہے انہیں مضبوط کیا جائے۔کمال ہے کہ ان کا وقت کوئی دو ماہ لیٹ آیا ہے۔ ویسے ان کی عادت بن چکی ہے کہ جس پارٹی میں ہوں اس کے مخالفوں کے حق میں بھی ایک آدھ بیان دے کر انہیں خوش رکھتے ہیں مگر اب ان کے اس بیان پر لوگ یہی سمجھیں گے کہ بدھو کو گھر یاد آگیا۔ ہاشمی صاحب کو سیاست میں زمانہ ہو گیا پتہ نہیں انہیں یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ سیاست میں عزت اسی کی ہے جو ہر حال میں چاہے وہ اچھے ہوں یا برے اپنے دھڑے کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔ ورنہ لوٹا تو پھر لوٹا ہی ہوتا ہے۔جس کی عزت تو قدرے ہوتی ہو مگر اعتبار کوئی نہیں کرتا۔

سیاستدانوں کی بات چلی تو یاد آیا۔ ایک بچہ گھر کے مالی حالات سے پریشان تھا ۔ ماں باپ کی پریشانی دیکھ کر اس نے ایک دن رب العزت کو خط لکھاکہ اے میرے اﷲ میاں! میں چھٹی کلاس کا طالبعلم ہوں میرے ماں ماپ کو پیسوں کی شدید ضرورت ہے۔مہربانی فرما کر صرف دس ہزار روپے بھیج دیں۔ڈاک والوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ خط کہاں بھیجا جائے۔ پتہ نہیں کیا سوچ کر انہوں نے وہ خط وزیراعظم ہاؤس بھیج دیا۔ وزیراعظم ہاؤس کے کسی افسر کو بچے پر ترس آ گیا۔ بچہ سمجھ کر اسے ایک ہزار روپے بھیج دیئے گئے۔ پیسے پا کر بچہ خوش ہو گیا اور فوراً ایک نیاخط لکھ دیا۔ اﷲ میاں ، آپ کا شکریہ۔ مگر آپ نے پیسے غلط لوگوں کے ہاتھ بھیجے ہیں۔ آپ کو تو پتہ ہے ہمارے سارے سیاستدان کرپٹ ہیں۔ کم بختوں نے مجھے صرف ایک ہزار بھیجا ہے اور باقی نو ہزار خود کھاگئے ہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 447374 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More