ایک غلط جنون

افسوسناک، انتہائی افسوسناک کہ ایک گروپ اپنی عددی برتری کے بل پر اسی مٹی سے جنم لینے والے، اپنے ہی ایک ساتھی کو مذہبی تعصب کی بنیاد پر زندہ جلا دے یا اپنے ذاتی مفاد کے لئے ایک انتہائی گھٹیا الزام مذہبی حوالے سے لگا کر لوگوں کو مشتعل کر کے دو شہریوں کو آگ میں پھینکوا دے۔ اس قدر سفاکی، اس قدر بے حسی اور آج کے دور میں۔ گیارہویں صدی عیسوی میں منگولوں کی سفاکی کے بہت زیادہ قصے ہیں۔ چنگیز خان نے چوراسی لاکھ انسانوں کو قتل کیا۔ اس کی سفاکی تاریخ میں رقم ہے مگر قتل ہونے والے اس کے دشمن تھے۔ اس نے جہاں جہاں فتوحات کیں وہاں کے بادشاہوں کو ناکارہ کرنے اور آئندہ مقابلے پر نہ آنے کے جذبے کے تحت ان بستیوں کو تاراج کیا مگر اپنی رعایا کے ساتھ اس کا سلوک بہت مختلف تھا۔ وہاں مکمل قانون کانفاد تھا۔ سزا صرف اور صرف خان دے سکتا تھا کسی کو کسی کے ساتھ زیادتی کا حق نہ تھا مگر ہم تو مغلوں کو بھی مات دے چکے۔ اس قدر بے رحمی، بے دردی اور بے حسی۔ حیران ہوں کہ ایک ہجوم اکٹھا تھا اور کسی میں اتنی غیرت، اتنی ہمت اور اتنی جرات نہیں تھی کہ کہتا کہ اگر کوئی جرم ہوا ہے تو سزا ریاست کی ذمہ داری ہے اور پھر اﷲ کی کتاب سے اگر زیادتی ہوئی ہے تو اﷲ بھی موجود ہے۔ ہماری مسجدوں کے مولوی جو ذہنی پسماندگی میں ابھی دس صدیاں پیچھے ہیں، مسجدوں سے اعلان کر کے لوگوں کو اکٹھا کرتا رہے اور آگ کو ہوا دیتے رہے۔ اس ہولناک نظارے کو دیکھنے ہزاروں مسلمان موجود تھے۔ کیسے مسلمان؟ مسلمان جواری، مسلمان شرابی، مسلمان سود خور، مسلمان حرام، کون سا شخص ایسا تھا جو صحیح اور سچا مسلمان تھا؟ قرآن کو جاننے اور ماننے کا اقرار کرنے والے بھی اگر اس پر عمل نہیں کرتے تو یہ بھی قرآن سے ایک مذاق ہے اور ایسے کرنے والے بھی آگ میں پھینک دینے کے قابل ہیں۔ قرآن تو ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے مگر یہاں دو معصوم اور نہتے انسانوں پر مسلمانوں کے ایک جم غفیر کی لشکر کشی۔ مسلمان اخلاقی طور پر اس قدر۔۔۔ نہیں یہ مسلمان نہیں ہو سکتے۔ اور اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر ہم سب کو تباہی سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ قوموں کو زوال کا سبب ہمیشہ اخلاقی گراوٹ ہوتی ہے۔

