زیرو ٹالرنس ۔۔۔۔!!!

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت اصمی ؒ کہتے ہیں لوگوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے کہا کہ آپ حضر ت عمر بن خطاب ؓ سے بات کریں کہ وہ لوگوں کے ساتھ زمی اختیار کریں اس وقت تو ان کے رعب کا یہ حال ہے کہ کنواری لڑکیاں بھی اپنے پردے میں ان سے ڈرتی ہیں ۔حضرت عبدالرحمن نے جا کر حضرت عمر ؓ سے بات کی تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں تو ان کے ساتھ ایسے ہی پیش آؤں گا کیونکہ اگر ان کو پتہ چل جائے کہ میرا دل میں ان لوگوں کے لیے کتنی مہربانی شفقت اور نرمی ہے تو یہ میرے کندھے سے کپڑے اتا ر لیں ۔

قارئین ایک عجیب و غریب معاشرے کے ماحول میں ہم رہ رہے ہیں ناجینے کی کوئی ادا یاد رہی ہے اور نہ ہی مرنے کا کوئی سلیقہ ہم میں موجود ہے یوں لگتا ہے جیسے ایک جنگل کے ماحول میں رہتے ہوئے بہت سے انسان بھی جانور بن چکے ہیں کالم کا آغاز ان تلخ الفاظ کے ساتھ کرنے کی کچھ وجوہات ہیں یہ وجوہات ہم آپ کے ساتھ براہ راست شیئر کریں گے لیکن بقول غالب
غالب رکھیو مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے

اس کیفیت کی وجہ چند واقعات ہیں میرپور میں گزشتہ دنوں ایف ون کوٹلی روڈ پر پچاس سالہ ایک بزرگ موٹر سائیکل پر جا رہے تھے کہ ان کی ٹکر ایک ٹرک سے ہو گئی شدید زخمی حالت میں محمود نامی یہ بزرگ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور میں لائے گئے جو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کا ٹیچنگ ہسپتال بھی ہے موقع پر موجود عملے نے انہیں اٹینڈ کیا ان کی حالت بہت خراب تھی اور ان کی کئی پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور کچھ ہڈیاں پھیپھروں میں گھس چکی تھیں انتہائی نازک حالت میں محمود نامی اس بزرگ کے لواحقین نے ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف سے درخواست کی کہ کسی طریقے سے اس مریض کے جسم سے بہنے والے خون کو روکا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ زخمی پھپھڑوں میں گھسی ہوئی پسلی کی ہڈیوں کو اس طریقے سے ٹریٹ کیا جائے کہ مریض کم از کم سانس تو لے سکے ۔مریض اس وقت ہوش میں تھا اور اس کی اہلیہ اس کے ہمراہ تھی وہ اپنی اہلیہ سے باتیں کر رہا تھا بقول لواحقین کے موقع پر موجود سرجن ڈاکٹر زرداد خان نے انہیں اس مریض کے ڈیجیٹل ایکسرے کروانے کے لیے ہسپتال سے باہر ریفر کر دیا اور اس کے علاوہ سانس کی بحالی کے لیے ایک ٹیوب مارکیٹ سے لانے کو کہا یہ لوگ برق رفتاری سے میڈیکل سٹوروں کی طرف بڑھے اور بہت تلاش کے بعد سٹی ہسپتال میرپور سے ڈاکٹر زرداد خان کی طلب کردہ ٹیوب مل سکی ۔ایکسرے کروانے اور دیگر لوازمات پورے کرنے میں ایک گھنٹا گزر گیا اور مریض کو آپریشن تھیٹر میں شفٹ کرنے تک بہت سا خون بہہ چکا تھا اور مریض باتیں کرتا کرتا نڈھال ہو چکا تھا اس پر بے ہوشی طاری ہو رہی تھی مریض کی اہلیہ چیخ چیخ کر ڈاکٹرز سے اپیل کرتی رہی کہ اس کے شوہر کی زندگی بچائی جائے جب مریض کی حالت بہت نازک ہو گئی تو سرجن زرداد خان کو دوبارہ بلایا گیا بقول سرجن ڈاکٹر زرداد خان کے وہ دوڑتے ہوئے واپس آئے لیکن کچھ ہی دیر میں یہ مریض خالق حقیقی سے جاملا ۔