تحریر۔۔فضل خا لق خان
صوبے کے عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کررہے ہیں،وزیر اعلیٰ پرویز
خٹک
عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی صوبائی حکومت کا مشن ہے، وزیر صحت خیبر
پختونخوا
عوام کو صحت کی فراہمی میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کرینگے اور اس
قسم کے بہت سے دیگر بے شمار فقرے جو آئے روز صوبے کے حکمرانوں اور خیبر
پختونخوا کے مختلف حلقوں سے منتخب ممبران اسمبلی کا تکیہ کلام بن کر
اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنے رہتے ہیں او ر پارٹی ورکرز سمیت صوبے کے
عوام ان نعروں کی دلفریبی میں گم ہوکر اپنے تئیں سمجھ لیتے ہیں کہ خیبر
پختونخوا میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوگئی ہیں لیکن جب سچ کا
سامنا کرنا پڑتا ہے تب آٹے دال کا بھاؤ معلوم پڑ جاتا ہے اسی قسم کے ایک
تلخ تجربہ سے ہمیں بھی گزشتہ دنوں گزرنا پڑا جب ہمارے بہت ہی پیارے اور
محتر م بڑے بھائی پروفیسر فضل واحد خان کے بائی پاس آپریشن کے سلسلے میں
صوبے کے سب سے بڑے لیڈی ریڈنگ اسپتال کے آپریشن تھیٹر کے انتظامات دیکھ کر
ہوا ، آپریشن کے لئے اس دن چار مریضوں کا انتخاب کیا گیا تھا جنہیں رات ہی
سے کھانے پینے سے منع کرنے کے ساتھ ساتھ صبح پائیوڈین سے غسل کرنے کے تکلیف
دہ عمل سے گزارا گیا تھا پھر انہیں اپنے پیاروں کی ڈھیر ساری دُعاؤں کے
ساتھ آپریشن تھیٹر میں لے جانے کے بعد تین چار گھنے اذیت کی سولی پر چڑھا
کر بار بار یہ کہا جارہا تھا کہ بجلی کی وولٹیج کم ہونے کے باعث آپریشن میں
تاخیر ہے ، اس دوران سٹا ف کی نرسوں میں سے ایک نرس نے صورت حال کو بھانپتے
ہوئے چپکے سے ہمیں مطلع کیا کہ مریض کو کمرے میں واپس لے جایا جائے کیونکہ
کم وولٹیج(بظاہر بہانہ درحقیقت ناقص انتظامات )کے باعث آپریشن ہونا ممکن
نہیں جس پر متعلقہ آپریشن کرنے والے ڈاکٹر نے ایک بار پھر ہمیں صبر کرنے کا
کہا لیکن تین چار گھنٹے کی طویل انتظار کے بعد’’ ان کا‘‘ وولٹیج درست نہ
ہونے کے بعد بالا آخر ہمیں اگلے تین دن بعد آپریشن کا کہہ کرمریض کو کمرے
میں منتقل کرنے کی ہدایت کی گئی لیکن بھائی کی حالت ٹھیک نہ ہونے کی بناء
پر ہمیں مجبوراً رحمان اسپتا ل کے مہنگے علاج کا سہار الینا پڑا کہ ناگزیر
تھا۔
اب سوال یہ نہیں کہ مریضوں کو تین دن آپریشن کے لئے انتظار کرنا پڑے گا
بلکہ کئی سوالات ہیں کہ مریض کو بے جا انتظار کی سولی پر چڑھانے کے نتیجے
میں اس کی کیفیت کیا ہوگی، مرض کی شدت کی وجہ سے اسے کن تکالیف کا سامنا
کرنا پڑ رہا ہے ، اس انتظا ر کے نتیجے میں جو اضافی اخراجات اُٹھ رہے ہیں
اس کا ذمہ دار کون ہے، اور سب سے بڑھ کر مریض کے ساتھ دور دورسے آنے والے
تیماردار جو اپنے ہزار ہا کام ادھورے چھوڑ کر تیمارداری میں مصروف ہیں ان
کی تکلیف کا ذمہ دار کون ہے۔