دو بے بس میاں بیوی اور مذہبی جنون کا شکار مذہبی قدروں سے ناواقف ایک ہجوم۔ دنیا کا کوئی مذہب، کوئی مسلک، کوئی قانون اور کوئی ضابطہ اس سفاکی کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر اسلام کے نام پر حاصل کردہ اس ملک میں ہر مافیہ کو مادر پدر آزادی حاصل ہے، وہ شرفا کا مافیہ ہو، مذہبی ٹھیکیداروں کا مافیہ ہو، وہ وکیلوں کا مافیہ ہو، وہ سرکاری افسروں کا مافیہ ہو یا کسی بھی پیشے سے تعلق رکھنے والا با اثر لوگوں کا مافیہ ہو۔ ان سب کے لئے اس ملک میں کوئی قانون اور کوئی ضابطہ نہیں۔ یہاں کے تمام قانون اور تمام ضابطے صرف اور صرف عام اور غریب لوگوں کے لئے ہیں کہ انہیں ان کی حدود سے باہر نہ نکلنے دیا جائے۔ اشرافیہ کے لوگ، بیوروکریٹ، سیاستدان، مذہبی لیڈر اور دوسرے با اثر طبقے کچھ بھی جرم کریں۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی کو کوئی سزا نہیں کوئی۔ کبھی کسی نے سختی سے پوچھا بھی نہیں۔ دو معصوم جانوں کو زندہ آگ میں پھینک کر جلا دینے کا واقعہ جہاں با اثر لوگوں کی سفاکی کو ظاہر کرتا ہے وہیں یہ انتظامیہ کے قانون اور عدلیہ کے انصاف کی کمزوریوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح کے واقعات ہر چھ ماہ یا سال بعد رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ پیشہ ور تنظیمیں احتجاج کرتی ہیں۔کچھ لوگ جن میں حیا مفقود ہوتا ہے۔ تھوڑا سا وقت کا انتظار کرتے ہیں اور پھر ملزموں کی حمایت میں نکل آتے ہیں۔ دنیا بھر کا اصول ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل ہے۔ انصاف میں تاخیر کرنے کے لئے انصاف کے پیشہ ور قاتل کرایے پر حاصل کر لئے جاتے ہیں۔ پھر کیس کو مناسب وقت تک لٹکایا جاتا ہے اور قاتل دندناتے ہوئے پھر ہمارے درمیان موجود ہوتے ہیں بعض تو مجاہد بن جاتے ہیں۔ موجودہ کیس میں بھی اگر موجودہ حکومت نے حالات سے سبق نہیں سیکھا تو شاید یہی ہو لیکن انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پولیس کو ٹارگٹ وقت دیا جائے کہ مقدمے کا چالان زیادہ سے زیادہ ایک ماہ یا کسی مخصوص مدد میں مکمل کرے۔ عدالت کیس کا فیصلہ بھی محدود مدت میں کرے لیکن موقع پر موجود دو ہزار آدمیوں کو اگر موقع کے گواہ مان لیا گیا تو دس بیس سال گواہوں کو گواہی دینے میں لگ جائیں گے اور کیس عملاً ختم ہو جائے گا۔ وہ مسجدیں جن پر اعلانات ہوئے ان مسجدوں کے ذمہ داران بھی کڑی سزا کے مستحق ہیں تاکہ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ اس کے بغیر انصاف نامکمل رہے گا۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف حسبِ روایت جائے وقوع پر پہنچے مگر نعرے بازی اور موجودہ حالات کے خوف کے سبب جلدی میں تھے۔ بڑی پھرتی سے آئے اور اس سے بھی زیادتی پھرتی سے واپس چلے گئے۔ مقتولین کے بچوں اور ان کے خاندان کے لئے انہوں نے پچاس لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ 10 ایکڑ زرعی رقبہ کا اعلان بھی کیا۔ ان کے بچوں کی پڑھائی سرکاری خرچ پر کرنے کا بھی اعلان ہوا۔ جناب شہباز شریف نے کہا کہ مجرموں کو سزا دلوانے تک وہ آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ اگر واقعی یہ سب کچھ ہو جائے تو یقینا یہ ایک بڑا کام ہو گا مگر ماضی کی روایات سے لوگ کچھ امید افزا صورتحال نہیں دیکھتے۔ ماضی میں دی جانے والی رقم کے چیک کیش ہی نہیں ہوتے رہے یا اگر کیش ہوتے رہے تو باقاعدہ اس کا کچھ حصہ وصول کرنے کے بعد۔ زمین جو الاٹ ہوئی وہ غریب لوگوں کی رہائش سے اس قدر دور تھی کہ وہاں جانا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ لینڈ مافیہ کے لوگ ان سے سودا کر کے انہیں اونے پونے پیسے دے کر وہ زمین ہتھیا لیتے۔ امید ہے میاں شہباز شریف اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ حقداروں کو دی جانے والی امداد ان تک پہنچ جائے اور انصاف ہوتا نظر آئے۔ اگر اس کیس کے ملزم انجام کو پا گئے تو دہشت گردی جو غلط طور پر مذہب کے نام پر ہو رہی ہے اپنے انجام کو پا لے گی اور آئندہ اقلیتیں بھی آرام اور سکون سے بسر کر سکیں گے۔

میں نے چند دن پہلے عید کے دن بھٹہ مزدوروں کی حالت زار پر ایک کالم لکھا تھا کہ بہت زیادہ محنت کرنے کے باوجود ان مزدوروں کو معاوضے میں صرف اور صرف قرضہ اور قید ہی ملتی ہے۔بھٹہ مالکان فرض دے کر بھٹہ پر کام کرنے والے مزدوروں کو لاتے ہیں مگر انکا معاوضہ اس قدر قلیل ہوتا ہے کہ اس معاوضے میں ان کا گزارہ ممکن نہیں ہوتا۔ زندہ رہنے کے لئے ان کو بھٹہ مالک سے مزید قرضہ لینا پڑتا ہے۔ وہ قرضہ ادا ہونے کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ مزدور قرضے کے جال میں پھنستا ہی چلا جاتا ہے جب قرضہ حد سے زیادہ ہو جاتا ہے تو نجات کی ایک ہی صورت ہوتی ہے کہ رات کے اندھیرے میں وہ لوگ بھاگ جائیں۔ بھٹہ مالک بھی بہت ہوشیاری سے انہیں اس قید میں رکھتے ہیں اور بھاگنے نہیں دیتے۔ یہ کشمکش بہت سے سانحے جنم دیتی ہے اور سانحے کا شکار بھٹہ مزدور ہی ہوتا ہے۔ حکومت کو بھٹہ مزدوروں کی اجرتوں کا جائزہ لینا اور ہر بھٹے پر قید اور قرض میں جکڑے ہوئے مزدوروں کے حالات کو بہتر کرنے کا انتظام کرنا ہو گا۔ بھٹہ مزدوری معاشرے کا ایک مستقل ناسور ہے۔ جس سے نجات کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔
میں دوبارہ یہی کہوں گا کہ اصل برائی قانون کا دہرا معیارہے یعنی غریب اور امیر کے لئے الگ الگ او ر دوسرا انصاف میں غیر ضروری تاخیر ہے۔ اس طرح کے کیسوں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹنا پولیس کو جوڑ توڑ کا موقع دئیے بغیر چالان بروقت پیش کرنا اور عدالتوں کا فوری سماعت کے بعد فوری فیصلہ دینا ہے۔ دو چار دفعہ کیا اگر ایک دفعہ بھی ملزموں کو صحیح معنوں میں سزا ہو جائے تو اس ملک کے شہریوں کو چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، فرقے یا مسلک سے ہو زندہ رہنے کا حق مل جائیگا۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 447346 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More