موقع پر کہرام مچ گیا اور لواحقین نے احتجاج کرنا شروع کر دیا کہ ایک گھنٹا صرف ایکسرے کروانے اور مختلف چیزیں منگوانے میں ضائع کر دیا گیا جس کی وجہ سے ان کے مریض کی جان چلی گئی اور اس کی سو فیصد ذمہ داری انہوں نے سرجن ڈاکٹر زرداد خان اور ڈی ایچ کیو ہسپتال میرپور پر ڈال دی ۔غصے میں بے قابو مجمع نے ڈاکٹر زرداد خان کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیا اور انہیں زد و کوب کرنا شروع کر دیا موقع پر موجود پیرا میڈیکل سٹاف اسحاق گورسی نے لواحقین کو سمجھانے کی کوشش کی کہ مریض کی جان جانے میں ڈاکٹر زرداد خان کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن غصے اور غم کی شدت میں مبتلا مجمع کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہ تھا اور روکنے پر انہوں نے ڈاکٹر زرداد خان کو چھوڑا اور اسحاق گورسی کو بُری طرح پیٹنا شروع کر دیا ۔آخری اطلاعات آنے تک اسحق گورسی جس ہسپتال میں لوگوں کا علاج کرتا تھا آج خود زیر علاج ہے ڈاکٹر زرداد خان کے ساتھ ہونے والی بد سلوکی پر ڈی ایچ کیو ہسپتال میرپور کے ڈاکٹر ز نے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور ڈاکٹر ز کی تمام تنظیموں کے چند اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیے اور انتظامیہ سے بھی ملاقات کی اور ڈاکٹر زرداد خان پر حملہ کرنے والے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کے لیے ایک ڈیڈ لائن دی اور اس ڈیڈ لائن کے گزر جانے کے بعد آج علامتی ہڑتال شروع کر دی گئی ہے ہم نے اس حوالے سے آزادکشمیر کے پہلے ویب ٹی وی چینل کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی کے پروگرام لائیو ٹاک ود جنید انصاری میں ڈاکٹرز کا انٹرویو کیا تو ڈاکٹر زرداد خان ،مرکزی صدر پی ایم اے آفتاب میر ،ضلعی صدر پی ایم اے ڈاکٹر جاوید چوہدری ،ایم ایس ڈی ایچ کیو ہسپتال ڈاکٹر مشتاق چوہدری ،ڈاکٹر عبدالقیوم اور ڈاکٹر ارشد قریشی کا یہ کہنا تھا کہ ہسپتال میں مریض علاج کے لیے لایا جاتا ہے او ر زندگی اور موت صرف اور صرف اﷲ کے ہاتھ میں ہے کوئی بھی ڈاکٹر جان بوجھ کر کسی بھی مریض کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈالتا لیکن انسانیت کی خدمت کرنے والے پیشے میں کام کرنے والے ڈاکٹر ز اور پیرا میڈیکل سٹاف کے ساتھ مریضوں کے لواحقین جو سلوک کرتے ہیں وہ پاکستان اور آزادکشمیر کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک میں دیکھنے میں نہیں آتا اگر ڈاکٹر زرداد خان پر حملہ کرنے والے لوگوں کو گرفتار نہ کیا گیا تو آزادکشمیر بھر کے ڈاکٹرز کو ہڑتال کی کال دے دیں گے اس کیس میں ڈاکٹر زرداد خان نے مریض کی جان بچانے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ خالق حقیقی سے جاملا ۔