یقینامحکمہ صحت کے وزیر سے لے کر دیگر حکام تک سب اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ
ان کی کوتاہی اور غفلت کے باعث صوبے کے سب سے بڑے اسپتال کی یہ حالت زار
کیوں ہے ،یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ صوبہ کے قلب میں واقع اسپتال جس
میں آئے روز مختلف حادثات کی وجہ سے وزیر اعلیٰ سمیت وزیر صحت اور دیگر
اعلیٰ حکام کا آنا جانا معمول ہے اور ان کے علم میں ایسے معاملات کو گاہے
بگاہے میڈیا کے ذریعے لایا جاتا رہا ہے پھر بھی ایسے معامالات پر چشم پوشی
ان کی نااہلی کی انتہا نہیں تو کیا ہے؟اور یقینی طورپر اس پر جتنا بھی
افسوس کیا جائے کم ہے۔
صوبے کے حکمرانوں اور انصاف کے دعویدارو کی جانب سے ایک پروگرام شروع کیا
گیا ہے جس کا نام صحت کا انصاف رکھا گیا ہے اور اس کے تحت صوبے کے تمام
اسپتالوں میں عوام کو صحت کی تمام بنیادی سہولیات کی’’ مفت‘‘ فراہمی اولین
شرط ہے لیکن یہ بات عام مشاہدے میں ہے کہ مریض سے علاج کے دوران مطلوبہ
ادویات میں’’ سرنج‘‘ تک بازار سے منگوائے جاتے ہیں،جبکہ بسا اوقات اپنی
جیبیں گرم کرنے کے لئے اضافی ادویات کی لسٹ میں موجودگی تو عام سی بات بن
گئی ہے جسے بعدا زاں اسپتال کا عملہ بازاروں میں فروخت کرتے ہوئے اکثر
دیکھنے بلکہ میڈیا کے ہاتھوں پکڑے جانے کی خبریں اخبارات کی زینت بنتے رہتے
ہیں،اس دن بھی میں دیکھ رہا تھا کہ جتنے مریض ہیں انہیں آپریشن سے قبل
دواؤں کی ایک لمبی لسٹ تھمادی گئی جن میں سے عملے کے بعض شناساؤں کے بقول
بہت سی ادویات غیر ضروری تھے لیکن آپریشن تھیٹر میں جانے کے بعد پھر کون اس
کا حساب کرے گا۔
اس کے علاوہ صوبہ کے تمام سرکاری اسپتالوں کی حالت زار سے کون واقف نہیں
،عملے کا ناروا رویہ ، صفائی کی ابتر صورت حال،خواتین وارڈ ز میں مرد عملے
کے افراد کی غیر ضروری بھرمار ،ان تمام مسائل حل کرنے کیلئے کون سے عملی
اقدامات اُٹھائے گئے ہیں جن سے آئے روز ہزاروں افراد کا سامنا رہتا ہے اور
وہ اس عذا ب سے گزر کر بالا آخر پرائیویٹ اسپتالوں کا رُخ کرنے پر مجبور
ہوتے ہیں جہاں پر اگر انہیں مہنگے علاج کے سولی پر لٹکنا بھی پڑتا ہے توکم
ازکم مطمئن تو ہوتے ہیں کہ سرکاری اسپتالوں میں بے وقت کی موت سے بچ گئے،
صوبے کے حکمرانوں سے عوام کا یہ سوال بجا ہے کہ وہ اسلام آباد میں بیٹھ
کراس مقولے پر کیوں عمل پیرا ہیں کہ ’’رات کو کھاؤ پیو،دن کوآرام کرو‘‘اس
کی بجائے اگر وہ خیبر پختونخوا کے عوام کے دئیے گئے مینڈیٹ کا احترام کرتے
ہوئے یہاں کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کریں تو یقینی طورپر
اگلے الیکشن میں صوبہ تو کیا پورے ملک کے عوام تحریک انصاف کی قیادت کو
وزیر اعظم کا سیٹ طشتری میں رکھ کر پیش کرینگے بصورت دیگر ڈنگ ٹپاؤ پالیسی
کے نتیجے میں ا گلے الیکشن میں گھر جانا ان کا مقدر ٹہرے گا۔ |