میں کس کے ہاتھوں پہ اپنا لہو تلاش کروں
(Sameena Shahnwaz, Bahawalpur)
اس جدید دور کی چکا چوند میں کھو
یا انسان بھی کتنا عجیب ہے ہر طرف معصوصیت کے بہتے آنسو، انسانیت کی بکھرتی
دھجیاں، بستر مرگ پر آخری سانس لیتی اخلاقیات کی نیم بے جاں لاش ، نسوانیت
کے بگڑے خدوخال، نام نہاد مردانگی کے پتلے ہر سو جلواہ گر ہیں۔ دل ہلا دینے
والے لرزہ خیز واقعات ہر آنکھ کو اشکبار ہونے پر مجبور کیے دیتے ہیں۔ ہم
سماجی طور پر بے حسی کی آخری انتہاکو چھونے والے سماجی رویوں کا شکار ہیں۔
انفرادی کی بجائے اجتماعی انقلاب کے دلدا دہ ہیں ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم
اس معاشرہ کے باسی ہیں جہاں دوسروں کو کمتر ثابت کرنا ہی اپنی برتری
سمجھاجاتا ہے اور اس طرح خود سے کمتر کرنے کی کوشش میں ہم اجتماعی طور پر
کمتر معاشرے کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ شکوک و شبہات، منفی رویے، بوکھلاہٹ،
ذہنی کشمکش، بے یقینی اور بے حسی کا زہر ہماری معاشرتی جڑوں کو کھوکھلا کر
چکا ہے۔ مگر ہم احمقوں کی جنت میں زندہ ہیں اور اتنی سی بات بھی سمجھنا
نہیں چاہتے انقلاب یا تعمیر ی تبدیلی محض خوابوں اور آرزوں سے نہیں آتی اس
کے لیے اپنی ذات سے خود آغاز کرنا پڑتا ہے۔
سب سے پہلے اپنی ذات میں تعمیری و مثبت تبدیلی اور انقلاب برپا کرنے کی
ضرورت ہوا کرتی ہے مگر عقل و خرد سے نا آشنائی کی انتہاء تویہ ہے کہ ہم
انسانیت کے اتنے ٹکڑوں(ذات ، برادری، لسانی، علاقائی) میں تقسیم کرچکے کہ
اب ہمیں سماج میں انسانیت کی باقیات تک ملنا مشکل نظر آتا ہے اور روز
بروزحالت مزید ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی ہے اور ہماری قوم پھر بھی انقلاب کو
آنکھوں میں بسائے بیٹھی ہے اور اپنی ذمہ داری نبھانے کی بجائے کبھی اہل
اقتدار، کبھی بیورو کریسی تو کبھی کسی بیرونی طاقت یا سیاسی شخصیت کو
انقلاب کی ذمہ داری سونپ کر خو د کو مبرا سمجھا جاتا ہے اور اس ارض پاک کے
باشندے علاقائی، صوبائی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور لسانی تعصبات و تفریق میں
اس قدر کھو چکے کہ شعور اس بات کو ماننے سے ہی منکر ہونے لگتا ہے کہ ہم بنی
نوع انسان ہیں یا کوئی فرقہ وارانہ، علاقائی اور لسانی نوع کی کوئی مخلوق؟
افسوس ہم یہ بھول گئے کہ قانون ِ قدرت ہے کہ کائنات میں وہی چیز پلٹ کر
انسان کی طرف آتی ہے جو انسان دنیا کو دیتا ہے۔ہم کسی کو منفی رویوں اور
غصہ دے کر کیسے یہ سوچ سکتے ہیں کہ ہمیں مقابل سے مسکراہٹ ملے گی۔
حقیت تو یہ ہے کہ اس معاشرتی زندگی کے امن و سکون کی تباہی کے ذمہ دار ہم
خود ہیں اس لیے ضرورت اس امر کی کہ ہم اس سچائی سے آشنا ہو کر اس سچائی کو
اپنے ذہنوں میں محفوظ کر لیں کہ انسانیت اس کائنات کی سب سے قیمتی اور اہم
اخلاقی قدر ہے اگر آج ہم نے اسے کھو دیا جو کہ ہمارا قومی وطیرہ بن چکا ہے
تو نہ صرف ہم خود خمیازہ بھگتیں گے بلکہ آنے والی نسلوں کے مجرم گردانے
جائیں گے۔ کیونکہ ہم ہی آنے والی نسلوں کے امین ہیں سو ہمیں ہی سوچنا ہو گا
کہ ہم موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں کے حوالے کونسی روایات، اخلاقیات اور
اقدار منتقل کر کے جا رہے ہیں۔ ارباب ِ اہل اقتدار تو کیاعام آدمی اس حقیت
کو سمجھ کر عمل پیر ا ہو سکے مگر افسوس
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی ۔
شریک ِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے۔ |
|