ہم نے یہ انٹر ویو جب نشر کیا تو سوشل میڈیا اور فیس بک پر عوام کی بہت بڑی تعداد نے ہمیں سختی سے ڈانتے ہوئے نصیحت کی کہ ہم فوری طور پر جاں بحق ہونے والے محمود مرحوم کے اہل خانہ اور لواحقین کا موقف بھی عوام کے سامنے پیش کریں ہم نے اپنی غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے دس محرم یوم عاشورہ کو سینئر صحافی ممتاز علی خاکسار کے ہمراہ محمود مرحوم کے گھر کا رخ کیا گھر کے اندر گئے اور جب ان کی اہلیہ سے بات چیت شروع کی تو شدت جذبات سے ہم گونگے ہو کر رہ گئے محمود مرحوم کی اہلیہ نے بتایا کہ اس کے تین چھوٹے بچے ہیں اور محمود مرحوم دیہاڑی دار مزدور تھا ایکسیڈنٹ کے بعد وہ اپنی شوہر کے ہمراہ ہسپتال میں موجود تھیں اور ان کے شوہر ان سے باتیں کر رہے تھے ان کا خون بہہ رہا تھا اور انہیں بہت درد ہو رہا تھا انہوں نے ڈاکٹر سے بار بار منت کی کہ انہیں درد کش ٹیکا لگایاجائے اور ان کا خون روکا جائے باوجود کئی دفعہ درخواست کرنے کے ڈاکٹر نے مریض کی کسی بھی قسم کی مدد نہ کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک گھنٹے کے اندر ان کا شوہر اس دنیا سے رخصت ہو گیا محمود مرحوم کی ایک بیٹی جس کی عمر نو سال ہے اس کا نام فاطمہ ہے وہ دس سپارے قرآن پاک حفظ کر چکی ہے جبکہ ایک بیٹا چھ سال کا اور سب سے چھوٹا بیٹا تقریبا تین سال کا ہے محمود مرحوم کی اہلیہ نے تقریبا چیختے ہوئے کہا کہ مجھے بتاؤ کہ میں اب ان بچوں کو کیسے پالوں گی میں کرائے کے مکان میں رہتی ہوں اور کوئی آمدن کا ذریعہ نہیں ہے ان ظالم لوگوں نے میرے سر سے میرا سائبان چھین لیا ۔

قارئین یہاں اب دوسرا ایک چھوٹا سا سچا واقعہ آپ کے سامنے پیش کرتے چلیں کشمیر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میرپور میں دل کے مریض لائے جاتے ہیں یہاں کے انچارج ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر ہیں جبکہ دیگر ڈاکٹرز میں ڈاکٹر رضا گورسی ،ڈاکٹر یوسف چوہدری ،ڈاکٹر امجد ،ڈاکٹر شہنیلہ شامل ہیں یہاں کا پروٹوکول یہ ہے کہ مریض کے پاس صرف ایک فرد تیمارداری کے لیے رہ سکتا ہے کیونکہ تمام مریض دل کے عارضے میں مبتلا ہوتے ہیں اور اس کے علاج کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہاں پر ماحول پر سکون رہے گزشتہ دنوں ایک مریض سے ملنے کے لیے کچھ لوگ پنجیڑی گاؤں سے کے آئی سی آئے اور سنٹر میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ڈیوٹی پر موجود عملے کے ایک نوجوان نے ان سے نرمی سے گزارش کی کہ یہ ملنے کا وقت نہیں ہے او ر مریض کے پاس مزید لوگوں کے جانے کی اجازت نہیں ہے اس پر اشتعال میں آکر نوجوانوں نے عملے کے اس رکن پر حملہ کر دیا اور مار مار کر اس کی بُری حالت کر دی موقع پر موجود ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر نے ایس ایس پی میرپور راجہ عرفان سلیم سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ فوری طور پر غنڈہ گردی کرنے والے ان لوگوں کو گرفتا ر کیا جائے ۔راجہ عرفان سلیم نے برق رفتاری سے کام کرتے ہوئے ان لوگوں کو گرفتار کر لیا ۔

قارئین برطانیہ اور یورپ سمیت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں تمام ہسپتالوں کے باہر ایک ’’ غیر تحریر شدہ آپشن ‘‘ لکھا ہوتا ہے کہ آپ کس طریقے سے علاج کروانا چاہتے ہیں نیچے دو تصاویر بنی ہوتی ہیں ایک تصویر میں ڈاکٹرز اور نرسز مریض کا علاج کر رہے ہوتے ہیں اور دوسری تصویر میں پولیس ’’ بیماروں کا علاج‘‘ کر رہی ہوتی ہے بد قسمتی سے آزادکشمیر اور پاکستان میں نان ایشوز کو ایشو بنایا جاتا ہے ڈاکٹر ز اور عوام کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے ہم یہاں چند سوالات کرنا چاہتے ہیں اگر ہسپتال کے اندر ہمارے حکمرانوں نے اتنا بجٹ رکھا ہوتا کہ ایکسیڈنٹ اور ایمر جنسی کیسز میں مریضوں کی جان بچانے کے لیے سرجری کا ضروری سامان اور ادویات موجود ہوتیں تو کیا محمود مرحوم سمیت سینکڑوں معصوم انسانوں کی جانیں بچانے کا راستہ نہ نکل سکتا ۔اگر آزادکشمیر کے مختلف سابق صدور ،وزراء اعظم اور وزرا کے علاج کے لیے زکواۃ فنڈ سے کروڑوں روپے کی رقوم نکلوائی جا سکتی ہیں تو عوامی بجٹ سے عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کیوں نہیں کیا جاتا ؟یہ دو سوالات ہم پورے معاشرے کے سامنے رکھ رہے ہیں ان سوالات کی روشنی میں حکمران اپنا احتساب کریں کہ انسانی جانوں کے ضیاع میں کس کا کتنا قصور ہے اور عوام اپنے گریبان میں جھانکیں کہ آخر کیوں وہ ایسے قاتل ظالموں کو حکمرانوں کی کرسی پر بٹھاتے ہیں جو انہی کو قتل کرنے کے لیے مختلف ستم ایجاد کرتے ہیں یہاں ہم ایک چیز کی طرف پورے سماج کی توجہ پوری قوت کے ساتھ مبذول کروانا چاہتے ہیں دنیا بھر کے مہذب ممالک میں انسانیت کی خدمت کرنے والے پیشے کے تقدس پر ’’ زیر و ٹالرنس ‘‘کی پالیسی موجود ہے برطانیہ میں گزشتہ دنوں موجودہ وزیراعظم برطانیہ ایک ہسپتال کے ایک وارڈ میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر تشریف لے گئے جس پر ڈاکٹر نے غصے میں آکر وزیراعظم کو ’’ Get Out‘‘اور ’’ Get Lost‘‘کے خطابات سے نوازتے ہوئے وہاں سے نکال دیا اور اگلے دن وزیراعظم نے الیکٹرونک میڈیا پر آکر عوام سے معافی مانگی ۔آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں بد معاشوں اور رسہ گیروں کو تو جھک کر سلام کیا جاتا ہے لیکن انسانیت کی خدمت کرنے والوں کو جسمانی ،روحانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہاں محمود مرحوم کی مدد کے لیے ہم آپ سب لوگوں سے اپیل کریں گے کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید جو خود کو ایک درویش اور مجاور وزیراعظم کہتے ہیں ان سے اپیل کی جائے کہ وہ اس بے آسرا اور بے سہارا خاندان کی سرکاری خزانے سے مدد کریں ویسے تو سرکاری خزانے سے وزیراعظم آزادکشمیر حال ہی میں شنید ہے کہ کئی کروڑو روپے رقم نکلوا کر برمنگھم برطانیہ کے جلسے کے لیے تشریف لے گئے ہیں لیکن اگر کچھ پیسے اس عظیم الشان جلسے کے اخراجات میں سے بچ جائیں تو اس پیسے کو اس بے وسیلہ خاندان کی نذر کر دیا جائے ۔شاید یہی چوہدری عبدالمجید کے لیے توشہ آخرت بن جائے ۔یہاں بقول چچا غالب یہ کہتے چلیں
عشرت ِ قطرہ دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
تجھ سے قسمت میں مری صورت قفلِ ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
دل ہوا کشمکش چارہ زحمت میں تمام
مسٹ گیا گھسنے میں اس عقدہ کا وا ہو جانا
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اﷲ اﷲ !
اس قدر دشمنِ ارباب وفا ہو جانا
ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
دل سے مٹنا تری انگشت خائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہوجانا
ہے مجھے ابر بہاری کا برس کر کھلنا
روتے روتے غمِ فرقت میں فنا ہو جانا
گر نہیں نکہت گل کو ترے کوچے کو ہوس
کیوں ہے گر درہ جولان صبا ہو جانا
تا کہ تجھ پر کھلے اعجاز ہو ائے صیقل
دیکھ برسات میں سبز آئینے کا ہو جانا
بخشے ہے جلوہ گل ذوق تماشا غالب
چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا

قارئین یہاں پر ہم یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ اگر عوام میں اور آپ ہم سب مل کر کچھ ایشوز پر ’’ زیرو ٹالرنس ‘‘ کی پالیسی اپنا لیں تو نہ صرف حکمرانوں کا قبلہ درست ہو سکتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بے آسرا تاریک راہوں میں جان دینے والے مظلوموں کے زخموں کا مداوا بھی ہو سکتا ہے ہسپتالوں ،تھانوں اور عدالتوں میں دھکے کھانی والی بے آسرا مخلوق اگر جینے کے لیے مرنے کے حق کو استعمال کرنا شروع کر دے تو کوئی بھی ظالم کسی کا بھی استحصال نہیں کر سکتا ۔صرف ایک حرف انکار اور حرف بغاوت سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے لیکن دانشمندی کے تقاضے یہ بھی ہیں کہ ظالموں اور محسنوں میں پہچان ضرور کی جائے ڈاکٹر اس معاشرے کی کریم ہیں اگر ڈاکٹر فرائض منصبی ادا کرنے میں غلطی کرے تو مناسب فورم پر شکایت کی جائے مریضوں کی علاج گاہ ہی کو عدالت اور ’’ پھانسی گھاٹ‘‘بنانا کبھی بھی قوم کے مفاد میں نہیں ہو سکتا اگر ڈاکٹر زرداد خان نے پیشہ وارانہ کوتاہی کی ہے تو انہیں غلطی کی سزا ملنی چاہیے لیکن اگر بے گناہ ہیں تو ان کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے والوں کو تادیبی کارروائی کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دینا چاہیے یہ علیحدہ بات کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ وفات پانے والے محمود مرحوم کے غم کا احسا س کر کے ڈاکٹر زرداد یقینا ان کی اس غلطی کو معاف کر دیں گے ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک پاگل پاگل خانے سے علاج کروانے کے بعد صحت یاب ہو کر گھر جانے لگا تو پاگل خانے کے ڈاکٹر نے مخاطب ہو کر اس سے پوچھا
’’ بھائی اب کیسا محسوس کر رہے ہیں صحت یاب ہو کر گھر جاتے ہوئے خو ش تو ہیں ناں ‘‘
سابقہ پاگل نے روہانسہ ہو کر کہا
’’ ڈاکٹر صاحب خاک خوش ہوں گھر سے آیا تھا توامریکہ کا صدر تھا اب عام آدمی بن کر باہر جا رہا ہوں ‘‘

قارئین مختلف مراحل سے گزر کر ہمیں یوں لگتا ہے کہ ہماری قوم بھی پاگل پن کی سر حد کو چھو رہی ہے تبدیلی ضرروی ہے ورنہ یہ پوری قوم مجنوں ہو جائے گی ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374734 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More